نئی باتیں / نئی سوچ

Friday, January 28, 2005

آج زلزلہ

میرے ایک سچے مسلمان دوست نے پورے جوش کیساتھ کہنا شروع کیا کہ سونامی عذاب الہی ہے ـ ـ ـ میں بھی جوش میں اٹھ کھڑا ہوگیا اور اپنے مسلمان دوست سے پوچھا: اگر سونامی عذاب الہی ہے تو افغانستان اور عراق پر کونسا عذاب ہو رہا ہے؟ ظاہر ہے افغانستان کے بعد عالمی سپر طاقتوں کے اتحاد سے فی الحال عراقی عوام پر عذاب ہو رہا ہے ـ یہی وہ عالمی اتحاد ہے جس کی وجہ سے عراق میں روزانہ درجنوں افراد ہلاک ہو رہے، دنیا بھر کے عوام عراقیوں کی حمایت میں چیخ و پکار کرنے کے بعد اب آواز ہی دب گئی ہے مگر وہاں عالمی اتحاد ہر دن مضبوط اور مستحکم ہوتا جارہا ہے کیونکہ اتحاد آخر اتحاد ہے ـ منحوس ذہنوں پر روزانہ سائنس کے تھپڑ جاری ہیں پھر بھی یہ منحوس اور کند ذہن لوگ سونامی کو عذاب الہی سمجھ کر اپنے آپ میں جھوٹی تسلّی رکھتے ہیں ـ سمندر کے نیچے اچانک چٹانوں کی رگڑ سے سونامی آیا جس کی وجہ سے لاکھوں افراد ہلاک ہوگئے ـ سونامی سے لاکھوں اموات کا ذمہ دار کون ہے اور عراق میں ہلاک ہونے والے ہزاروں انسانوں کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ ہم سب اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہیں پھر بھی پرانے اور خیالی باتوں سے لطف اٹھانا فطرت میں شامل ہے ـ ایک طرف دنیا کا قدرتی نظام اور دوسری طرف دنیا پر راج کرنے والے طاقتور حاکم ـ دنیا میں انسان حاکم بھی ہے اور محکوم بھی ـ تمام تاریخی اور مقدس مانے جانے والی کتابیں گواہ ہیں کہ زمانہ دراز سے کچھ بھی حاصل کرنے کیلئے جنگیں لڑی جاتی تھیں، ایک بادشاہ پڑوسی ملک کے بادشاہ کو اچانک تاراج کرنے کے بعد اسکی حکومت پر قبضہ کرلیتا تھا ـ اور آج بھی یہاں یہی روایت چلی آرہی ہے کہ طاقتور ملک کمزور ملکوں پر ہمیشہ اپنا دبدبہ قائم رکھنا چاہتا ہے ـ یہ تحریریں میرے ہمخیالوں کیلئے لکھ رہا ہوں ـ آپ دیکھنا ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ سائنسدان صاف صاف الفاظوں میں بتا دیں گے کہ آج صبح ٹھیک نو بجے فلاں جگہ زلزلہ آئے گا ـ مجھے یقین ہے تب بھی منحوس ذہن رکھنے والے سائنسدان کو خود منحوس سمجھیں گے یا پھر سائنسدانوں کو زلزلے سے ہوئی تباہیوں کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے کیونکہ کہ بیچارے سائنسدان نے اپنے علم کے مطابق عوام کو انتباہ کردیا ـ

Post a Comment

ترقی چاہتا ہوں

ہمیشہ سے میری ننھی منی امیدیں کامیاب ہوجاتی ہیں مگر اب کی بار تمام ننھی منی امیدوں کو یکجا کرکے بڑے پیمانے پر ایک امید بنا رہا ہوں ـ فی الحال ہاتھ دھوکر ایجنٹوں کے پیچھے بھاگ رہا ہوں کہ بھائی مجھے یوروپ جانا ہے کیسے بھی جرمنی یا آسٹریا تک پہنچا دیں ـ پلیز ـ پلیز ـ پلیز ایجنٹ تو ایجنٹ ہوتے ہیں، بہت سارا روپیہ لیکر کام پورا کرتے ہیں مگر اب تمام ایجنٹوں کا ایک ہی جواب ہے: اب پہلے جیسا نہیں رہا، بہت مشکل ہے ویزا نکالنا ـ یہ جواب سنتے سنتے میرے کان پک گئے، میرا یہی کہنا ہے کہ کسی بھی طرح مجھے جرمنی یا آسٹریا پہنچا دیں نوکری دھونڈنا میرا کام ہے ـ بہت ہوگیا، اب مجھے اپنے فیوچر کی فکر ہے اور کسی سے امید بھی نہیں رکھنا چاہتا جو بھی ہو اپنے بل بوتے پر کرنا چاہتا ہوں ـ والدین نے مجھے کمائی کا راستہ نہیں دکھایا اور نہ ہی تعلیم کی طرف راغب کروایا ـ اب تک جو بھی کیا خود کیلئے صحیح کیا اور تعلیم مکمل ہونے سے پہلے اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا ـ امّی کہتی ہیں: بیٹا دو سال مکمل ہوگئے تجھے دیکھ کر، اب گھر واپس آکر اپنا چہرا دکھا دے ـ کاش کہ ایسا ممکن ہوتا، ویسے امّی کو اب تک بتایا نہیں کہ گھر واپس آنے کی نہیں بلکہ یوروپ جانے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھا ہوں ورنہ امّی کا روتے روتے برا حال ہوجاتا ـ میں کیاں کروں؟ مجھے اپنا فیوچر بنانا ہے کچھ حاصل کرنے کیلئے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے ـ یہ بات بھی صحیح ہے کہ آج بنگلور شہر میں کسی چیز کی کمی نہیں، وہاں لوگ ہزاروں نہیں لاکھوں کما رہے ہیں ـ آج بنگلور میں روپیہ کمانے کیلئے بے شمار راستے بھی ہیں، دنیا بھر کی ہزاروں کمپنیاں بھی ہیں مگر میرے خیال میں مجھے اپنوں سے اور اپنے شہر سے دور رہ کر ہی روپیہ کمانا ٹھیک ہے ـ مانتا ہوں کہ جرمنی پہنچنا مشکل ہے، لیکن کوشش کرنے سے تمام راہیں آسان ہوجاتی ہیں ـ پہلے خیال آیا کوشش کرکے فرانس چلا جاؤں چونکہ وہاں فیشن مصنوعات کی بے شمار کمپنیاں ہیں مگر جرمنی اور آسٹریا میں میرے لائق بے شمار دروازے کھلے ہیں جہاں پر اپنے ہنر سے روزگار حاصل کروں گا ـ

Post a Comment

ننگی تصویریں

موبائل فون میں موجود نئی ٹیکنالوجی ’’بلوتوتھ‘‘ کی وجہ سے آجکل میرے موبائل فون میں ننگی تصویریں آنے لگی ہیں ـ بلوتوتھ موبائل فون پر ایک نئی وائرلیس ٹیکنالوجی ہے جو ایک موبائل سے دوسرے موبائل پر مسیج، فوٹو، ویڈیو فائل ارسال کرسکتے ہیں جس کا کوئی پیسہ چارج نہیں ہوتا اور نہ ہی بھیجنے والے کا نمبر اور پتہ ـ آج یہاں ہر تیسرے آدمی کے پاس بلوتوتھ والا موبائل فون سیٹ ہے اور ہر بڑے شہر میں سیکس یا ننگے پن کو اولین درجہ حاصل ہے ـ پہلے ایک موبائل سے دوسرے موبائل کو تصویریں بھیجنے یا ویڈیو فائلیں بھیجنے کیلئے روپیہ خرچ ہوتا تھا مگر اب بلوتوتھ ٹیکنالوجی کی مدد سے پندرہ میٹر کے اندر کسی بھی دوسرے موبائل پر ڈیٹا یا تصویریں بھیج اور منگوا سکتے ہیں ـ مزے کی بات یہ ہے کہ بلوتوتھ اور انفرا ریڈر کے ذریعے تصویریں بھیجنے والے موبائل کا فون نمبر پتہ نہیں چلتا اور تصویر وصول کرنے والے موبائل فون کو صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ یہیں قریب کسی نے اپنے موبائل کے بلوتوتھ کی مدد سے یہ تصویر بھیجی ہے ـ بلوتوتھ کے ذریعے صرف ننگی تصویریں ہی نہیں وائرس بھی آتا ہے جس کی وجہ سے موبائل سیٹ پھیکنے لائق کا ہوجاتا ہے ـ عرب لوگوں کا شوق صرف اور صرف سیکس ہے، سوتے جاگتے، کھاتے پیتے ہمیشہ سیکس کے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنے موبائل سیٹس میں بھی ننگی تصویریں بڑے احترام کے ساتھ فائل کرتے ہیں تاکہ تنہائی یا باتھ روم میں کام آسکے ـ راہ چلتے بلوتوتھ کے ذریعے دوسروں کے موبائل پر بھی وائرلیس طریقے سے یہ ننگی تصویریں بھیجتے ہیں اور وصول کرنے والا اچانک چونک کر مسکرا دیتا ہے کہ ننگی تصویریں اور وہ بھی مفت میں؟ اور پھر وہ دوسروں کو یہ تصویریں بھیجتا ہے مگر وصول کرنے والے کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ تصویریں اور ویڈیو فائلس کس نے بھیجا ـ ٹیکنالوجی کا کمال ہے، کاش پرانے زمانے میں بادشاہوں اور نوابوں کے پاس یہ ٹیکنالوجی ہوتی ـ

