Tuesday, October 04, 2005

دعوتِ افطار اور سمندر

آج بروز منگل یہاں رمضان کا پہلا دن ہے، صبح آفس میں داخل ہوتے ہی سب ایکدوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے جیسے پوچھ رہے ہوں روزے میں ہو؟ ابھی اپنی چیئر پر بیٹھے کمپیوٹر آن کیا، ایک ہندو ساتھی نے آکر مبارکباد دی ’’Happy Ramadan‘‘ اسکے بعد سب ایکدوسرے کو رمضان کی مبارکبادیاں دینا شروع کردیں ـ تقریبا آدھا گھنٹہ یوں ہی رمضان کی ٹائمنگ اور احکامات پر ڈسکس شروع ہوگیا کہ اچانک باس نمودار ہوا تو سب خاموشی سے معمول کے کام و کاج میں جٹ گئے ـ صبح کے گیارہ بجتے ہی میرے پیٹ میں چوہے دوڑنا شروع ہوگئے، آفس میں موجود دونوں کچن چھان مارا، نہ چائے، نہ کول ڈرنکس ـ باہر آیا تو ہوٹل ریسٹورنٹس وغیرہ سب بند تھے ـ پتہ نہیں آج کیوں اتنی بھوک لگ رہی جیسے دو دن سے کچھ کھایا نہیں ـ اپنی بھوک کا اظہار کسی سے کر بھی نہیں سکتا کیونکہ سب کا خیال ہے کہ میں بھی روزے میں ہوں ـ قریب ایک سوپر مارکیٹ گیا اور وہاں سے مختلف قسم کے چاکلیٹس، کیک اور اورینج جوس کا ایک ڈبہ خریدا ـ سوپر مارکیٹ میں موجود جو سبھی مجھے پہچانتے ہیں، پوچھا: کیوں روزہ نہیں؟ میں نے جواب دیا: یہ سب افطاری کیلئے خریدا ہے ـ واپس دفتر کے Sample Room میں آکر چاکلیٹس، کیک اور جوس وغیرہ کھانے پینے کے بعد جان میں جان آئی ـ منیجر نے پوچھا: آدھے گھنٹے سے تم اپنی سیٹ پر نہیں تھے؟ میں نے جواب دیا: باہر نماز پڑھنے گیا تھا ـ منیجر نے تعجب سے پوچھا: گیارہ بجے کونسی نماز؟ میں نے جواب دیا: ایسے ہی دل میں خیال آیا تو مسجد جاکر نماز پڑھ لی ـ منیجر نے پھر پوچھا: روزے میں کیسا محسوس ہو رہا ہے؟ میں نے منہ پونچھتے ہوئے جواب دیا: کچھ نہیں، سب کچھ ٹھیک جارہا ہے ـ شام پانچ بجے آفس سے چھٹی ہوئی، اپنی بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی کئی جان پہچان والوں نے افطاری کی دعوت کا آفر دیا کہ آج پہلا روزہ ہے اور تم ہمارے فلیٹ میں ہمارے ساتھ افطاری کرو گے، آؤ گے نا ـ تقریبا پانچ چھ لوگوں سے دعوتِ افطار قبول کرلی، واقع زبردست بھوک لگ رہی تھی ـ ابھی افطاری کیلئے بہت ٹائم باقی ہے، سامنے دیکھا Pizza Hut کا ریسٹورنٹ کھلا تھا ـ شام کے چھ بج چکے تھے، شہر میں جیسے سنّاٹا چھا گیا، سڑکیں سنسان ہوگئیں ـ سب لوگ اپنے اپنے گھروں اور مسجدوں میں افطاری میں مشغول اور کہیں دور سمندر کنارے کھلے آسمان کے نیچے اکیلا اور تنہا میں اور میرا Pizza ـ
Blogger میرا پاکستان said...

آپ کو بھي رمضان مبارک ہو۔
صرف ايک چھوٹي سي گزارش ہے کہ اگر آپ روزہ نہيں رکھتے تو نہ رکھيں اور اگر آپ مسلمان نہيں ہيں تو بھي يہ آپ کا ذاتي فعل ہے مگر اس طرح کي صاف گو تحريروں سے آپ پرہيز کريں تو ہزاروں لوگوں کي دعائيں ليں گے۔ آپ صرف انسان ہونے کے ناطے سوچۓ دوسرے انسان کا دل دکھاناآپ جيسے اچھے لوگوں کا کام نہيں ہونا چاہۓ۔
دنيا ميں بے شمار موضوع ہيں آپ کسي پر بھي لکھ سکتے ہيں مگر پليز ہم مسلمانوں کي دلآزاري نہ کيجۓ۔ اس بات کو سنجيدہ ليجئۓ گا اور اميد ہے کہ آپ ميري نصيحت کا برا بھي نہيں منائيں گے۔

October 05, 2005 5:39 AM  
Blogger urdudaaN said...

