Tuesday, April 05, 2005

جاپان میں اردو

گذشتہ دنوں ٹوکیو سے ایک ایسا مہمان ممبئی آیا ہوا تھا جسے ٹوکیو یونیورسٹی اور اس یونیورسٹی کے شعبہ ’فارین لینگویجز (اردو) سے وابستہ ہونے کی سعادت حاصل ہے ـ اس مہمان کا نام ہے ناکامورا مایوکو، جاپان کے قصبہ اشکوہ، جو ٹوکیو سے قریب ہی واقع ہے، سے تعلق رکھنے والی اس ٢٠ سالہ طالبہ کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی سادہ مزاجی اور جھک کر آداب کہنے کی خوبصورت ادا نہیں بلکہ اردو دانی ہے ـ وہ جب اردو بولتی ہے تو اسے لقمہ نہیں دینا پڑتا اور کوئی لفظ سمجھانا نہیں پڑتا ـ ناکامورا، اردو میں کسی دوسری زبان کے الفاظ کا سہارا بھی نہیں لیتی، اس کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ وہ انگریزی جاننے کی حد تک ہی جانتی ہے ـ صحیح معنوں میں اگر وہ کوئی زبان جانتی ہے تو اس کی اپنی زبان جاپانی ہے یا پھر اردو ـ ناکامورا مایوکو، ٹوکیو یونیورسٹی میں ایم اے کی طالبہ ہیں اور ’’حیدرآباد میں اردو ـ کل اور آج‘‘ کے وسیع تر موضوع پر مقالہ لکھ رہی ہیں ـ اپنے اس مقالے میں انہیں نظام کے دور کی اردو اور آج کے حیدرآباد کی اردو کا تقابلی جائزہ پیش کرنا ہے ـ ریسرچ کے اسی مقصد کے تحت وہ ہندوستان آئیں اور واپسی میں چند روز ممبئی میں قیام کیا ـ اسی دوران انہوں نے دفتر انقلاب کا دورہ بھی کیا اور انقلاب کے ادارتی عملے سے ملاقات کی ـ آپ نے اردو کا انتخاب کیوں کیا؟ اس سوال کے جواب میں ناکامورا مسکراتے ہوئے کہنے لگیں ’’کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جس نے مجھ سے یہ سوال نہ کیا ہو ـ دراصل مجھے ایشیائی زبانوں اور تہذیبوں سے دلچسپی تھی، ان میں کسی ایک زبان یا تہذیب کا انتخاب کرنا تھا ـ میں نے مختلف زبانوں کے نام سن رکھے تھے لیکن اردو کا نام میرے لئے نیا تھا ـ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس نئی زبان سے وابستہ ہوا جائے ـ یہی وجہ تھی جو میں نے اردو کا انتخاب کیا‘‘ ـ اردو کیسی لگتی ہے آپ کو ـ یہ سوال سن کر ناکامورا کی چمک جاگتی ہے اور وہ اپنے مخصوص انداز میں کہتی ہیں ’’بہت شیریں زباں ہے‘‘ ـ یہ جاپانی طالبہ ’’زبان‘‘ نہیں بلکہ ’’زباں‘‘ کہتی ہے ـ اس کا تلفظ اتنا صاف ہے کہ بہت سے اردو والے بھی اس کے سامنے پانی بھرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ـ وہ اہل ہندی اور اہل اردو کے درمیان تلفظ کے فرق سے بھی بخوبی واقف ہے، اسی لئے دوران گفتگو کہنے لگی ’’کئی ہندی والے خوبصورت کو ’’کھوبصورت‘‘ بولتے ہیں‘‘ ـ یہ جان لینے کے بعد کہ ناکامورا نے اردو کا انتخاب کیوں کیا، ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ ہندوستان ہی کیوں آئیں، پاکستان بھی تو جاسکتی تھیں ـ بقول ناکامورا ’’ہمارے یہاں کے بہت سے طلبہ اردو کے سلسلے میں پاکستان جایا کرتے تھے، میں نے سوچا کہ کیوں نہ ہندوستان جاؤں جہاں اکثر طلبہ نہیں جاتے ـ اس کے علاوہ میرا موضوع چونکہ حیدرآباد سے متعلق تھا اس لئے بھی مجھے یہیں آنا تھا‘‘ ـ ناکامورا نے بنیادی اردو ٢ سال میں سیکھی اور پھر آہستہ آہستہ اس کے رموز و نکات سے آگاہی حاصل کرتی گئیں ـ جس طرح اس کا