Sunday, October 02, 2005

میرے ہاتھی جیسے دانت

صرف والدین کی خوشنودی کیلئے انکے ساتھ سحری کھالیتا، دن بھر بھلے باہر کچھ بھی کھالوں مگر واپس شام کو گھر آکر سب کے ساتھ افطاری میں بھی شریک ہوجاتا تھا ـ والدین تو اولاد کی ہر حرکت سے واقف رہتے ہیں مگر میں اِس امید سے رہتا کہ والدین کی نظر میں روزے سے ہوں ـ اوپر سے والدین کا حکم کہ شہر میں جہاں کہیں بھی رہے افطاری کے وقت سیدھا گھر آجانا ورنہ خیر نہیں ـ شرمسار سوکھی صورت لئے افطاری کے وقت گھر آجاتا جیسے سچ مچ روزے میں ہوں ـ میرے والدین بہتر جانتے ہیں کہ انکا ہونہار ساتھ سحری اور افطاری کھاتا ہے اور باہر جاکر ریسٹورنٹس میں یہاں وہاں دن بھر کچھ بھی کھالیتا ہے ـ ایک دن اپنے والدین سے کہہ بھی دیا جب آپ جانتے ہی ہیں کہ میں روزے کی پابندی نہیں کرتا تو مجھے زبردستی سحری اور افطاری کیوں کھلاتے ہیں؟ والدین نے جواب دیا: تو ہمارا اپنا ہے اور تیرا طریقئہ زندگی وہی ہونا چاہئے جیسا گھر میں ہم سب رہتے ہیں ـ ایک تو میرے کندھوں پر زبردستی مذہب کا بوجھ دوسری طرف والدین کا لاڈ و پیار، یہی وہ پیار ہے کہ اپنے والدین کو خوش دیکھنے کیلئے جھوٹ موٹ کا مذہبی بننا پڑتا ہے ـ کل شام کی ہی بات ہے، امّی نے ٹیلیفون پر ایک لمبی نصیحت کرڈالی کہ مجھے رمضان میں کیا کیا کرنا ہے اور میں ہاں ہوں میں جواب دے رہا تھا تو امّی نے ٹونکا انشاء اللہ کہہ کر جواب دے ـ حالانکہ وہ بہتر جانتی ہیں کہ میں رمضان میں ایسا ہی رہتا ہوں جیسے عام دنوں میں گذارتا ہوں ـ امّی نے اپنا فرض ادا کردیا کہ اپنے بیٹے کو رمضان کے متعلق نصیحت کرے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس پر کچھ اثر نہیں پڑنے والا ـ کئی سال پہلے ڈیڈی نے مجھ سے کہا تھا: تو ہمارا اپنا خون ہے، ہماری طرح تو بھی مذہبی بنے رہے تو بے حد خوشی ہوگی ورنہ ہم تجھ سے ناراض رہینگے چاہے جتنی بھی کمائی ہم پر نچھاور کرے ـ والد کی یہ باتیں مجھے شرمندہ کرگئیں کہ انہوں نے اسطرح اپنائیت سے نصیحت کی تھی کہ مجھے سچ مچ شرمندہ ہونا پڑا اور آج بھی اگر مذہبی ہوں تو صرف اپنے ماں باپ کی خوشنودی کیلئے ورنہ میں اور مذہبی؟ ہرگز نہیں ـ
Blogger urdudaaN said...