Post a Comment

چھٹیوں کا چاند

پتہ چل گیا کہ بقر عید ٢٠ جنوری بروز جمعرات کو مقرر ہے، شکر ہے چاند دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، اب میں اطمینان کے ساتھ سانس لے سکتا ہوں ـ ہمیشہ رمضان کی عید سے چند روز قبل میری تو سانسیں پھولنے لگتی ہیں اور پھر دل کی دھڑکنیں تیز ہوکر تھنڈی ہوجاتی ہیں ـ اکثر رمضان میں دل پر دورے پڑتے ہیں یہ افواہیں سنتے سنتے کہ عید ٢٩ کو ہے، کوئی کہتا ہے ممکن ہے عید بروز پیر ہے اور کوئی کہتا ہے عید تو اتوار کو ہی ہوگی ـــــ اسکے منہ میں مٹی ـــــ کیونکہ مجھے عید سے کوئی مطلب نہیں مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی عید ہو یا عام تعطیل اگر اتوار کو ہے تو چھٹی ـ چھٹی جیسی نہیں لگتی ـ اس بقر عید میں چھٹیوں کا صحیح مزہ مل پائے گا کیوں کہ عید جمعرات ہوگی اور اس خوشی میں دو دن چھٹی ہوگی یعنی جمعرات اور جمعہ، اور پھر ہفتے کے دن ڈیوٹی پر حاضری دینا ہے لیکن پھر اتوار کے دن ہماری معمول کی چھٹی ـ رمضان کی عید کے موقع پر شدید تکلیف ہوئی کیوں کہ عید ہفتہ کے دن آگئی اور اتوار کے دن معمول کی چھٹی بہت افسوس ہوا مگر اب بقر عید کے موقع پر مکمل تین دنوں کی چھٹیاں نصیب میں آئی ہیں درمیان میں صرف ہفتے کے دن ڈیوٹی پر آنا ہوگا، کوئی بڑا مسئلہ نہیں ـ شکر ہے بقر عید کیلئے سر اٹھاکر چاند دھونڈنے کی ضرورت نہیں ـ

Post a Comment

ٹائم پاس

یاھو چیٹ روم میں داخل ہوا، فرینڈس چینل میں ایک کیمرے والے آئی پر ڈبل کلک کردیا، خوش قسمتی سے مجھے اجازت مل گئی ـ ـ ـ ـ ـ کیا بھیانک شیطان تھی، فورا اسکے کیمرے کو بند کردیا، مگر وہ تو میرے پیچھے ہی پڑگئی، کہنے لگی نائجیریا کی ہوں اور تمہیں ایک بزنس کے بارے میں بتاؤں گی لاکھوں ڈالرس کا فائدہ ہوگا ـ بھیانک بدشکل نائجیریائی لڑکی مجھے پھنسانا چاہتی تھی، اگر اسکی جگہ کوئی امریکی یا کینیڈین خوبصورت لڑکی ہوتی تو کوئی اور بات ہے ـ خوبصورت لڑکی کیلئے لاکھوں ڈالر تو کیا کمیشن میں پانچ ڈالر کیلئے بھی تیار ہوجاتا چاہے میرا نقصان بھی کیوں نہ ہو ـ اب میں دوسرے لڑکیوں کی تلاش میں کیمرے والے آئی ڈیز پر ڈبل کلک کرنا شروع کردیا جن میں ہمیشہ لڑکے نمایاں ہوئے، کیا خاک لڑکیوں کی آئی ڈیز سے چیٹ کرتے ہیں اور چند کیمرے والوں نے مجھے منع کردیا ـ یوں دھونڈتے دھونڈتے بالآخر ایک اور کیمرے والی آئی ڈی پر دایاں بٹن دباکر اسکا کیمرا کھولنے کی اجازت چاہا اور چند ہی سکینڈ میں اجازت بھی مل گئی ـ موصوفہ فلپائنی اور ٣٢ سالہ تھیں، اسکی ناک کسی چمپانجی جیسی یعنی چپٹی موٹی اور اطراف پھیلی ہوئی تھی یعنی ناک سے بہت ہی بدشکل لگ رہی تھی باقی سب سہی تھا پھر بھی ٹائم پاس کرنے کیلئے میں نے اپنے بارے دو لفظ سچ سچ بتا دیئے، میری عمر ٢٤ سال ہے اور فی الحال سائبر کیفے سے چیٹ کر رہا ہوں ـ میرے پاس بھی کیمرا تھا اور موصوفہ نے مجھے بھی دیکھنے کی فرمائش کی جو میں نے اجازت دیدیا ـ اب معمول کی طرح فلپائنی عورت سے اپنی مردانگی کا ثبوت دیتے ہوئے خواہش ظاہر کیا کہ اپنے بلاؤز کے بٹن کھولے اور مجھے دکھائے ـ چمپانجی یعنی فلپائنی عورت نے منع کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ پہلے میں اپنی پتلون اتار کر اسے دکھاؤں ـ اس پر لعنت بھیجتے ہوئے کہا کہ تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میں سائبر کیفے سے چیٹ کر رہا ہوں، یہاں پر لوگوں کا رش ہے جب کہ تم گھر میں اکیلی ہو ـ یہ عورت بہت ضدی نکلی ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ ـ پہلے تم ـ پہلے تم ـ میں نے ویب کیمرا ہاتھ میں پکڑ کر چاروں طرف گھمایا تاکہ اسے یقین ہوجائے کہ یہاں میں اکیلا نہیں بلکہ آس پاس بہت سارے لوگ انٹرنیٹ براؤس کر رہے ہیں، بھلا یہاں کیسے اپنی پتلون اتار سکتا ہوں ـ پھر بھی اس عورت کا ایک ہی جواب تھا ـ پہلے تم ـ میں نے فلپائنی عورت سے غصّے میں آکر کہا: تمہاری وجہ سے یہاں سائبر کیفے میں میرا وقت اور روپئے ضائع ہورہے ہیں ـ تھوڑا تو دکھا دو، احسان مند رہوں گا ـ اب میں منّت سماجت کرنے لگا ـ چمپانجی تھی کہ ٹس سے مس نہیں ہوئی اور جواب میں لکھا : پہلے تم ـ مجھے بہت غصّہ آیا، عورت کو دو چار فصیح انگریزی میں گندی گندی گالیاں لکھ بھیجا اور پھر اسے اگنور بھی کردیا ـ دراصل یاھو مسینجر پر اپنی دوست ژوسیا کے انتظار میں بیٹھا تھا اور ٹائم پاس کرنے کیلئے یاھو کے چیٹنگ چینلس میں گھس گیا جہاں یہ واقعات رونما ہوئے ـ ژوسیا آن لائن نہ ہوسکی بلکہ میرے موبائل پر مسیج بھیج کر اس نے بتایا کہ اسکے گھر مہمان آئے ہوئے ہیں ـ میں نے ژوسیا کو جھوٹ موٹ کا آف لائن مسیج لکھ چھوڑا : تمہارے آن لائن نہ آنے کیوجہ سے دو لڑکیوں سے چیٹنگ ہوئی جو بہت اچھی تھیں ـ

