ترقی چاہتا ہوں
ہمیشہ سے میری ننھی منی امیدیں کامیاب ہوجاتی ہیں مگر اب کی بار تمام ننھی منی امیدوں کو یکجا کرکے بڑے پیمانے پر ایک امید بنا رہا ہوں ـ فی الحال ہاتھ دھوکر ایجنٹوں کے پیچھے بھاگ رہا ہوں کہ بھائی مجھے یوروپ جانا ہے کیسے بھی جرمنی یا آسٹریا تک پہنچا دیں ـ پلیز ـ پلیز ـ پلیز
ایجنٹ تو ایجنٹ ہوتے ہیں، بہت سارا روپیہ لیکر کام پورا کرتے ہیں مگر اب تمام ایجنٹوں کا ایک ہی جواب ہے: اب پہلے جیسا نہیں رہا، بہت مشکل ہے ویزا نکالنا ـ یہ جواب سنتے سنتے میرے کان پک گئے، میرا یہی کہنا ہے کہ کسی بھی طرح مجھے جرمنی یا آسٹریا پہنچا دیں نوکری دھونڈنا میرا کام ہے ـ
بہت ہوگیا، اب مجھے اپنے فیوچر کی فکر ہے اور کسی سے امید بھی نہیں رکھنا چاہتا جو بھی ہو اپنے بل بوتے پر کرنا چاہتا ہوں ـ والدین نے مجھے کمائی کا راستہ نہیں دکھایا اور نہ ہی تعلیم کی طرف راغب کروایا ـ اب تک جو بھی کیا خود کیلئے صحیح کیا اور تعلیم مکمل ہونے سے پہلے اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا ـ
امّی کہتی ہیں: بیٹا دو سال مکمل ہوگئے تجھے دیکھ کر، اب گھر واپس آکر اپنا چہرا دکھا دے ـ کاش کہ ایسا ممکن ہوتا، ویسے امّی کو اب تک بتایا نہیں کہ گھر واپس آنے کی نہیں بلکہ یوروپ جانے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھا ہوں ورنہ امّی کا روتے روتے برا حال ہوجاتا ـ میں کیاں کروں؟ مجھے اپنا فیوچر بنانا ہے کچھ حاصل کرنے کیلئے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے ـ
یہ بات بھی صحیح ہے کہ آج بنگلور شہر میں کسی چیز کی کمی نہیں، وہاں لوگ ہزاروں نہیں لاکھوں کما رہے ہیں ـ آج بنگلور میں روپیہ کمانے کیلئے بے شمار راستے بھی ہیں، دنیا بھر کی ہزاروں کمپنیاں بھی ہیں مگر میرے خیال میں مجھے اپنوں سے اور اپنے شہر سے دور رہ کر ہی روپیہ کمانا ٹھیک ہے ـ
مانتا ہوں کہ جرمنی پہنچنا مشکل ہے، لیکن کوشش کرنے سے تمام راہیں آسان ہوجاتی ہیں ـ پہلے خیال آیا کوشش کرکے فرانس چلا جاؤں چونکہ وہاں فیشن مصنوعات کی بے شمار کمپنیاں ہیں مگر جرمنی اور آسٹریا میں میرے لائق بے شمار دروازے کھلے ہیں جہاں پر اپنے ہنر سے روزگار حاصل کروں گا ـ