بھائى شعيب
اِس سے پہلے كہ آپ نالاں ھوجائيں ميں آخرى بار ذاتى طور پر نصيحت كرنے كى حماقت كررہا ھوں اور پيشگى معذرت پيش كرتا ھوں۔
١۔ ہاتھى اپنے دانتوں كيلئے ھى مارا جاتا ھے
٢۔ مذہب سے برتر صرف ايك چيز ھے اور وہ ھے "انسانيت"۔ اسلام كافر انسانوں كو صرف جنگى حالت ميں مارنے كى اجازت ديتا، كفر يا شرك كيلئے ھرگز نہيں
٣۔ اسلام اپنے مانباپ سے حسنِ سلوك كى تلقين كرتا ھے بھلے ھى وہ كافر رھيں
٤۔ اسلام والدين كى حكم عدولى كى صرف اسوقت حمايت كرتا ھے جب وہ مذہب سے روكيں
٥۔ اللّہ ھم تمام انسانوں كافر، مشرك، منافق و مومن سے ستّر ماؤں جتنى محبّت اگر نہ كرتا تو؛
۔ كفر سے پہلے جان لے ليتا
۔ مشرك كو روزى ھى نہ ديتا
۔ منافق كو اولاد نہ ديتا
٦۔ اگر انسان كى آزمائش مقصود نہ ھوتى اور انسان كو كفر كا اختيار نہ ديا ھوتا تو اعمال كا حساب اور سزا و جزا محض ايك ظلم ھوتا
٧۔ اگر مذہب ايك انسانى ڈھكوسلا ھوتا تو ھميں صحيح و غلط كى بنيادى سمجھ ھى نہ ھوتى

October 02, 2005 11:33 PM  
Anonymous Anonymous said...

شعیب صاحب کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ بچپن سے ہی ایسے ہیں یا بعد میں ہوئے ہیں ۔ اگر بعد میں مذہب سے دور ہوئے ہین تو کیا آپ کو اس کی وجہ معلوم ہے؟
اگر عیسائی ہر وقت گلے میں صلیب ڈال سکتے ہیں ، ہندو مندروں میں ہر وقت جا تے ہیں تو مسلمان کو اپنے مزہبی فرائض ادا کرتے ہوئے کیا ہوتا ہے ۔ میں اس پر اور بھی لکھنا چاہتا تھا مگر فائدہ نہیں ہے

October 03, 2005 8:29 AM  
Blogger Fahd Mirza said...

Islam never comes by force. It is a movment which comes from inside. Shuaib, I want to clear two things before hand. First, I am not going to advice you second I have no intention of offending you.

What I want to say is that, when our parents, well wishers or friends force us (by love or by words) to get inclined towards Islam, we sometimes comply just to make them happy and other times we think that we are doing some sort of favour to Allah, by observing fasts and salat.

So I think, this should be kept in mind that whether we observe the relegious rites or not, this is just for us, and we are not doing any sort of favour or dis-favour to Allah. May Allah Bless you.

October 03, 2005 10:23 AM  
Blogger urdudaaN said...

On second thoughts, I guess Mr. Shuaib might be playing the religion-card just to attract comments.
On third thoughts, I guess he might just be collecting statistics of how religious muslims are.
:)

October 03, 2005 11:13 AM  
Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

اردو دان ۔ قدیر احمد رانا اور فہد مرزا تینوں صاحبان نے بہت اچھی باتیں لکھی ہیں ۔ میں آپ کو نصیحت کرنے نہیں جا رہا ۔ میں صرف ایک مسند واقع‏ اور کچھ آنکھوں دیکھا بیان کروں گا ۔
ایک مسلم صحابی کا نزع کے وقت برا حال تھا جان نکل نہیں رہی تھی ۔ صحابہ کرام نے رسول اللہ صلّ اللہ علیہ وسلّم کے پاس جا کر ماجرہ بیان کیا ۔ انہوں نے پوچھا اس کی ماں زندہ ہے ؟ کہا ہاں ۔ تو رسول اللہ صلّ اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ جا کر اس کی ماں سے کہیں کہ اسے معاف کر دے ۔ ماں نہ مانی تو پھر رسول اللہ صلّ اللہ علیہ وسلّم نے کہا جا کر اس کی ماں سےکہیں کہ ہم اس کو آگ میں پھینکنے لگے ہیں ۔ اس پر ماں نے معاف کر دیا ۔ اور صحابی کی جان آسانی سے نکل گئی ۔
ایک لڑکا بی ایسی کرنے کے بعد برطانیہ گیا اور وہاں کا ہو کر رہ گیا ۔ والدین کو کبھی کبھار ملنے پاکستان آ جاتا ۔ ماں کہتی بیٹا چھوڑو آزادیاں پاکستان آ جاؤ اور مسلمان بن کر میرے پاس رہو ۔ سالوں گذر گئے اس کے بال آدھے سے زیادہ سفید ہو گئے ۔ اور پھر ایک دن اس کی والدہ اپنے پیدا کرنے والے کے پاس چلی گئی ۔ اتفاق سے اسے جلد فلائٹ مل گئی اور وہ پہنچ گیا ۔ وہ کبھی دیواروں سے ٹکریں مار رہا تھا کبھی ہاتھ ۔ کوئی اسے افسوس کے لئے گلے لگانے لگتا تو وہ یہ کہہ کر پیچھے ہٹ جاتا میں اس قابل نہیں ہوں میں اس قابل نہیں ۔
میں نے ہندوؤں کو اپنی ماں کے پاؤں چھوتے دیکھا ہے اور مسلمانوں کو اپنی ماں کے پاؤں چومتے بھی ۔