يہ بھى ايك عجيب بات ھيكہ نام نہاد اسلامى ملكوں ميں آپ روزه دار نہ ھوں تو بھى آپ سرِ عام كھا پى نہيں سكتے۔
يہ بالكل اُسى طرح ھے جيسے ہمارے جيسے نام نہاد جمہورى ممالك ميں گاندھى جى كے يومِ پيدائش پر شراب نوشى و گوشت خورى جيسے بنيادى حقوق سلب كرلئے جاتے ہيں۔
ميں اپنے عقيده كے تحت اللّه كو حاضر و ناظر جان كر كہتا ھوں كہ ميں آپ كى تنہائى و بے بسى كے غم ميں شريك ھوں۔

October 05, 2005 11:22 AM  
Blogger urdudaaN said...

ہمارے جيسے نام نہاد جمہورى ملك ميں

October 05, 2005 11:27 AM  
Blogger Shuaib said...

(میرا پاکستان) :
سب سے پہلے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ میری اس پوسٹ سے آپکے عقیدے کو ٹھیس پہنچی ـ میں ہرگز نہیں چاہتا اور نہ ہی میری ایسی نیت ہے کہ میں دوسروں کے عقیدوں کا مذاق اڑاؤں یا دل آزاری کروں ـ میری یہ پوسٹ بس یونہی روز مرّہ کے متعلق ہے اور میرے خیالات کا اظہار بھی ـ میں آپکے ایمان اور عقیدے کا احترام کرتا ہوں اور کوئی نصیحت کرے تو میں انکی بہت عزت کرتا ہوں ـ رہا سوال ایسی تحریریں دوبارہ نہ لکھنے کا، یہی تو میرا موضوع ہے اور دل کی بھڑاس نکالنے کیلئے بھلا بلاگ سے اچھا کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہیں ـ میری تحریروں سے کسی قسم کی ٹھیس پہنچتی ہے تو برائے مہربانی اسے ایک ’’مزاحیہ تحریر‘‘ سمجھ لیں ـ میں پھر سے کہوں گا کہ مجھے کسی کا دل دکھانا بالکل پسند نہیں اور نہ ہی میری ایسی نیّت ہے ـ

پرویز بھائی :
میری تنہائی اور بے بسی میں شریک ہونے کیلئے آپ کا بے حد شکریہ مگر میں غمگین ہرگز نہیں تھا کیونکہ میں ہمیشہ خوش و خرّم رہنے والا انسان ہوں البتہ کبھی کبھار تنہا اور بے بس ہوجاتا ہوں مگر خوشی اور سکون ہر پل مجھے اپنے سائے میں رکھتی ہے، دکھ درد اور غم جیسی چیزں کو پاس بھٹکنے بھی نہیں دیتیں ـ

آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے :
اسی ملک کی مثال دیتا ہوں، یہ ایک عرب ملک ہے، یہاں پر اسلامی شریعت کا قانون لاگو ہے اسکے باوجود پوری طرح مغربی کلچر میں غرق ہے ساتھ ہی پانچوں وقت عبادت کی پابندی بھی کرتے ہیں، عام دنوں تو دور کی بات رمضان میں بھی صبح و شام ہر جگہ زنا عام بات ہے اور شراب بھی ـ رمضان میں بھی ایسے کاموں کو چھوٹ ہے مگر باہر کھانے پینے پر ممانعت کے ساتھ جرمانہ بھی ہے اور اِس ملک کا شمار پہلے درجے کے اسلامی ممالک میں ہوتا ہے ـ کیا یہ اسلامی ملک ہے؟ اسلام تو ایک پاک و صاف مذہب ہے بالکل ایک آئینے کی طرح ـ