posted by Shuaib at 9:53 AM 0 comments

Post a Comment

انجوائیمنٹ

میرے فلاٹ والے ساتھی چھٹی کے دن پائجامہ پہن کر، کپڑے واش کرنے، فلاٹ کی پاکی صفائی کرنے، مزیدار ڈشیں بنانے اور پھر سی ڈی لگواکر فلمیں دیکھنے بیٹھ جاتے پھر شام کو کسی بڑے شاپنگ مال یا کورنیش کے سامنے یا پھر سمندر کنارے تھوڑی دیر ٹہل کر واپس آجاتے ہیں اور رات کو کھانا کھانے کے بعد پھر کوئی مووی دیکھ کر سوجاتے ہیں ــــ بس ختم ہوگئی چھٹی ـ لیکن میں تھوڑا مختلف ہوں، چھٹی کیا چیز ہے کوئی مجھ سے پوچھے اور فلاٹ میں ایسے رہتا ہوں جیسے مہمان ہوں، کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ کب فلاٹ سے نکلا پھر رات سب کے سونے کے بعد اپنے موبائل فون کی روشنی سے اپنا پائجامہ دھونڈ کر پہن لیا اور پھر آہستہ سے اپنے بیڈ پر سوگیا ـ یہ میرا معمول ہے ـ چھٹی کے ایک دن پہلے رات دیر سے سوتا ہوں اور چھٹی کے دن صبح دیر سے اٹھتا ہوں ـ نہانے کے بعد چائے پیا، کپڑے تبدیل کئے اور بغیر کسی آواز کے فلاٹ کے باہر نکل گیا ورنہ اگر کسی ساتھی نے دیکھ لیا تو آواز آئے گی: شعیب بھائی کہاں جارہے ہو، شعیب کہیں مت جانا آج دوپہر کو بریانی بن رہی ہے، شعیب اگر دبئی جارہے ہو تو تھوڑی دیر انتظار کرو میں بھی ساتھ چلوں گا، شعیب جلدی سے پائجامہ پہن کر آؤ فلاٹ کی صفائی کرنی ہے، وغیرہ وغیرہ ـ ـ ـ ـ مجھے ایڈونچر کرنا، لمبے سفر پر جانا، نئے علاقوں کو دیکھنا، دوسروں سے جان پہچان بنانا، نئی معلومات حاصل کرنا وغیرہ بہت پسند ہے ـ چھٹی کے دن میں کہاں ہوں خود کو نہیں معلوم ـ چاکلیٹ اور آئس کریم کا شوقین ہوں پھر رات کو کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں کھانا کھاکر رات دیر یعنی ایک بجے کبھی دو بجے اپنے فلاٹ میں داخل ہوتا ہوں جہاں سب سوچکے ہیں ـ اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف اکیلے گھومنا پھرنا پسند ہے، موقع ملا تو دوستوں کے ساتھ بھی جاتا ہوں، جب بھی تھیٹر میں فلم دیکھنا ہو تو باقاعدہ ہم آٹھ یا دس ساتھی ہوتے ہیں ـ مگر ایسے ساتھیوں کو اپنے ساتھ گھمانے نہیں لیجاتا جو چھچورے یا نخرے باز ہوتے ہیں مطلب کہ جلد تھک جاتے ہیں، اچانک موبائل پر فون آیا تو ٹیم چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں، شام ہوتے ہی واپس جانے کی بات کرتے ہیں، دھوپ میں چل نہیں سکتے، بارش میں تھوڑا بھی بھیگنا پسند نہیں، کھانے پلانے میں کنجوس ہوتے ہیں ایسے دوستوں کے ساتھ گھومنا مجھے بالکل پسند نہیں ـ رہا چھٹی کا سوال چھٹی کا دن تو میرے لئے مکمل انجوائیمنٹ کا دن ہے ـ

posted by Shuaib at 9:49 AM 0 comments

Post a Comment

سالار

جنوبی ہندوستان کے شہر بنگلور سے شائع ہونے والا واحد اردو اخبار ہے جو پابندی کے ساتھ پچھلے چالیس سالوں سے روزانہ صبح بنگلور اور پورے ریاست کرناٹک میں فروخت ہوتا ہے ـ یہ ایک چاریٹیبل ٹرسٹ کا اخبار ہے جو اردو زبان کے فروغ، اردو کی ترقی کے ساتھ پسماندہ طبقے کے مسائل پر بھی کام کرتا ہے اور یہ چاریٹیبل ٹرسٹ ایک ساتھ دو اخبار شائع کرتے ہیں ایک روز نامہ دوسرا ہفتہ وار ـ ١٩٩٦ء تک اخبار سالار ہاتھ سے لکھ کر شائع ہوتا تھا، اسکے بعد جنوبی ہندوستان کا یہی وہ پہلا اردو اخبار ہے جو باقاعدہ کمپیوٹر پر ٹائپ شدہ الفاظ میں شائع ہونے لگا ـ اسی سال میں نے اس اردو اخبار میں نوکری جوائن کرلیا ـ اس اخبار کو جوائن کرتے وقت میری عمر صرف سولہ برس کی تھی، یہ الگ کہانی ہے کہ اس عمر میں مجھے اخبار میں نوکری کیسے مل گئی ـ شروع کے تین سالوں تک میری ڈیوٹی روز نامہ سالار کے پہلے صفحے کی کمپوٹر کمپوزنگ رہی جو شام سات بجے سے رات کو کام ختم ہونے تک یعنی رات دو بجے یا پھر ڈھائی بجے تک تھی پھر اسکے علاوہ اخبار کے تمام اشتہارات کی کمپوزنگ اور ڈیزائننگ بھی میری ذمہ داری بن گئی ـ ١٩٩٨ء سے روز نامہ سالار باقاعدہ رنگین شائع ہونا شروع ہوگیا اور اسکے ساتھ ہی میرے کام کی ذمہ داریاں بھی بڑھادی گئیں ـ آن لائن نیوز ایجنسیوں سے تصویریں ڈاؤن لوڈ کرنا، تصویروں کو کمپیوٹر پر ایڈٹ کرکے رنگوں میں سپریشن کرنا، چار رنگوں میں تمام تصویروں کا پرنٹ بنانا اسکے علاوہ رنگین اور چھچورے اشتہارات بنانا وغیرہ ـ جیسے جیسے کام بڑھتا گیا میری تنخواہ میں بھی اضافہ ہوتا رہا ـ اخبار کیلئے کمپیوٹر پر کمپوزنگ کرنا، صفحہ سازی کرنا، سرخیوں کو سنوارنا وغیرہ جسکی وجہ سے نیوز میڈیا گرافک ڈیزائننگ کیلئے اچھا تجربہ ثابت ہوا ـ جب تک روز نامہ سالار میں نوکری پر تھا، میری ڈیوٹی رات میں تھی کیونکہ صفحہ اول رات کو ہی تیار ہوتا ہے ـ پہلے صفحے کیلئے تازہ خبروں کا انتظار کرنا تھوڑا مشکل کام ہے اسکے علاوہ ایڈیٹر سے احتجاج کرنا کہ بہت دیر ہورہی ہے جلدی جلدی خبریں دیدیں تاکہ صفحے کی کمپوزنگ جلد ختم کرکے اپنے اپنے گھروں کو جائیں ـ جہاں پورا شہر سویا ہوا ہوتا ہے وہیں پولیس تھانے، دودھ بیچنے والے اور اخبار کے دفتروں میں کام کرنے والے جاگتے رہتے ہیں ـ اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں رات میں ڈیوٹی کرکے دن بھر سویا رہتا تھا، روز نامہ سالار کے علاوہ دن کے اوقات میں بھی نوکری کرتا تھا اسکے ساتھ اپنی پڑھائی بھی مکمل کیا ـ اپنے گھر کی ذمہ داریوں میں ہاتھ بٹانے کے علاوہ اپنی پڑھائی کا خرچ اوپر سے رات اور دن کی نوکری پورے آٹھ سال پتہ نہیں کیسے گذر گئے ـ ٢٠٠٢ء کو روز نامہ سالار سے استعفی دیکر سیدھا دبئی آگیا اور اب یہاں بھی دو سال مکمل ہوگئے اب یہاں دبئی میں میرے لئے یہ تیسرا سال ہے ـ میرا پہلا تجربہ اخبار کیلئے کام کرنا تھا یعنی میری زندگی کے آٹھ سال نیوز میڈیا کے نام ہوگئے ـ میرے اس آٹھ سالوں کے تجربے کی بنیاد پر بیرون ممالک میں کسی بڑے اخبار میں نوکری کرنا چاہتا تھا مگر بدقسمتی سے یوروپ کی گارمنٹ ڈیزائننگ کمپنی جو دبئی میں بھی ہے یہاں نوکری مل گئی جو میری مجبوری تھی ـ اب یہاں پتلونیں، شرٹ، سوٹ، جینس، ٹائی، نیکر، جوتے، بنیان، ٹی شرٹ وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ کی ڈیزائننگ کر رہا ہوں ـ مگر اپنے موجودہ کام سے بھی خوش ہوں کہ آج فیشن ڈیزائننگ کا اچھا ہی نہیں بہت اچھا تجربہ میرے پاس ہے ـ