October 03, 2005 4:13 PM  
Blogger Shuaib said...

اردو دان:
میں آپ کا ممنون ہوں کہ مجھے ایک بھائی کی طرح نصیحتیں لکھیں، اور معذرت خواہ ہوں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت میرے لئے بہترین باتیں لکھنے میں صرف کیا ـ آپ اچھی طرح واقف ہیں کہ ہمارے ملک میں ہر قسم کے فسادات ننانوے فیصد مذہب کیوجہ سے ہوتے ہیں ـ برائے مہربانی غور فرمائیں، کیا ضرورت ہے ایسے مذہبوں کی؟ ہر مذہب میں بہترین باتیں، نصیحتیں وغیرہ تاکہ آدمی ایک اچھا انسان بنے ـ مگر انسان بننے کے بجائے اپنے مذہب میں غرق ہوکر ایکدوسرے مذہب سے نفرت کیوں؟ اگر آپ نے کہہ دیا کہ آپ دوسرے مذہبوں کا احترام کرتے ہیں، تو میں اسے جھوٹ سمجھوں گا کیونکہ آپ تو ٹھہرے ایک کٹّر مذہب پسند تو بھلا آپ دوسرے مذہبوں اور انکی رسموں کا کیونکر احترام کریں گے ـ مذہب تو پاک ہے مگر آپکی مذہبی ذہنیت ایسی کہ دوسرے مذہبوں سے نفرت کرتے ہیں ـ میرے اِس جواب سے آپ کو ذرا بھی ٹھیس پہنچے تو معذرت چاہتا ہوں ـ
اور دوسرے تبصرے میں میرے متعلق آپ کے دونوں اندازے غلط ہیں ـ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایسی تحریریں شہرت کیلئے لکھتا ہوں تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے ۔ میری حالیہ تحریروں کے علاوہ تمام گذشتہ تحریریں گواہ ہیں کہ میری ہر پوسٹ خود سے مخاطب جیسی ہوتی ہے ـ اور مجھے شہرت مقبولیت وغیرہ جیسی چیزیں بالکل پسند نہیں ـ اِس بلاگ پر اپنے خیالات اور روز مرّہ لکھ کر پوسٹ کرتا ہوں، میں یہ ذرا بھی نہیں سوچتا کہ لوگ میری تحریریں پڑھ کر کیا سمجھتے ہونگے کیونکہ یہ تحریریں اپنے لئے سوچ کر لکھتا ہوں ـ میرے والد کے علاوہ چند دوسرے دوست بھی اردو سے اچھی طرح واقف ہیں اور وہ سب روزانہ آن لائن بھی ہوتے ہیں مگر ابھی تک انہیں میرے اِس اردو بلاگ کا علم نہیں ـ