تلفظ صاف ہے اسی طرح اس کی تحریر شفاف ہے ـ ناکامورا سے گفتگو کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ جاپان میں اردو زبان کی تعلیم کی بنیاد ١٩٠٨ میں ڈالی گئی تھی اور اس کے موجد ہندوستان کے مشہور انقلابی رہنما مولوی برکت اللہ بھوپالی تھے البتہ جاپانی پروفیسر آرگامو نے اس کی تدریس کے شعبے کو اس قدر استحکام اور وسعت بخشی کہ وہ حقیقی معنوں میں وہاں کے ’’بابائے اردو‘‘ کہلائے اور اس ضمن میں گذشتہ نسل کی نمائندگی کرتے رہے ـ ان کے بعد کے دور میں اس منصب پر ان کے شاگرد پروفیسر سوزوکی تاکیشی نے اردو زبان کی تدریس و تعلیم کو وسعت دی ـ اردو سیکھ لینے سے اپنے کیریئر میں ناکامورا کو کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ یہ پوچھنے پر اس طالبہ نے ایک ایسی بات بتائی جو کم از کم ہندوستان کے لئے نئی ہے ـ اس نے کہا کہ ’’جاپان میں ’جیسی تعلیم ویسا کام‘ کا فارمولہ رائج نہیں ہے بلکہ ’جیسا کام ویسی تربیت‘ کے ضابطے کے مطابق کام ہوتا ہے ـ میری ہی مثال، میرا انتخاب بی اے یا ایم اے کی بنیاد پر ہوگا اور جس نوعیت کے کام کے لئے ہوگا اس کی علاحدہ ٹریننگ دی جائے گی ـ یہ الگ بات ہے کہ میں اردو سے وابستہ رہنے کے لئے کوئی ایسا کام کروں جو اردو سے متعلق ہو ـ مثال کے طور پر میں تحقیق کے اداروں میں کام کرسکتی ہوں، بحیثیت پارٹ ٹائم لیکچرر اردو پڑھانے پر مامور کی جاسکتی ہوں یا پھر ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اردو شعبوں سے وابستہ ہوسکتی ہوں‘‘ ـ کیا جاپانی ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اردو سروس ہے؟ ناکامورا نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کی اردو آبادی (جو ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں پر مشتمل ہے) کے لئے اردو سروس کا باقاعدہ اہتمام ہے ـ جب ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اردو سیکھنے پر والدین کی جانب سے کوئی اعتراض کیا گیا تھا، تو ناکامورا نے بتایا ’’ہمارے یہاں یہ فیصلہ کہ بچہ کیا پڑھے، کیا نہ پڑھے والدین نہیں کرتے ـ طالب علم خود یہ فیصلہ کرتا ہے‘‘ ـ
اردو کی اس طالبہ سے بذریعہ ای میل رابطہ mayuko@sannet.net.jp
پتہ Nakamura Mayuko, Dept of South & West Asian Studies, Tokyo University of Foreign Studies, Japan شکریہ روز نامہ انقلاب
Blogger Shoiab Safdar Ghumman said...

bhi io kia huwa hai blog ko?????

April 06, 2005 8:37 AM  
Blogger namaste said...

ہاں، انہیں جانتا ہوں۔
بالکل اچھی اردو آتی ہے انہیں۔

لیکن ایک بات جوڑ دوں تو، ان کی یونورسٹی، جو میری بھی تھی، "ٹوکیو یونورسٹی" سے الگ-تھلگ ہے۔
نام تو "ٹوکیو یونورسٹی" کا شعبہ جیسا ہے، مگر ایسا نہیں۔

April 07, 2005 4:00 PM  

Post a Comment

ہندوستان سے پہلا اُردو بلاگ
First Urdu Blog from India

IndiBlogger - The Largest Indian Blogger Community

حالیہ تحریریں

بچہ میٹرکس
امام صاحبہ
مختلف انداز
موٹو
اکسپورٹنگ انپیج اردو ٹیکسٹ
کیسے؟
انپیج
نئے ورژن
ننھا تجربہ
مایا

Hindi Blog

Urdu Graphic Blog

Motion Blog

Powered by ShoutJax

Counters