Tuesday, April 05, 2005

اردو کانفرنس ـ اسلام آباد

کالم نویس ـ زبیر رضوی
’’گذشتہ ماہ عالمی اردو کانفرنس میں ’ہندوستان میں اردو‘ کے حالات پر بھی گفتگو ہوئی، جہاں اس کالم نویس کو مدعو کیا گیا تھا، زیر نظر مضمون ایک طرح سے وہاں کی رواداد ہے
‘‘

پا کستان کی راجدھانی اسلام آباد میں ٩ مارچ سے ٣١ مارچ تک پانچ روزہ عالمی اردو کانفرنس کے مختلف اجلاسوں اور مباحثوں میں جو راگ بڑی حاوی رہی وہ یہ تھی کہ پاکستان میں اردو بھلے ہی رابطے کی زبان ہے مگر اتنے برس گزرنے کے بعد بھی اسے سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا جاسکا ـ آج مرکزی سرکار کا تمام کام کاج انگریزی میں ہوتا ہے اور انگریزی کو پاکستانی معاشرے میں پہلے سے بہت زیادہ فروغ حاصل ہو رہا ہے ـ انگریزی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی ایک کھلی ہوئی وجہ یہ بیان کی گئی کہ ہندوستان کے ٹی وی چینلوں کی مقبولیت اور ان میں استعمال ہونے والی ملی جلی ہندی، انگریزی زبان اور لہجے نے پاکستان کی نئی نسل کا لہجہ اور کلچر ہی بدل دیا ہے ـ اس سلسلہ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ مغربی طرز کے جس کلچر نے ہندوستانی نسل کو متاثر کیا اب وہی کلچر بھارتیہ فیوژن کے ساتھ پاکستانی نسل کو ’’رول ماڈل‘‘ کے طور پر متاثر کر رہا ہے ـ بظاہر اس کانفرنس کی میزبانی کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سپرد تھی اسے اردو روز نامہ جنگ اور اس کے ٹی وی چینل ’’جیو‘‘ کی میڈیا تعاون بھی حاصل تھا ـ اس تعاون کے باعث کانفرنس کے اجلاسوں میں تو کم مگر اس کے ثقافتی پروگراموں میں عوام کی شرکت امڈ پڑنے والی تھی ـ یہ پہلی اردو کانفرنس تھی جس میں اردو کے حوالے سے فنون لطیفہ اور مختلف ثقافتی پہلوؤں کو بڑی خوبی سے مربوط کیا گیا تھا مثلا اردو دسترخوان، اردو فیشن شو، اور اردو سنگیت اور تھیٹر، اردو کلاسک سے اقتباسات کی ڈرامائی پیشکش، غالب، اقبال اور فیض تین عہد ساز شاعر پورے ایک دن کے اجلاس کا موضوع تھا، جس میں آفتاب احمد، ڈاکٹر جاوید اقبال اور لدمیلا واسیلووا نے اپنے مقالے پڑھے اور بعد میں ان کے کلام کی کئی انداز سے پیشکش کی گئی ـ اس کانفرنس کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ اس میں ہمارے ملک کی کانفرنسوں کے برخلاف ادیبوں کی تعداد زیادہ تھی سیاسی اور اردو کے فروغ کے دوسرے دعویداروں کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی ـ

اسلام آباد، اس شہر کو ادبی اور ثقافتی پہچان دینے کی کوشش تو کی مگر لاہور اور کراچی والے اردو کے خزانے کو اسلام آباد منتقل کرنے کے لئے ابھی آمادہ نہ تھے ـ دلیل یہ تھی کہ اسلام آباد اردو لکچر سے کہیں زیادہ مغربی طرز کے نوکر شاہی لکچر کا نمائندہ ہے بھلے ہی یہ شہر جنوبی ایشیاء کی منصوبہ بند تعمیرات کے فن سے مالا مال تو ہے اور وہاں ضیا جالندھری، احمد فراز منشا یا رشید امجد، خالد حسن افتخار عارف، مظہر الاسلام جیسے شاعر، افسانہ نگار آباد ہیں مگر اردو اپنے تمام تر حسن و جمال اور نئی رعنائیوں کے ساتھ لاہور اور کراچی ہی میں پھل پھول رہی ہے ـ بزرگ شاعر احمد ندیم قاسمی کا ہفتہ وار کالم کانفرنس کے دوران سرفہرست تھا کیونکہ قاسمی صاحب کو کانفرنس کا اختتام کرنا تھا ـ پہلے دن ان کے بجائے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کا طنز و مزاح سے بھر پور خطبہ استقبالیہ تھا جس میں پاکستانی سیاست، معاشرے اور نوکر شاہی کے کئی پہلوؤں کو ہدف بنایا گیا تھا ـ یوسفی داد سے بے نیاز اپنے مخصوص انداز میں اپنی تحریر پڑھتے جاتے اور پھر تالیاں بجانے کا موقع دینے کے لئے رک بھی جاتے تھے ـ

