Wednesday, September 14, 2005

گیم انڈسٹری

انیمیشن کی پروگرامنگ میں ڈپلومہ کرلینے کے بعد ہم چند دوستوں نے پلان بنایا کیوں نہ ہم چھوٹے موٹے کمپیوٹر گیمز بناکر بازار میں فروخت کریں اور اسکی آمدنی کو آپس میں بانٹ لیں گے اور ایک حصہ ہماری ننھی کمپنی کی ترقی کیلئے بھی، پھر ایک دن ہم سب ایک بہت بڑی کمپیوٹر گیم انڈسٹری کے مالکان بن جائیں گے ـ پلان بہت اچھا تھا، ہم سب یہاں اور وہاں سے مختلف کمپیوٹر گیمز لے آئے تاکہ انکے پروگرامز کو توڑ کر کچھ تجربہ حاصل کیا جائے ـ مگر یہ کیا؟ تجربے کرنے کے بجائے ہم خود کمپیوٹر پر گیمز کھیلنے لگے، جنون ایسا کہ کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں تھا یہاں تک کہ خوابوں میں بھی پہلے اور دوسرے لیول کو کراس کر رہے ہوتے ـ اور آج اس ادھوری گیم انڈسٹری کے مالکان میں سے دو امریکہ میں، ایک لندن میں، ایک انڈیا ہی میں اور یہ ناچیز دبئی میں، سب مختلف کمپنیوں میں نوکری کر رہے ہیں ـ
Blogger Jahanzaib said...

مجھے ياد ہے ہم دوست جب کراچی ميں رہتے تھے تو کمپيوٹر پر برائن لارا کرکٹ کھيلا کرتے تہے اور پوری رات کرکٹ ميچ جاری رہتا تھا۔
اور کيا آپ کو ميرے بلاگ پر ڈبے نظر آتے ہيں؟ حيرت ہے کيونکہ ميں نے اردو نسخ ايشيا ٹائپ فانٹ رکہا ہوا ہے۔ چليں ميں پابندی ہٹا ديتا ہوں آپ اب تحرير کاپی کر سکيں گے مگر تصوير نہيں اور کيا صرف اديبوں يا مصوروں کو ہی حق ہوتا ہے کہ کاپی رائٹ کی پابندی لگائيں۔ جی ميں بھی ايک ننھا منا سا اديب ہی ہوں

September 15, 2005 12:33 AM  
Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

پیٹ بہت بری چیز ہے انسان سے کچھ کا کچھ کرا دیتا ہے ۔ کوئی میرے جیسے بھی ہوتے ہیں کہ 1982 میں وطن کی محبت میں اکیاون ہزار ڈالر سالانہ کی آفر چھوڑ کر وطن واپس آ جاتے ہیں اپنے ہی ہموطنوں سے بیوقوف کہلانے کے لئے ۔

آپ کے مشورہ کو مدنظر رکھتے ہوئے
میں نے اپنے دوسرے بلاگ میں معمولی تبدیلی کی ہے دیکھئے کچھ بہتر ہوا ؟

September 15, 2005 4:31 PM  
Blogger Saqib Saud said...

اجمل صاحب یہ وطن ان قربانیوں کی وجہ سے ہی تو اب تک قائم ہے۔ورنہ تو یہ کب کا۔۔۔

September 16, 2005 3:46 AM  

Post a Comment