بچ گیا
کچھ نہیں ہوا، میرے ہاتھ پیر بھی سلامت ہیں اور اپنے بلاگ کیلئے یہ دوسری پوسٹ بھی لکھ رہا ہوں ـ صبح سے ہی طرح طرح کے خیالات آرہے تھے کہ اس لبنانی لڑکی نے اپنے گھر والوں کو میری شرارت کے بارے میں بتا دیا ہوگا اور اسکے چاروں بڑے بھائی پوری تیاری کے ساتھ میری تاک میں ہوں گے! باپ رے ــ سوچتے سوچتے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے ـ آج بھی روز کی طرح اسی راستے سے گذر ہوا، دور سے ہی اس لبنانی حسینہ کو دیکھ کنارے ہوگیا اور پارکنگ میں کھڑی کاروں کے پیچھے سے چھپ کر دفتر تک پہنچا ـ مزے کی بات یہ ہے کہ اس لڑکی نے بھی مجھے دیکھ کر تھوڑی دیر کیلئے عمارت کے اندر چلی گئی تھی اور جب میں نے اسے دور سے اس کی طرف دیکھا تو وہ بھی جھانک جھانک کر دور ہی سے مجھے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی ـ
وہ تو کل کی بات تھی، آج اسے آنکھ مارے تیسرا دن ہے ـ آج تو وہ سر پر اسکارف پہنے کھڑی تھی ـ کل کی طرح آج بھی پارکنگ میں کھڑی کاروں کے پیچھے سے ہوتے ہوئے دفتر پہنچا ـ جس لڑکی کو روزانہ اسکے قریب سے ہوتے ہوئے نظروں سے ملاقات کرتا تھا، پرسوں اسے آنکھ مارنے کے بعد اب نظریں ملانے کی ہمّت نہیں ہورہی ہے ـ اب نہیں معلوم کل کیا ہوگا، معابلہ بہت گمبھیر ہوگیا ہے ـ