ہماری مراد اس وقت برآئی جب ہمیں یہ خبر سنائی گئی کہ صدر پرویز مشرف نے کانفرنس میں شرکت کرنے والے غیر ملکی مندوبین سے ایوان صدر میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہے ـ کوئی دو گھنٹے کے انتظار کے بعد صدر سے ہاتھ ملاکر اپنی جگہ بیٹھے تو پھر وہ ستر منٹ تک باتیں کرتے رہے ـ صدر مشرف نے کہا کہ اردو کو پاکستان میں سرکاری زبان کا درجہ ملنا چاہئے، دونوں ملکوں کے درمیان ادب، کتاب اور افکار و خیال کا آزادانہ تبادلہ ہونا چاہئے، طالب علموں اور ریسرچ اسکالرس کو ایک دوسرے کی یونیورسٹیوں میں داخلے کی سہولت ملنی چاہئے ـ صدر نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی پر کچھ اس انداز سے اپنی بات کہی کہ لگا اس بار وہ ہر رکاوٹ کو دور کرنے پر تلے ہیں ـ انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ ٹکراؤ اور تصادم بہت ہوچکا اب ہمیں کبھی کرکٹ اور کبھی اردو کانفرنس اور کبھی دوسرے عوامی رشتوں کے حوالے سے قریب آنا ہے ـ انہوں نے ڈیوڈ میتھوز، کرسٹینا جیسے غیر اردو معاشرے سے تعلق رکھنے والے اردو استادوں کو اپنی حکومت اور پاکستانی اردو اداروں سے ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا ـ

کانفرنس کے دوران اس اعتراف کی گونج کئی بار سنائی دی کہ تقسیم ملک سے جہاں ہزاروں خاندان اجڑ گئے اور انہیں تہذیبی اور معاشرتی سطح پر بہت کچھ کھونا پڑا اردو پر بھی برا وقت آیا اور اسے کئی برسوں تک منقسم ہندوستان میں اپنی کھوئی ہوئی پہچان اور لسانی شہریت کو منوانے کے لئے بڑی جدوجہد کرنی پڑی لیکن پاکستانی باشندوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو کانا پھوسی کے انداز میں پوچھتے تھے کہ کیا واقعی اردو بھارت میں ختم ہوگئی؟ اردو کانفرنس میں ہندوستانی وفد کی شرکت، ان کے مضامین اور گفتگو نے بڑی حد تک ہندوستان میں اردو کے خاتمے کے تاثر کو

جھٹلایا ـ

شکریہ روزنامہ انقلاب ممبئی ـ کالم نویس زبیر رضوی

Blogger Nabeel said...

Dear Shuaib

Thank you for posting such informative material.

April 06, 2005 5:21 PM  
Anonymous Anonymous said...

You are welcome Mr. Nabeel

April 07, 2005 10:43 AM  
Blogger Shuaib said...

My blog is under construction

April 07, 2005 9:59 PM  

Post a Comment

ہندوستان سے پہلا اُردو بلاگ
First Urdu Blog from India

IndiBlogger - The Largest Indian Blogger Community

حالیہ تحریریں

جاپان میں اردو
بچہ میٹرکس
امام صاحبہ
مختلف انداز
موٹو
اکسپورٹنگ انپیج اردو ٹیکسٹ
کیسے؟
انپیج
نئے ورژن
ننھا تجربہ

Hindi Blog

Urdu Graphic Blog

Motion Blog

Powered by ShoutJax

Counters