posted by Shuaib at 9:47 AM 0 comments

Post a Comment

Friday, January 14, 2005

اردو بلاگ

شروع میں جب اپنا کوئی بلاگ نہیں تھا اور بلاگ کے بارے میں زیادہ جانکاری بھی نہیں تھی، دوسروں کو دیکھ آہستہ سے انگریزی میں بلاگ لکھنے کی شروعات کیا اور پھر گوگل کی اردو سائٹ پر تلاشی کے بعد یہ جانکر حیریت کیساتھ خوشی بھی ہوئی کہ انٹرنیٹ پر چند لوگ اردو میں بھی بلاگ لکھتے ہیں ـ اردو بلاگرس کے طفیل کچھ نئی جانکاری حاصل ہوئی، سب سے پہلے اردو یونیکوڈ کے بارے میں پتہ چلا پھر یونیکوڈ کو ایچ ٹی ایم ایل میں ملاکر لکھنا سیکھا ـ اور جب یہ پتہ چل گیا کہ اردو یونیکوڈ کیساتھ انٹرنیٹ پر لکھنا اب میرے لئے بالکل آسان ہوگیا ہے ـ اب اردو کہاں لکھوں؟ انٹرنیٹ کے کن صفحات پر لکھوں؟؟ میرے انگریزی بلاگ پر اردو یونیکوڈ کی مدد سے لکھ تو سکتا تھا مگر ایچ ٹی ایم ایل کے بارے میں زیادہ جانکاری نہیں تھی ـ پھر کیا ہوا، جن اردو بلاگرس کو دیکھ کر اردو بلاگ بنانا سیکھا انہی کے بلاگ پر کیمنٹس کی جگہ اردو میں کچھ بھی لکھ بھر دیتا تھا بالکل اسی طرح جب کسی چھوٹے بچے کے ہاتھ رنگین پنسل اور ایک سفید کاغذ دیدیا جائے ـ ویسے کسی نے مجھے سکھایا نہیں کہ اردو بلاگ کیسے بنتا ہے، وہ تو اردو بلاگرس کی سائٹس پر وزٹ کرتے کرتے خود سیکھ لیا ـ پرانے اردو بلاگرس میری چھچوری حرکتوں سے ناراض ضرور ہوگئے اگر میں ان کی جگہ ہوتا اور کوئی میرے بلاگ کے کیمنٹس میں آکر گند پھیلاتا تو میں اس سے بگڑ جاتا ـ یہ تو اچھا ہوا کہ جلدی سے اپنا خود کا اردو بلاگ بنالیا، پھر مسئلہ پیدا ہوگیا کیونکہ میں ایک ساتھ دو بلاگ لکھتا ہوں ایک انگریزی میں اور دوسرا یہ اردو بلاگ ـ اب مجھے نہیں لگتا کہ کوئی کسی کے بلاگ پر وزٹ کرے اور تبصرہ بھی لکھے، کیوں کہ آج ہر کوئی بلاگ لکھ رہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں کے بلاگ پڑھنے کے بعد کیمنٹس لکھے ـ رہی بات اردو بلاگرس کے تبصرے والے خانے اس لئے بھر دیتا تھا کہ وہ میرے لئے نیٹ پر اردو لکھنے کی شروعات تھی ـ اور جب اپنے اردو بلاگ کو اردو بلاگرس کے رنگ میں شامل کروایا تو محسوس ہوا کہ میں نے کچھ غلط کردیا، ہر ایک اردو بلاگر کی سائٹ پر وزٹ کیا انکے پوسٹ پڑھے اور محسوس کیا کہ ان تمام اردو بلاگرس کے خیالات سب ایک جیسے اور میرے خیالات مختلف ہیں ـ بالآخر کچھ سوچ کر اپنے اردو بلاگ کو اردو بلاگرس کے رنگ میں ہی رہنے دیا ـ پہلے سوچا ایک ہی بلاگ پر انگریزی اور اردو استعمال کروں، پھر چند ایسے مسائل پیدا ہوگئے کہ اب انگریزی بلاگ میں صرف انگریزی اور اس اردو بلاگ میں صرف اردو الفاظوں کا استعمال کرتا ہوں ـ وجہ یہ ہے کہ میرے انگریزی بلاگ پر بہت سارے دوست اور دوسرے جان پہچان والے وزٹ کرتے رہتے ہیں اور میرے انگریزی بلاگ میں شرافت کیساتھ صرف مہذب الفاظ استعمال کرتا ہوں تاکہ دوستوں میں اپنی عزت بحال رکھ سکوں ـ اپنے انگریزی بلاگ کیلئے بہت کم اور اس اردو بلاگ کیلئے بہت زیادہ لکھتا ہوں کیونکہ انگریزی میں بہت ٹائپ کرلیا اب اردو میں ٹائپنگ کا شوق پورا کر رہا ہوں ـ میرے اس اردو بلاگ میں لکھے جانے والے تمام الفاظ میرے اپنے ذاتی خیالات ہیں اور اپنے ان عمدہ خیالوں کو اس اردو بلاگ میں محفوظ کر رہا ہوں، اپنی رنگین زندگی کے بارے میں کھل کر لکھتا ہوں ـ ویسے اردو بلاگس کوئی نہیں پڑھتا، اگر کوئی اردو بلاگس پر وزٹ بھی کرتا ہے تو مسئلہ فونٹ ڈاؤن لوڈ کرکے انسٹال کرنا وغیرہ ــــــ اور مجھے خوشی ہوگی کہ کوئی میرے اس اردو بلاگ کے پوسٹ نہ پڑھے اگر پڑھ لے تو، پلیز ـ مجھے برا بھلا نہ کہے کیوں کہ میں دل سے برا نہیں، اسکے علاوہ خوش مزاج اور نئے خیالات کا لڑکا ہوں ـ

posted by Shuaib at 10:39 AM 2 comments

Blogger Asma said...

Assalamoalaykum w.w.!!!

Hm....... Nahi ppl do read blogs and comment on it!!!

So many posts .... saw that pic of ur office n appartemnt.. good place!

Wassalam

January 25, 2005 3:06 AM  
Blogger Danial said...

No body is angry Shoaib. Your new blog looks really good. May I suggest a few things? First of all your main page is very lengthy. Also there should be someway to contact you rather than comments and the shout box. Urdu Naskh Asiatype is property of BBC urdu and its protected by copyright laws. Why don't you use Nafees web Naskh?

February 23, 2005 2:50 AM  

Post a Comment

دبئی شاپنگ فیسٹیول

آج جنوری ١٢ تاریخ سے یہاں دبئی میں مڈل ایسٹ کا سب سے بڑا سالانہ شاپنگ فیسٹیول کی دھوم دھام سے افتتاحی تقریب منعقد تھی، اس افتتاحی تقریب میں دنیا بھر کے ہزاروں افراد شریک تھے ـ اس مرتبہ انگلینڈ، اٹلی اور جاپان کے علاوہ دوسرے کئی ممالک بھی شامل ہوگئے، کل ملاکر دنیا بھر کے ٤٦ ممالک اس فیسٹیول میں حصہ لے رہے ہیں ـ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی لاکھوں لوگوں کی آمد متوقع ہے ـ اس فیسٹیول کی وجہ سے دبئی کو دلہن کی طرح سجادیا گیا ہے اور ٹریفک کیلئے بہترین انتظامات کردئیے گئے ہیں ـ ہم دوستوں نے کسی بھی چھٹی کے دن گلوبل ولیج جانے کا پروگرام بنالیا ہے جہاں دنیا کے تمام ملکوں کے پویلین بنائے گئے ہیں ـ دبئی شاپنگ فیسٹیول دیکھنے کا یہ میرے لئے تیسرا موقع ہے ـ یہ فیسٹیول پورے ایک مہینے تک جوان رہے گا ـ امید ہے اس مرتبہ بھی گلوبل ولیج میں ہندوستانی پویلین سب سے خوبصورت اور سب سے بڑا ہوگا ویسے ہمیشہ کی طرح دبئی کے عالمی شاپنگ فیسٹیول کے گلوبل ولیج میں ہندوستان کا پویلین سب سے بڑا اور شاندار ہوتا ہے ـ ٢٠٠٣ء میں ہندوستانی پویلین لال قلعہ کی طرز پر تھا اور گذشتہ سال کا ہندوستانی پویلین ریاست کیرالا کے حوالے تھا اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ ہندوستانی پویلین کو کس ٹائپ کا بنایا ہے ـ