قدیر احمد :
بھائی صاحب، آپ نے ٹھیک کہا کہ ’’فائدہ نہیں‘‘ ـ میری آپ سے عاجزانہ گذارش ہے کہ آپ تھوڑی دیر کیلئے مذہب سے باہر آکر دیکھیں مگر آپ کو یہ قبول نہیں اور اسے شیطانی حرکت سمجھیں گے ـ صرف تھوڑی دیر کیلئے مذہب کو اپنے خیال سے نکال دیں، مجھے پوری امید ہے آپ اپنے وجود کو اچھی طرح جان جاؤگے ـ مگر اسطرح کرنا تو آپ کو ہرگز گوارا نہیں اور اسے گناہِ عظیم تصور کرتے ہیں ـ اپنے بلاگ پر یہ ضرور لکھوں گا کہ میری زندگی خوشگوار کیسے بنی ـ

ڈیئر فہد مرزا :
سب سے پہلے عمدہ تبصرے کیلئے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور میں مانتا ہوں کہ اسلام طاقت کے زور پر نہیں بلکہ ایک امن پسند مذہب ہے اور اسلام یہ بھی سکھاتا ہے کہ وہ دوسرے قوموں کا احترام کرے ـ

عالیجناب اجمل صاحب :
میں آپ کیلئے نیک خواہشات رکھتا ہوں کہ آپ صحت و عافیت کے ساتھ ایک اور سو سال تک سلامت رہیں ـ اور مانتا ہوں کہ میری اکثر تحریریں آپ کی سوچ کے خلاف ہیں ـ مجھے خوشی ہے کہ ہم اردو بلاگرز میں ایک نیک صفت بزرگ بھی ہیں اور وہ آپ ہی ہیں ـ آپکی اچھی باتیں اور نصیحتیں سر آنکھوں پر اور میں آپ کا احترام کرتا ہوں ـ

October 03, 2005 8:53 PM  
Blogger urdudaaN said...

شايد آپ نے ميرے دوسرے تبصرے سے smiley كو نظر انداز كرديا، معاف كريں جبكہ آپ كے جذبات كو ميں ٹھيس لگا چكا ھوں

اب آپ اور ھم، مذھبوں سے نيچے يا اوپر جاكر انا، لالچ، طاقت، تہذيب اور نسل و رنگ كى بات كريں تو بہتر ھوگا
يہاں ميں آپ كو بتلارھا ھوں، نہ كہ نصيحت۔
١۔ مذہبوں سے زياده تہذيبوں نے لڑايا هے
٢۔ حاليہ جانيں مذھبوں كيلئے نھيں، مادہ پرستى كى ھوس اور نسلوں كى انا كيلئے لڑى جارھى ھيں
٣۔ اگر مذھب لڑاتے تو ھم مذھب آپس ميں نہ لڑتے، مطلب انا لڑاتى ھے
٤۔ ھم مذھب ايك دوسرے كو اونچ نيچ نہ گردانتے اگر نسل و رنگ كى لعنت نہ ھوتى
٥۔ اور "سيكولرزم" بغير مذھب كے بے معنى چيز ھے جسے لامذھبوں نے اغوا كرليا ھے
٦۔ دوسرے مذھبوں كا احترام كرنے كيلئے كسى مذھب كا مطيع ھونا اشد ضرورى ھے ورنہ وه ايك كاغذى دعوىٰ ھوگا
٧۔ بہتيرے مذاھب دراصل تہذيبيں ھيں

خيــــر؛ آئيے اردو ھم سب كى منتظر ھے
شعيب آپ يوں ھى حسبِ معمول لكھتے رھيں۔ آخر يہ آپكا blog ھے جو آپ ھميں پڑھنے دے رھے ھيں، نہ كہ كوئى اخبار جس پر ھم اعتراض كريں۔

October 03, 2005 9:39 PM  
Anonymous Anonymous said...

