گیم انڈسٹری
انیمیشن کی پروگرامنگ میں ڈپلومہ کرلینے کے بعد ہم چند دوستوں نے پلان بنایا کیوں نہ ہم چھوٹے موٹے کمپیوٹر گیمز بناکر بازار میں فروخت کریں اور اسکی آمدنی کو آپس میں بانٹ لیں گے اور ایک حصہ ہماری ننھی کمپنی کی ترقی کیلئے بھی، پھر ایک دن ہم سب ایک بہت بڑی کمپیوٹر گیم انڈسٹری کے مالکان بن جائیں گے ـ
پلان بہت اچھا تھا، ہم سب یہاں اور وہاں سے مختلف کمپیوٹر گیمز لے آئے تاکہ انکے پروگرامز کو توڑ کر کچھ تجربہ حاصل کیا جائے ـ مگر یہ کیا؟ تجربے کرنے کے بجائے ہم خود کمپیوٹر پر گیمز کھیلنے لگے، جنون ایسا کہ کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں تھا یہاں تک کہ خوابوں میں بھی پہلے اور دوسرے لیول کو کراس کر رہے ہوتے ـ اور آج اس ادھوری گیم انڈسٹری کے مالکان میں سے دو امریکہ میں، ایک لندن میں، ایک انڈیا ہی میں اور یہ ناچیز دبئی میں، سب مختلف کمپنیوں میں نوکری کر رہے ہیں ـ
اور کيا آپ کو ميرے بلاگ پر ڈبے نظر آتے ہيں؟ حيرت ہے کيونکہ ميں نے اردو نسخ ايشيا ٹائپ فانٹ رکہا ہوا ہے۔ چليں ميں پابندی ہٹا ديتا ہوں آپ اب تحرير کاپی کر سکيں گے مگر تصوير نہيں اور کيا صرف اديبوں يا مصوروں کو ہی حق ہوتا ہے کہ کاپی رائٹ کی پابندی لگائيں۔ جی ميں بھی ايک ننھا منا سا اديب ہی ہوں
آپ کے مشورہ کو مدنظر رکھتے ہوئے
میں نے اپنے دوسرے بلاگ میں معمولی تبدیلی کی ہے دیکھئے کچھ بہتر ہوا ؟