posted by Shuaib at 10:38 AM 0 comments

Post a Comment

چھوٹا سونامی؟

منگل کی صبح سے ہی تیز اور بہت ہی تیز ہوائیں گشت کر رہی ہیں، تیز ہواؤں کی وجہ آس پاس کی چیزوں سے پتہ چلا کہ ماحول میں کچھ گڑبڑ ضرور ہے ـ میرے بیڈروم کی بند کھڑکیاں بتا رہی تھیں کہ صبح صبح کس قسم کی ہوائیں چل رہی تھیں ـ ویسے خوش قسمتی سے آج بروز منگل آفس میں میرے لئے چھٹی ہے کیوں کہ سنڈے کے دن آفس میں کام تھا جس کی وجہ سے آج منگل کو چھٹی مل گئی ـ دوپہر دو بجے اپنی بلڈنگ سے باہر آیا تاکہ کچھ کھایا پیا جائے، ہواؤں کیساتھ باتیں بھی گشت کر رہی تھیں کہ آج صبح صبح سمندر کا پانی اپنی سطح سے اوپر آگیا ـ میں نے کچھ خاص نوٹ نہیں لیا کیوں کہ آج بھی پورا متحدہ عرب امارات روز کی طرح مصروف تھا ـ چھٹی کا دن ہے اوپر سے موسم بھی حسن کی طرح خطرناک، میں نے عجمان بیچ جانے کا فیصلہ کرلیا کیوں کہ دل نے چاہا عجمان جاکر بیئر پیا جائے ـ شام تقریبا پانچ بجے عجمان کے سمندر کنارے (بیچ) پر پہنچا، اوووہ ـ ــ واقع یہاں تو تباہی ہے، سمندر کی تیز لہریں ایسے آرہی تھیں جیسے شہر کو نگلنا چاہتی ہوں ـ آس پاس کا ماحول بتا رہا تھا کہ صبح صبح سمندر کا پانی ابل کر قریب کی سڑکوں تک آگیا جس کی وجہ سے سمندر سے پہلے جہاں پر صرف ریت ہوتی ہے اب یہاں چھوٹے چھوٹے تالاب بن گئے ہیں ـ آج بروز چہارشنبہ، صبح نو بجنے میں ابھی پندرہ منٹ باقی ہیں، نہانے کے فورا بعد اخبار اٹھاکر موٹی سرخیاں پڑھنا شروع کردیا، او ہو، آج کی ہیڈ لائن: سمندر میں تیز ہواؤں کے ساتھ بلند لہریں، سمندر کا پانی اچھل کر سڑکوں پر آگیا اور چند علاقوں میں زلزلے کے خفیف جھٹکے بھی محسوس کئے ـ سرخی کے نیچے تصویروں میں دکھایا گیا لوگ پانی میں آدھے ڈوبے ہوئیں ہیں ـ اخبار کے ذریعے حکومت نے عوام کو انتباہ کردیا: دو دن کیلئے سمندر کے قریب نہ جائیں ـ مگر میں نے اسی دن اپنے موبائل فون کے ویڈیو پلائر میں سمندر کی اونچی لہروں کو ریکارڈ بھی کرلیا اور آفس آکر ساتھیوں کو سمندر میں اونچی لہروں کا ویڈیو دکھایا ـــــ آج آفس میں ایک بار پھر پورا دن سونامی مذاکرات کی نظر ہوگیا ـ

posted by Shuaib at 10:37 AM 0 comments

Post a Comment

امریش پوری

جہاں تک اس شخص کے بارے میں جانتا ہوں، نہایت ہی سیدھا سادا، خوش مزاج، محنتی، ملنسار انسان تھا ـ بچپن سے امریش پوری کی فلمیں دیکھتا آرہا ہوں، بڑے غضب کا اداکار ہے، بچپن میں ٹی وی پر اسکی شکل دیکھ کر ہی ڈر لگتا تھا ـ عرصہ دراز سے ہندی فلموں میں ویلن چھایا رہا پھر گذشتہ چند فلموں میں باپ کے کردار کا زبردست رول نبھایا ـ امریش پوری پردے پر ہمیشہ غیض و غضب والا، شیطان اور مکار دکھائی دیتا تھا مگر اسکی اصل زندگی میں نہایت ہی شریف انسان تھا ـ بالی ووڈ کا ایک زبردست لاثانی اداکار امریش پوری جسے ہم ہندوستانی سنیما بین کبھی نہیں بھولیں گے ـ

posted by Shuaib at 10:35 AM 0 comments

Post a Comment

بالی ووڈ

چند لوگوں کی اداکاری مجھے بہت پسند ہے، چاہے وہ اپنی ذاتی زندگی میں جیسے بھی ہوں مگر پردے پر انکی اداکاری بڑے غضب کی اور بالکل اصل زندگی سے مشابہ رکھتی ہے، مردوں میں پریش روال، منوج باجپائی، عرفان پٹھان، امیتابھ بچن، نانا پاٹیکر، اوم پوری، قادر خان، انوپم کھیر اور سنجے دت کو زبردست اور صحیح اداکاروں میں شمار کرتا ہوں ویسے عامر خان بھی ٹھیک ہے ـ عورتوں میں تمام خوبصورت اداکارائیں مجھے پسند ہیں لیکن اداکاری کے میدان میں شبانہ اعظمی، کاجول، ارملا ماتونڈکر، تبّو اور رانی مکھرجی صحیح اداکارائیں ہیں ـ یہ وہ اداکار اور اداکارائیں ہیں جو فلموں میں اسکرپٹ کو رٹتے نہیں بلکہ اسکرپٹ سمجھ کر اپنے رول کیلئے باقاعدہ فٹ ہوکر آتے ہیں، فلمیں جیسی بھی ہوں مگر ان لوگوں کی اداکاری بہت اچھی ہوتی ہے ـ کامیڈی کیلئے محمود کی فلمیں بہت کم دیکھنے کو ملیں مگر جانی لیور جیسا محنتی اور کامیڈی انسان میں نے نہیں دیکھا، اسکا چہرہ ہھی ہنسانے والا ہے ویسے کامیڈی کیلئے پریش روال اور گووندہ بھی کچھ کم نہیں ـ ڈائریکشن میں رام گوپال ورما، یش چوپڑہ اور مہیش بھٹ ٹھیک ہیں اور موسیقی کیلئے اے آر رحمان بہتر ہے، جاوید اختر کے گیت بھی اچھے ہیں ـ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے فلمیں دیکھنے کا زیادہ شوق بھی نہیں ہے ـ

posted by Shuaib at 10:34 AM 0 comments

Post a Comment

میکنٹوش

عرصہ ہوگیا ایپل میکنٹوش پر سوار ہوئے، اب بھی مشکل نہیں آپریٹ کرسکتا ہوں کیوں کہ ملٹی میڈیا کاپورا ڈپلومہ ایپل میکنٹوش پر ہی سیکھا ہے ـ ویسے گرافک کے کاموں کیلئے بہترین سسٹم ایپل میکنٹوش ہی ہے مگر پی سی میں بھی کوئی برائی نہیں، گرافک اور ملٹی میڈیا کے سارے کام و کاج ایپل میکنٹوش پر ہی اچھے لگتے ہیں ـ فی الحال ہم دوستوں میں لیپ ٹاپ خریدنے کا جنون سوار ہے، دوستوں کی خواہشیں صرف پی ٹو اور پی تھری حیثیت والی ہیں، اچھا ہے اور سستا بھی اور میرے دوستوں کیلئے ایک صحیح چیز ہے مگر میرے لئے نقصان ہے ـ کیوں کہ میں ملٹی میڈیا گرافک ڈیزائنر ہوں اور پی ٹو یا پی تھری میرے کچھ کام کا نہیں مجھے تو باقاعدہ ایپل میکنٹوش کا لیپ ٹاپ چاہئے اور یہ صرف مہنگا ہی نہیں بہت مہنگا ہے میری حیثیت سے بھی بہت زیادہ ـ مگر امید ہے ایپل میکنٹوش کا لیپ ٹاپ ضرور سے خریدوں گا کیوں کہ یہ لیپ ٹاپ میری ضرورت ہے ـ

posted by Shuaib at 10:34 AM 0 comments

Post a Comment

فلاش

آج سے چھ سال قبل ہی سیکھ لیا مگر تجربہ کچھ بھی نہیں ـ آج کل تجربے کیلئے فلاش پر چھوٹی موٹی انیمیٹڈ فلمیں بنا رہا ہوں، اسکرپٹس میں تو بالکل تجربہ نہیں لیکن فی الحال فریمس پر کام کر رہا ہوں ـ ٹیکسٹ انیمیشن میں ماہر ہوں ہی اور ان دنوں دوستوں کیلئے انکے ناموں کی فلاش سوفٹویئر میں ٹیکسٹ انیمیشن بنا رہا ہوں جس کی وجہ سے دوست بھی خوش اور میرا ہنر بھی کام آرہا ہے ـ

