صدام کی اوقات
ڈکٹیٹرشپ کے ذریعے پچیس سال سے زائد راج کرنے والے مرد آہن صدام حسین، شاید اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہوں، ٧٩ء کا وہ زمانہ جب امریکہ سے آشیرواد لیا کرتے تھے پھر پتہ نہیں انہیں کس مکوڑے نے کاٹ لیا کہ خود کو بش سمجھنے لگے جبکہ انہیں اپنی بیوقوفی کا احساس تھا مگر پھر بھی اپنے تیل کے کنوؤں پر بھروسا تھا ـ خیر، آج انہیں اپنی کی ہوئی غلطیاں یاد آرہی ہیں اور انہیں اپنی اس بیوقوفی پر ہنسی بھی آرہی کہ خود کو بش سمجھنے لگے تھے ـ دس سال ایرانی تھپڑوں سے سلجھے ہوئے صدام کو عقل کیا آگئی کہ شروعات تو چھوٹے ملک کویت سے کرنی ہے مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ یہاں پر منہ کی کھانی پڑے گی، انہیں سمجھانے والا بھی کوئی نہیں تھا اور نہ وہ خود سمجھنے کی طاقت رکھتے تھے کیونکہ انپر بش بننے کا جنون جو سوار تھا ـ شایانِ شان زندگی بسر کرنے والا شخص آج دنیا کے سامنے سر جھکائے ہوئے ـ یہ پوسٹ تحریر کرتے ہوئے خیال آیا کہ کاش اگر صدام کی جگہ اسامہ بن لادن عراق کے صدر ہوتے؟ اتنی آسانی سے امریکہ کے ہاتھ نہ لگتے اور امریکہ آج بھی اسامہ کی طرح صدام کو دھونڈتا پھرتا اور شاید کہ بش امریکی صدارت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ـ
- افتخار اجمل بھوپال said...
-
شعیب صاحب ۔ ذرا ہتھ ہولا رکھیا کرو۔ مطلب ہے ہاتھ ذرا نرم رکھا کریں۔ کچھ باتیں نازک ہوتی ہیں۔ کوئی مشین خریدیں تو ساتھ ترکیب استعمال بھی سیکھنی پڑتی ہے۔ سب جانتے ہیں روٹی آٹے سے بنتی ہے مگر پکانے کا طریقہ سیکھنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالی نے دماغ تو سب کو مفت میں دے دیا۔ ہم نے قدر نہ کی اور سمجھ بیٹھے کہ استعمال ہم خود ہی کر لیں گے۔ صرف صدام ہی نہیں بڑے بڑے سورما یہاں ہیں جو پیدا کرنے والے کو بھول کر ایک ہی ڈائریکٹر کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ ہمارے بڑے صاحب کے متعلق کیا خیال ہے جو شوخی میں آ کر اپنے ہی ہموطنوں کو مار اور مروا رہا ہے۔ جس دن اس کے بڑے صاحب کو اس کی ضرورت نہ رہی اس وقت اس کے ساتھ کیا ہو گا صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ ابھی تو وہ پھوں پھوں کرتا پھرتا ہے اور کسی کو خاطر میں ہی نہیں لاتا۔