سائبر کیفے
ویسے آج بنگلور شہر کی گلی گلی میں دو انٹرنیٹ سنٹر اور دو سائبر کیفے موجود ہیں ـ اچھی طرح یاد ہے جب ١٩٩٥ء میں پہلی بار سائبر کیفے میں ایک گھنٹہ نیٹ استعمال کرنے کیلئے سو روپئے ادا کرنا پڑتا تھا ـ اور صرف آج سے دو سال قبل یعنی ٢٠٠٢ء کو میرے گھر کے سامنے موجود سائبر سنٹر میں براؤسنگ کرتا تھا، یہاں ایک گھنٹے کیلئے صرف دس روپئے چارج ہوتا ہے اس کے علاوہ دو صفحے پرنٹ کئے ہوئے مفت میں لیجاسکتے ہیں ـ
میرے خیال سے آج بنگلور کے انٹرنیٹ براؤسنگ سنٹرس میں فی گھنٹہ پانچ روپئے بھی ہوسکتا ہے ـ ویسے آج شہر میں انٹرنیٹ براؤس کرنے کیلئے بہت سی سہولتیں اور آئی ٹی کمپنیوں کی طرف سے بے شمار آفرس بھی ہیں جیسے سیٹیلائٹ یا کیبل نیٹ کے ذریعے مگر ٹیلیفون سے انٹرنیٹ استعمال کرنے کا رواج بہت ہی پرانا ہوچکا ہے جس میں براؤسنگ کی رفتار بہت ہی سست ہے ـ دو سال پہلے ہی گلی کے ہر تیسرے گھر میں انٹرنیٹ موجود تھا، میں خود گھر سے براؤسنگ کرتا تھا صرف ویب کیمرا استعمال کرنے کیلئے سائبر سنٹر کا رخ کرتا تھا ـ
میرا مقصد یہ لکھنا ہے کہ یہاں دبئی کے کسی بھی انٹرنیٹ کیفے میں فی گھنٹہ براؤسنگ کیلئے پانچ سے دس درھم ادا کرنا پڑتا ہے یعنی ہندوستان کے تقریبا پچاس روپئے فی گھنٹہ ـ اور یہی پچاس روپئے خرچ کرکے ہندوستان کے انٹرنیٹ سنٹرس میں تقریبا پانچ یا چھ گھنٹے انٹرنیٹ کا استعمال کرسکتے ہیں ـ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ دبئی مہنگا شہر ہے مگر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ آج انٹرنیٹ ہر ایک کی ضرورت بن گیا ہے اور اوپر سے یہاں دبئی میں انٹرنیٹ صرف ایک کمپنی کی ملکیت ہے جبکہ ہندوستان میں سرکاری اور غیر سرکاری بے شمار کمپنیاں ہیں جو آئی ٹی کے میدان میں ایکدوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں ـ مجھے یقین ہے آئندہ پانچ سالوں میں ہندوستان آئی ٹی شعبے میں چین کے برابر کھڑا ہوجائے گا ـ