posted by Shuaib at 10:33 AM 0 comments

Post a Comment

بلوتوتھ

اب تو راہ بالکل آسان ہوگئی، کیوں کہ میرے پہلے والے موبائل فون میں صرف انفراریڈر تھا اور اب نیا موبائل ہے جس میں انفراریڈر تو ہے ہی اس کے علاوہ Bluetooth ٹیکنالوجی بھی ہے جس کے ذریعہ ایک موبائل فون سے دوسرے موبائل کو ویڈیو فائلس اور تصویریں بھیجنا آسان ہوگیا ہے ـ اگر کوئی دوست بازار سے اپنے موبائل میں ہندی فلمی گیتوں کے ویڈیو ڈاؤن لوڈ کرکے لاتا ہے تو باقی ساتھی اسکے موبائل سے بذریعہ انفراریڈر خریدا ہوا ویڈیو گیت اپنے موبائلوں میں مفت حاصل کرلیتے ہیں مگر انفراریڈر ٹائم زیادہ لیتا ہے اور موبائل فونس کو آپس میں جوڑ کر رکھنا پڑتا ہے مگر اب موبائل فونس میں بلوتوتھ ٹیکنالوجی جس کسی کے بھی پاس ہو تو ایک موبائل سے دوسرے موبائل فون کو اپنا ڈیٹا، ویڈیو اور تصویریں آسانی کے ساتھ بھیج سکتے ہیں جس کا کوئی پیسہ چارج نہیں ہوتا، فی الحال میرے نئے نوکیا موبائل میں چھ ہندی گیتوں کے ویڈیو (مسافر، دھوم، ہیرا پھیری) محفوظ ہیں جس کا سائز 9.5 ایم بی ہے ـ

posted by Shuaib at 10:32 AM 0 comments

Post a Comment

عینک

میری نظر کمزور ہرگز نہیں، پھر بھی گذشتہ آٹھ سالوں سے چشمے کے بغیر کمپیوٹر کی اسکرین کو نہیں دیکھ سکتا اور جس دن اپنا چشمہ گھر بھول کر آگیا تو دفتر میں چشمے کے بغیر کمپیوٹر پر کچھ بھی کام نہیں کرسکتا ـ اب تو عینک میری روزی روٹی بن گئی ہے کیوں کہ کمپیوٹر کے سوا میرے پاس دوسرا کوئی ہنر نہیں اور چشمے کے بغیر کمپیوٹر چلا نہیں سکتا ـ ہاں چشمے کے بغیر کاغذ پر لکھے باریک سے باریک حروفوں کو پڑھ سکتا ہوں، چشمے کے بغیر اندھیرے میں تھوڑا بہت نظر بھی آجاتا ہے مگر چشمے کے بغیر نہ تو سنیما جاسکتا ہوں، نہ ٹی وی دیکھ سکتا ہوں اور نہ ہی کمپیوٹر کی اسکرین کو گھور سکتا ہوں ـ میرا کام کمپیوٹر پر فیشن گرافک ڈیزائننگ کا ہے جو بہت ہی احتیاط سے کرنا پڑتا ہے اور اس کام کیلئے چشمہ بہت ضروری ہے ـ

posted by Shuaib at 10:31 AM 1 comments

Anonymous Anonymous said...

ڈیئر قدیر احمد، آپ کا شکریہ کہ تحریریں معیاری نہ ہونے کے باوجود میرے بلاگ ہر اپنا قیمتی صرف کیا مگر آپکے بلاگ پر تمام تحریریں کافی دلچسپ اور معلومات سے بھر پور ہیں ـ آپ تو چھپے رستم نکلے زبردست اور خوبصورت بلاگ بنالیا اور مجھے خبر ہی نہیں ـ شاید کہ مٹھائی تقسیم ہوچکی ہو، چونکہ آپکے بلاگ پر پہلی بار آیا، چلئے اب مجھے بھی مٹھائی کھلائیے ـ

March 07, 2005 8:10 PM  

Post a Comment

جئے ہند

یہ خبر سننے کے بعد خوشی کیساتھ اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر بھی ہے ـ سونامی حادثے کے بعد ہندوستان نے بیرونی ممالک کی امداد سے انکار کردیا کیوں کہ آج ہندوستان کی ایکونومی اتنی مضبوط اور مستحکم ہے کہ وہ کسی کا عاجز نہیں اور ہندوستان مدد کیلئے کسی سے امید بھی نہیں رکھتا ـ سننے میں آیا ہے کہ سونامی حادثے کے بعد ہندوستان نے حادثے کا شکار غیر ملکوں کیلئے کوئی فراخدلی کا مظاہرہ نہیں کیا ـ کمال ہے، سونامی کی وجہ سے جنوبی ہندوستان کو کافی بڑا نقصان پہنچا ہے، ہندوستانی پہلے اپنے ہم وطنوں کی مدد کریں گے پھر اسکے بعد غیر ملکیوں کی بھی مدد کریں گے ـ میں نے ہندوستانی ٹی وی چینلوں پر دیکھا کہ تامل ناڈو میں سونامی حادثے میں بے گھر ہونے والوں کیلئے ملک بھر کے تمام ہندوستانی (تمام قومیں) ایک ہوگئے ہیں، سونامی حادثے کا شکار بے حال لوگوں کے نقصان کی بھرپائی کیلئے انکی مدد کر رہے ہیں ـ مجھے یاد ہے مہاراشٹر اور گجرات کے زلزلوں کے بعد بھی تمام ہندوستانی قومیں ایک ہوکر زلزلے میں بے گھر ہونے والوں کی مدد کرنے کیلئے پیش پیش رہے ـ ہندوستانی جیسے بھی ہوں، جب بھی ہندوستان پر آفات سماوی یا کسی بیرون ملک سے خطرہ ہو تب تمام ہندوستانی قومیں ایک ہوجاتی ہیں ـ ایک سو کروڑ عوام اور ایک سو کروڑ دماغوں کی طاقت کوئی معمولی بات نہیں ہے ـ

posted by Shuaib at 10:21 AM 0 comments

Post a Comment

Tuesday, January 04, 2005

خوش آمدید

٣١ دسمبر کی شام ڈیوٹی سے فراغت کے بعد میں، مجیب، ناصر اور دیگر کئی ساتھی نئے سال کو خوش آمدید کہنے بر دبئی کے ایک ڈسکو میں داخل ہوگئے ـ ٹھیک بارہ بجے ڈسکو میں تھوڑی دیر کیلئے لائٹ آف کرنے کیساتھ زبردست بینڈ بجایا اور لوگوں نے اندھیرے میں ایک دوسرے کو گلے لگاکر نئے سال ٢٠٠٥ کی مبارکبادیاں دینے لگے، لڑکے اور لڑکیوں نے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایکدوسرے کو چوم لیا ـ لائٹ آن کرنے کے بعد تمام لوگ ایک منٹ کیلئے سونامی حادثے کے شکار لوگوں کی تعزیت کیلئے خاموش کھڑے ہوگئے ـ پھر ناچ اور گانے کا پروگرام شروع ہوا جس میں انگریزی، فرنچ، ساؤتھ افریقی اور لبنانی شامل تھے، پروگرام رنگا رنگی تھا یعنی کہ بہت ہی خوبصورت زبردست ـ اس ڈسکو میں مختلف ملکوں کے لوگ تھے انڈین، امریکی، یوروپی، چینی اور اکثریت رشین اور افریقن تھے ـ میرے ساتھیوں نے گرم مشروبات کو ہاتھ لگا دیا جبکہ میں ایک بیئر کی بوتل لئے کنارے آگیا، پھر ایک کے بعد رات دو بجے تک تین بیئر کی بوتلیں پی گیا ـ رات تین بجے ہم سب ڈسکو سے باہر آئے گئے ـ ہر طرف پبلک کا رش تھا جیسے لگے کہ ابھی رات کے آٹھ بجے ہوں ـ یہاں آس پاس مختلف ملکوں کے ڈسکو کلبوں سے رات تین بجے کے بعد لوگ ایسے نکل رہے تھے جیسے کپ جیت کر آرہے ہوں اور دبئی کی مختلف شاہراہوں پر حسن کا بازار آج کی رات بہت زیادہ ہی گرم تھا ـ پولیس کا بھی معقول انتظام تھا پھر بھی نئے سال کی خوشی میں تھوڑی بہت چھوٹ بھی مل گئی ـ ہم تمام ساتھی مستی میں جھومتے ہوئے ابرا اسٹیشن میں کشتی پر سوار ہوکر دائرہ دبئی پہنچے اور پھر وہاں سے اپنی منزلوں کی جانب ـ صبح چار بجے اپنے فلیٹ میں پہنچا، بہت تھک چکا تھا اور نیند بھی آگئی ـ

