Friday, November 26, 2004

کتّے صاحب !

مرد کیلئے ہاتھ گاڑی اسکا اپنا سکون ہے، یہی سکون اگر جانوروں کو ملتا تو آج آوارہ کتّوں کی آبادی قدرے کم ہوتی اور کتیا ہے کہ پورے آدھا درجن کتّوں کو جنم دیتی ہے، اچھا ہوا یہ مقدار انسانوں میں نہیں! سمجھ میں نہیں آتا جب دنیا میں اتنے سارے جانور ہیں، تو کتّوں کی کیا ضرورت تھی؟ خیر اگر کتّوں نے بھی اپنا حق جتاکر دنیا میں آنا چاہا تو جنگلوں میں جانے کے بجائے انسانی آبادی کی طرف کیوں آگئے؟ یہاں تک کہ انسانوں کے گھروں میں گھس کر خواتین کو اپنی چاہت میں پھنساکر ان کی گودوں میں جا بیٹھے! بھلا ہو ان لوگوں کا جو نائٹ شفٹ ڈیوٹی کرکے سیدھا سیدھا گھروں کو لوٹتے ہیں، مگر اپنے گھروں تک پہنچنے کیلئے روزانہ کتّوں سے جنگ جیتنا ضروری ہے ـ کتّے عوام کا جھوٹا کھاتے ہیں اور بھونکتے بھی عوام پر اور کاٹ بھی لیتے ہیں ـ ان کی بھونکنے کی آواز کانوں کو منحوس لگتی ہے، شکل سے ہیں ہی کتّے ـ عام انسان شیر سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا کتّے سے ڈرتا ہے کیوں کہ شیر کو دیکھتے ہی دل کی دھڑکن بند ہوجاتی ہے اور کتّے کے سامنے آتے ہی جسم کانپنے لگتا ہے اور انسان سکتے میں آجاتا ہے ـ نائٹ شفٹ ڈیوٹی کرنے والوں کا سب سے بڑا دشمن کتّا ہی ہے، نائٹ شفٹ کرنے والے انسان چوروں، ڈاکوؤں سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا کتّے سے ڈرتے ہیں ـ راتوں کو اخباری نمائندے کرفیو سے بچ نکلتے ہیں مگر کتّوں سے نہیں ـ نائٹ شفٹ کرنے والے تین قسم کے عظیم انسان ہیں جو کتّوں کو بالکل پسند نہیں کرتے: اخباروں میں کام کرنے والے، دودھ کے ٹرانسپورٹر اور راتوں کو چوری کرنے والے احباب ـ

Post a Comment