شکریہ جناب پرویز صاحب (اردو دان) اور معاف کرنا میں نے ابھی ابھی smiley دیکھا اور خوش ہوگیا، گستاخی معاف کریں ۔

October 03, 2005 10:16 PM  
Blogger میرا پاکستان said...

شعيب صاحب
آپ کي اس پوسٹ اور دوسرے دوستوں کي راۓ پڑھنے کے بعد ہم بھي اپنا نقطہ نظر پيش کرنے کي جسارت کررے ہيں۔
١۔ جتنے صاحبان نے آپ کو نصيحتيں کيں ان سے چند سوال کيجۓ۔
آپ کتنے باعمل مسلمان ہيں۔
آپ نے پانچ وقت کي نماز کب سے پڑھني شروع کي
کيا آپ مسلمان ہوتے کي ساري شرائط پوري کرتے ہيں اگر آپ اس امتحان ميں پورے اترے تو وصيحت کيجۓ وگرنہ پہلے اپنا محاسبہ کيجۓ۔
٢۔ انسان بھي گرگٹ کي چرح رنگ بدلتا ہے اور ضروري نہيں کہ جس کو آپ پسند کرتے ہيں اسکو ساري عمر آپ پسند کريں اور اس کو دوسرے لوگ بھي پسند کريں۔ آپ اس کو اسلۓ پسند کرتے ہيں کہ وہ آپ کا خيال رکھتا ہے اور آپ کا دل نہيں دکھاتا۔ جيسا کہ آپ نے اپنے ولديں کے بارے ميں لکھا ہے۔ مگر ابھي لگتا ہے آپ اپني جواني کے ابتدائي دور ميں ہيں اور جوں جوں وقت کي چکي ميں پستے جائيں گے آپ کے خيالات بدلتے جائيں گے۔ آج اگر آپ اپنے والديں کو پسند کرتے ہيں تو کل کو شادي کے بعد ہو سکتا ہے کہ آپ اپني بيوي کي طرفداري کرنے لگيں اور والدين آپ کو زہر لگنے لگيں۔ پھر ضروري نہيں کہ ساري اولاد اپنے والديں سے ايک جيسا لگاؤ رکھے۔ کوئي والدين کو زيادہ پيار کرے گا اور کوئي کم۔ ميرا خيال يہ ہے کہ ہم سب انسان ہيں اور سب مطلبي ہيں۔ آپ کو ہزاروں ميں ايک آدمي ملے گا جو بےلوث ہو گا۔ انسان کو اس کے رشتے سے نہيں پہچانو بلکہ اس کي شخصيت سے پہچانو۔۔

October 04, 2005 1:57 AM  
Blogger Saqib Saud said...

آپ آرام سے دانت دیں گے یا پھر مجھے زبرھستی نکالنے پڑیں گے؟

رمضان مبارک ہو آپ کو

October 04, 2005 6:19 PM  
Blogger Shuaib said...

میرا پاکستان :
آپکی آمد اور تبصرے کیلئے شکریہ ـ
واقعی ہم انسان چہروں سے جیسے بھی ہوں مگر مطلبی ہیں ـ میٹھی میٹھی باتیں، حسن و سلوک، ہمدردی، پیار و محبت پتہ نہیں اور کیا کیا انسان اپنے مطلب کیلئے استعمال کرتا ہے، دل میں کچھ منہ میں کچھ ـ کبھی کبھار دعوتوں میں ہندو اور مسلم ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں مگر انکے دلوں میں ایکدوسرے کیلئے سخت نفرت ہوتی ہے اور یہی حال اسلام میں موجود تمام فرقوں میں بھی ہے جسے ہم سب اچھی طرح محسوس کرتے ہیں ـ
آپ نے لکھا: انسان بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے (مگر یہ جملہ یوں ہونا چاہئے) گرگٹ بھی انسان کی طرح رنگ بدلتا ہے ـ

ثاقب :
آپ میرے منہ میں بیٹھ کر دانت نکالو ۔ رمضان آپ کو بھی مبارک

October 04, 2005 10:30 PM  

Post a Comment