posted by Shuaib at 9:26 PM 0 comments

Post a Comment

شیطان

کون ہے یہ کمبخت، کہاں رہتا ہے، نظر بھی نہیں آتا، اس شخص کے کارنامے تو بہت سنے ہیں مگر کبھی دیکھا نہیں، دل میں تمنّا ہے کہ اس عظیم ہستی سے ملاقات کروں دیکھوں کیسا لگتا ہے ـ سنا ہے انسانوں کا جانی شمن ہے، ڈرتا لگتا ہے کہیں وائرس کی شکل میں میرے کمپیوٹر میں داخل نہ ہوجائے! بچپن سے اس عظیم شخصیت کا نام سنتا آرہا ہوں مگر کبھی اسکا سایہ تک دیکھنا نصیب نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی اسکی آہٹ محسوس کیا ـ خوش نصیب ہیں وہ انسان جو اسکے ساتھ پنگا لے چکے ہیں مگر میں نے کونسا اسکے ساتھ برا سلوک کیا جو مجھے اپنی ایک جھلک تک دکھانا پسند نہیں کرتا ـ کاش کہ میں ڈرپوک ہوتا، کاش میں گاؤں میں پیدا ہوتا، کاش میں شریف اور ایماندار ہوتا، کاش میں مذہبی ہوتا اور کاش کہ میں انپڑھ اور جاہل ہوتا تو اے شیطان تجھ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوجاتا ـ

posted by Shuaib at 9:25 PM 0 comments

Post a Comment

ہجڑے

ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں انڈرویئر مرچنڈائزر کا نام ہیگڈے ہے مگر ہمارا عربی مالک ہیگڈے کا ٹھیک سے تلفظ نہیں کرسکتا، جب بھی ہیگڈے کو نام سے پکارتا ہے تو کہے گا ہیجدے، یعنی ہیگڈے کو عربی میں ہیجدے کہتا ہے اور ہم سننے والوں کو ہیجڈے اور کبھی ہجڑے سنائی دیتا ہے ـ ہاہاہاہا

posted by Shuaib at 9:25 PM 0 comments

Post a Comment

بنگلور

اپنے گھر کو فون کرنے کے بعد دل کو تسلّی ہوئی ـ چونکہ شہر بنگلور سمندر کے لیول سے بہت اونچائی پر ہے جسکی وجہ سے آج تک زلزلوں اور طوفان سے محفوظ ہے ـ جنوبی ایشیا کے سونامی سے جو بہت طاقتور تھا مگر بنگلور شہر پر اسکا کچھ بھی اثر نہیں ہوا، میرا شہر بنگلور، جو جنوبی ہندوستان میں واقع ہے، سونامی کی آفت سے بچ گیا ـ

posted by Shuaib at 9:24 PM 0 comments

Post a Comment

برف

یقین ہی نہیں ہوتا، پھر بھی یقین کرسکتا ہوں کیونکہ چہارشنبہ کے دن اخبار کے پہلے صفحہ پر ایک تصویر چھپی تھی اور اس تصویر میں دکھایا گیا تھا کہ پہاڑوں اور کھنڈروں پر برفیلی چادر بچھی ہوئی ہے اور تصویر کے اوپر انگریزی میں لکھا تھا: جی ہاں! یقین کیجئے کہ یہ راس الخیمہ کا منظر ہے اور امارات کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسنو فال ہوا ہے ـ ویسے جس دن یعنی بروز منگل راس الخیمہ میں اسنوفال ہوا، شارجہ اتنا سرد ہوچکا تھا کہ بیان سے باہر ہے، میں نے محسوس کیا جیسے فریج میں بیٹھا ہوا ہوں اور ننگے پیر زمین پر کھڑا ہوا تو لگا جیسے برف پر کھڑا ہوں ـ یہاں امارات میں لوگ اکثر کاٹن کے ملبوسات پہننا پسند کرتے ہیں مگر اس دن تمام لوگ گرم کپڑوں میں دکھائی دیئے، سچ مچ شارجہ بہت سرد ہوچکا تھا لڑکیوں نے تو ہاتھوں میں گلاؤز بھی پہن لئے ـ اس دوران ٹھہر ٹھہر کر بارش بھی ہوتی رہی جس کی وجہ سے دبئی اور شارجہ میں ٹریفک جام رہا اور سڑکوں پر پانی ٹخنوں کے اوپر تک آگیا تھا ـ عجیب بات ہے کیونکہ یہاں امارات میں جہاں ہر جگہ دھول مٹی، ریگستان پہاڑ اور دو جانب سمندر ہے مگر اچانک اسنوفال!!! تعجب ہے بھئی!!

posted by Shuaib at 9:24 PM 0 comments

Post a Comment

تحفہ

آج جنوری ٢٠٠٥ کی پہلی تاریخ ہے، صبح نہانے کے بعد پڑھنے کیلئے گلف نیوز (اخبار) کھولا تو اندر پوسٹر سائز کا گلیسنگ پیپر یعنی چمکدار پوسٹر فولڈ کرکے رکھا ہوا تھا، میں نے سمجھا شاید اخبار کی طرف سے نئے سال کا کیلنڈر ہوگا ـ ـ ـ مگر یہ کیا؟؟ جیسے ہی میں نے فولڈ کئے ہوئے پوسٹر کو پورا کھولا ــــــــــــــــــ پوسٹر کو دوبارہ فولڈ کرکے سائڈ میں رکھ دیا کیوں کہ پوسٹر میں سونامی حادثے کی تصویریں پرنٹ تھیں ـ اخبار والوں نے نئے سال کی صبح اچھا تحفہ بھیجا ہے تصویریں اتنی بھیانک تھیں کہ صبح نہانے کے بعد صرف ٹاول باندھے کھڑا کھڑا پوسٹر میں سونامی حادثے کی تصویریں کیا دیکھ لیا کہ جسم کے سارے بال کھڑے ہوگئے ـ

posted by Shuaib at 9:23 PM 0 comments

Post a Comment

آئس کریم

سردیوں اور برسات میں میری مرغوب غذا آئس کریم ہے جبکہ میرے دوستوں اور خود ہمارے گھر میں ایسے وقتوں پر سیخ کباب، تندوری چکن، مسالہ پوری اور سموسے بہت شوق سے کھاتے ہیں ـ آئس کریم کھانا تو بہت پسند ہے خاص طور سے سردیوں اور برساتوں میں آئس کھاتے ہوئے مجھے اور بھی زیادہ مزہ آتا ہے ـ اکثر جب بھی شاہراہوں پر بھوک لگتی ہے تو آئس کریم، چاکلیٹ یا کیک کھالیتا ہوں ـ

posted by Shuaib at 9:22 PM 0 comments

Post a Comment

جاپانی

ایک دفعہ پڑوسی بلڈنگ میں داخل ہوا، وہاں ایک فلیٹ کے اندر سے نصرت فتح علی خان کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں میرا مطلب ہے کلاسیکل راگ کی آوازیں ـ دوسرے دن بھی اسی فلیٹ کے سامنے سے گذر ہوا، فلیٹ کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور آج بھی نصرت کی چیخیں برابر شور مچا رہی تھیں، واپسی پر جانکاری کیلئے فلیٹ کے کھلے ہوئے دروازے سے اندر جھانکتے ہوئے آیا ـ ـ ـ ارے یہ تو جاپانیوں کا فلیٹ ہے جو شیئرنگ میں رہتے ہیں، انہیں خوب پہچانتا ہوں یہ سارے ایک جاپانی ریسٹورنٹ میں کام کرتے ہیں اور جاپانی، انگریزی کے سوا دوسری کوئی بھی زبان نہیں سمجھتے مگر انکا نصرت فتح علی خان سے کیا تعلق!؟