یہاں ہر قسم کے لوگ آباد ہیں ـ ہند، پاک کے مختلف شہروں سے، گاؤں گاؤں سے، ہر قسم کی کیٹگیری لوگ، دنیا بھر کے تمام مذہبی لوگ، آپ کے خاندان سے بھی کئی لوگ اور میں تو خود یہیں ہوں ـ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے ہر کونے کونے کا فرد یہاں آکر ہر وہ نیک کام کر رہا ہے جسے آپ جیسے اللہ والے گناہ تصور کرتے ہیں ـ عرب ممالک کے علاوہ جنوب ایشیا اور دوسرے کئی ممالک کے اکثر افراد یہاں سیرآب ہونے آتے ہیں، میں نہیں چاہتا کہ آپ بھی یہاں آکر سیرآب ہوں آپ تو ٹھہرے اللہ والے اور آپ کی ملاقات کئی اللہ والوں سے ہوچکی ہے جو دبئی سے سیرآب ہوکر آئیں ہونگے جنہیں آپ پنچگانہ نمازی بھی پائیں گے ـ سمجھ میں نہیں آتا یہ کیسا چھچورا پن ہے کہ ایک بدترین گناہگار بہترین انداز میں اپنے گناہ چھپاتے ہوئے دوسروں کو وصیتیں نصیحتیں وغیرہ کرتے ہیں ایک تو گناہ کو گناہ سمجھ کر بھی کردیتے ہیں اپنی برائی سننا بھی پسند نہیں اور چلے دوسروں کو ٹوکنے ـ سچ تو یہ ہے کوئی بھی اپنا عقیدہ سمجھ نہیں پایا سوائے تصور کے، صرف امیج بنائے رکھنے کیلئے شرافت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ـ پرویز بھائی، میں آپ سے معذرت خواہ ہوں، یہ سب میرے ذاتی خیالات ہیں، آپ اپنے بارے میں بہتر جانتے ہیں ـ آپکی تحریروں سے ظاہر ہیکہ آپ ایک باشعور اور روشن خیال انسان ہیں مگر افسوس کہ آپ بھی تصور کی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں ـ

October 05, 2005 9:08 PM  
Anonymous Anonymous said...

شائد اس لئے ہی بزرگ کہتے ہیں کہ جھوت نہ بولوں کیوں کہ ایک کے بعد ایک لائن لگ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

October 05, 2005 9:40 PM  
Blogger urdudaaN said...

مجھے لگا نہيں تھا كہ ميں اِس جواب كا مُستحق ھونگا۔ ميں نے تو آپ سے معذرت چاہنے جيسا بھى كُچھ نہيں لكھا تھا!
ميں مذہبى خيالات كا آدمى نہيں ھوں، مُجھے صرف غلط بيانى سے نفرت ھے جسے لوگ كٹّر پن كا نام دے سكتے ھيں۔
ويسے ميں اردو كے خيالوں ميں گُم رھتا ھوں۔ :)
ميں تو صرف يہ كہنا چاھوں گا كہ يہ نجانے كون جانتا ھے كہ مسلمان مذھبى و مذھب بيزار آخر ايكدوسرے اور ليڈروں سے چاھتے كيا ھيں؟

October 05, 2005 9:47 PM  
Blogger urdudaaN said...

ميں كئى بار خود تبديلئ مذھب كا سوچ بھى چكا ھوں، كيونكہ مُجھے مفت كے ڈنڈے راس نہيں آتے، جو روزآنہ ذرائع ابلاغ اور ھم مذھبوں سے ملتے رھتے ھيں۔
نہ ھى ميں اوروں جيسا مر مر كے جينا چاہتا ھوں۔ ميں عيسائيوں كى باھمى طرفدارى سے بہت مرعوب ھوں اور امّتِ مسلمہ كے "اُمّه" كے ڈھكوسلے سے بيزار بھى۔
ميرے ناپاك خيالات http://brother-hood.blogspot.com پر قلمبند كرتا ھوں، مُلاحظہ ھوں۔

October 05, 2005 10:09 PM  
Anonymous Anonymous said...

میرے بھائی پرویز؛
میں آپ سے معافی چاہتا ہوں، اب آپ یہ نہ پوچھیں کس بات کی معافی - میں سچ مچ شرمندہ ہوچکا ہوں !

October 05, 2005 10:15 PM  
Blogger Saqib Saud said...

میں نے سنا ہے اپنے والد صاحب سے کہ عرب میں جو لوگ اچھے ہیں وہ بہت ہی اچھے ہیں اور جو برے ہیں وہ بہت ہی برے ہیں۔
---------------
آپ ضرور لکھا کریں،بندہ اپنوں ہی سے تو دل کی بات کرتا ہے اور جو کوئی آپ کو نصیحت کرتا ہے اپنا سمجہ کر ہی کرتا ہے۔اصلاح کی گنجائش ہر انسان میں ہوتی ہے۔

October 05, 2005 10:47 PM  
Anonymous Anonymous said...

بھائی ثاقب ؛ پتے کی بات کہنے کیلئے آپ کا بہت بہت شکریہ ! میں آپ سب سے گذارش کروں گا میرے بنائے ہوئے اردو گرافک اپنے صفحات پر استعمال کرکے اردو کو فروغ دیں !

October 05, 2005 10:57 PM  

Post a Comment