posted by Shuaib at 9:21 PM 0 comments

Post a Comment

ٹیکسی ڈرائیور

ممبئی کے ایک علاقے میں ٹیکسی کا انتظار کر رہا تھا، یکے بعد دیگر خالی ٹیکسیاں آتی جاتی رہیں، ٹیکسی کو روکنے کا اشارہ کرتے کرتے تھک گیا، قریب سڑک کنارے کئی خالی ٹیکسیاں کھڑی تھیں، جہاں جانے کو کہتا تو ٹیکسی ڈرائیورس گردن ہلاکر انکار کردیتے ـ یوں ایک گھنٹہ بیت گیا اب تو ٹیکسی ملنے کی امید بھی نہیں، پتہ نہیں خالی ٹیکسیاں لیکر کیوں گھومتے ہیں! قریب ایک دکاندار میری بے چینی پر نظر رکھے ہوئے تھا، پاس بلاکر مجھ سے کہا: سامنے جو خالی ٹیکسیاں کھڑی ہیں کسی ایک ٹیکسی کا میٹر گھماکر جھٹکے سے ڈرائیور کیساتھ والی سیٹ پر بیٹھ جاؤ اور جہاں جانا ہے ڈرائیور سے کہہ دو، پھر دیکھو وہ تمہیں کیوں نہیں لیکر جائے گا ـ اچھا ایسا ہے! میں نے دکاندار کا شکریہ ادا کیا، پھر ویسا ہی کیا جیسا دکاندار نے کہا، قریب کھڑی ٹیکسی کا میٹر گھمایا اور جھٹ سے ڈرائیور کے پاس بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف لیجانے کا حکم دیا پھر کیا تھا، ڈرائیور نے خاموشی سے مجھے اپنی منزل تک پہنچادیا ـ میری اس کامیابی کے بعد اکثر جب بھی ممبئی میں ٹیکسی لینا ہو تو پاس کھڑی ہوئی ٹیکسی کا میٹر گھماکر ڈرائیور کیساتھ بیٹھ جاتا ہوں ورنہ گھنٹے وہی رکے رہنا پڑتا اگر دکاندار نے مجھے ٹیکسی لینے کی ترکیب نہ بتائی ہوتی ـ یہاں شارجہ میں بھی وہی طریقہ اپناتا ہوں، وہاں ممبئی میں تمام ٹیکسی ڈرائیورس ہندوستانی ہیں اور ان سے بات چیت کرنا زیادہ مشکل بھی نہیں مگر یہاں شارجہ کے ٹیکسی ڈرائیورس سب کے سب پٹھان! ایکدم گرم کھوپڑی، منہ میں نسوار، میلے کچیلے کپڑے، ان پٹھان ٹیکسی ڈرائیورس میں بات کرنے کی تمیز نہیں ہوتی، بات بات پر غصّہ اور ان پڑھ بھی اوپر سے بوڑھے ـ یہاں شارجہ میں لوگ ٹیکسیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور پٹھان عوام کیلئے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے ٹیکسی چلاتے ہیں اور پسینجرس کو جہاں جانا ہوتا ہے وہاں آتے ہی نہیں وہیں جاتے ہیں جہاں انہیں جانا ہوتا ہے ـ دبئی کے ٹیکسی ڈرائیورس تو خیر کوئی بات نہیں کم از کم تھوڑا بہت پڑھے لکھے تو ہوتے ہی ہیں انڈراسٹانڈنگ ہوجاتی ہے مگر یہاں شارجہ کی عوام ان پٹھان ٹیکسی ڈرائیورس سے تنگ آچکی ہے اسی لئے حکومت نے شارجہ میں بھی دبئی والا ٹیکسی نظام لاگو کر رہی ہے تاکہ عوام کو ان پٹھان ٹیکسی ڈرائیورس سے چھٹکارا مل سکے ـ

posted by Shuaib at 9:21 PM 0 comments

Post a Comment

چلتے چلتے

رولہ سے دو بنگالیوں نے ٹیکسی پکڑی، پٹھان ٹیکسی ڈرائیور نے پوچھا کہاں جانا ہے؟ بنگالیوں نے کہا بول دیا! پٹھان پوچھا کبھی بولا؟ بنگالی کہنے لگے: بھائی ہم نے کہا بول دیا ـ پٹھان ڈرائیور کو غصّہ آگیا اور بنگالیوں سے کہا: ہم نے پوچھا تم کو کدھر جانا، مگر تم کہتا ہے بول دیا بول دیا، مگر ہم نے نہیں سنا اس لئے پھر سے بولو کہاں جانا ہے؟ بنگالیوں نے بھی غصّے سے کہا: ہم نے بھی دو دفعہ کہہ دیا ہے کہ ہمیں بول دیا جانا ہے ـ پٹھان کی عقل بھی موٹی ہوتی ہے اسے اب سمجھ میں آیا کہ ان بنگالیوں کو بول دیا نہیں بلدیہ یعنی میونسپلٹی آفس جانا ہے ـ
*************
رولہ سے دو بنگالیوں نے ٹیکسی پکڑی، پٹھان ٹیکسی ڈرائیور نے پوچھا کہاں جانا ہے؟ بنگالیوں نے کہا آسمان جانا ہے! پٹھان نے کہا: ہم تمہیں آسمان کیسے لیکر جائے گا، کیوں کہ یہ ہمارا ٹیکسی ہے ہوائی جہاز نہیں! بنگالیوں نے پٹھان ڈرائیور سے کہا: ہم تو روز ٹیکسی سے ہی آسمان آتا جاتا ہے ـ بنگالیوں کی بات سنکر پٹھان کو غصّہ آگیا پھر کہا: جاؤ جاؤ، ٹیکسی سے کوئی آسمان کیسے جائے گا ـ اصل میں بنگالی عجمان کو آسمان کہہ رہے تھے ـ
*************
بنگالی مرغیوں کی دکان پہنچا اور دکان مالک پٹھان سے کہنے لگا ہم کو بارہ مرغی چاہئیے، تیار رکھنا ہم ایک گھنٹہ بعد آئے گا ـ پٹھان بنگالی سے بارہ مرغیوں کا آرڈر لیکر خوشی خوشی کام میں لگ گیا ـ ٹھیک ایک گھنٹے بعد بنگالی پٹھان کی دکان پہنچا تو پٹھان نے پاکی صفائی اور پیکنگ کرکے بارہ مرغیاں بنگالی کے حوالے کردیں ـ بنگالی ایک ساتھ بارہ مرغیاں دیکھ کر حیران اور پریشان ہوگیا پھر پٹھان سے مخاطب ہوا: بھائی یہ بارہ مرغی کس کیلئے؟ پٹھان نے بنگالی سے کہا تم خود بارہ مرغی کا آرڈر دیکر گیا تھا! پٹھان کا جواب سنکر بنگالی چکرا گیا ـ کیونکہ بنگالی بارہ مرغی نہیں بلکہ بڑا مرغی کا آرڈر دیا تھا مگر پٹھان بڑا کو بارہ سمجھ بیٹھا ـہاہاہاہاہا
*************
بحیرہ کورنیش علاقے میں رات دیڑھ بجے ایک ملباری ہاتھ میں ویڈیو کیسٹ پکڑے جارہا تھا ـ اچانک پولیس کی ایک موبائل کا گذر ہوا ـ پولیس نے ملباری کو روک کر پوچھا یہ کونسے فلم کا کیسٹ ہے؟ ملباری نے کہا یہ ملیالم زبان کی فلم ہے! پولیس نے پوچھا فلم کا نام کیا ہے؟ ملباری تھوڑی دیر تک سوچتے ہوئے جواب دیا: مسکین اور مسکین شیخ زاید! اتنا سننا تھا کہ پولیس ملباری کو پکڑکر لے گئی اور حوالات میں اچھی خاصی مرمّت بھی کردی کیوں کہ شیخ زاید جو پورے امارات کے شیخ ہیں یعنی کہ بہت بڑے دولت مند، انہیں ملباری مسکین کہہ دیا ـ بعد میں پتہ چلا کہ ویڈیو کیسٹ میں موجود فلم کا نام ملباری زبان میں یوں تھا: غریب اور غریب راجہ ــــ مگر ملباری کو راجہ کی عربی معلوم نہیں تھی چونکہ شیخ زاید امارات کے راجہ تھے یعنی کہ حکمران اسی لئے ملباری فلم کا نام (راجہ اور غریب راجہ) مسکین اور مسکین شیخ زاید کہہ دیا ـ

posted by Shuaib at 9:16 PM 0 comments

Post a Comment

ہندوستان سے پہلا اُردو بلاگ
First Urdu Blog from India

IndiBlogger - The Largest Indian Blogger Community

حالیہ تحریریں

سویتا بھابی کا وال اچھا
تو میرا خدا میں تیرا خدا
دھونڈو تو خدا بھی مل جائے
مصروفیت
معلوماتِ خداوندی
2 اکتوبر، گاندھی جینتی کے موقع پر خاص پوسٹ
رام کہانی ـ رحیم کی زبانی
میرے چاند کے تکڑے
اس بلاگ پر اگلی پوسٹ

Hindi Blog

Urdu Graphic Blog

Motion Blog

Powered by ShoutJax

Counters