Saturday, November 05, 2005

آج کی پوسٹ

جنیفر لوپز، جو اس وقت عمر کے آخری اسٹیج پر پہنچ چکی ہیں، پھر بھی اپنی کمر ہلانے کو باعثِ ثواب مانتی ہیں اسلئے کہ آج بھی اچھے اچھے انکی مٹکتی کمر پر شہادت پانے کی تمنّا رکھتے ہیں ـ کسی زمانے میں جنیفر لوپز کو یہ خطاب حاصل تھا کہ وہ وقت کی ٹاپ سیکسی سنگر تھیں مگر انکے دماغ میں یہی بات بیٹھ چکی ہے کہ وہ ابھی بھی اسی مقام پر ہیں ـ پچپن سالہ میڈونا کی بات الگ ہے لیکن جنیفر کو یہ بات بالکل سمجھ نہیں آتی کہ اِن میں اور میڈونا میں زمین و آسماں کا سا فرق ہے ـ انکے نئے ویڈیو البم میں بھی بے شمار جھٹکے اور مٹکے دکھانے کی ناکام کوشش کی ہے اور MTV کی جادوئی اسکرین میں انکے چہرے پر تقریبا پچاس جھریاں صاف نظر آرہی تھیں اگر میک اپ نہ کیا ہوتا تو اِن جھریوں کی تعداد تقریبا سو سے اوپر ہوتیں ـ آج بھی میرے اِس اردو بلاگ کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ دوسرے اردو بلاگرز میں منفرد ہے، کیونکہ یہ ایک غیر مذہب کا بلاگ ہے ـ گوگل پر اردو میں کھوج کریں تو زیادہ سے زیادہ مذہبی ربط ظاہر ہوتے ہیں لیکن میری کوشش رہے گی کہ ’’اردو میں کھوج‘‘ کرنے والوں کو ہر قسم کے الفاظ اور مختلف قسم کا مواد بھی ملے ـ شروع سے ہی اپنے بلاگ پر غیر مذہبی تحریریں، سیکس اور تفریحی موضوعات، فلمی، سائنسی، بچوں کے متعلق، عربوں کے متعلق، مذہب کے خلاف، کمپیوٹر کے متعلق ٹیوٹوریلس وغیرہ مطلب کہ ہر قسم کی تحریریں اردو میں لکھ چکا ہوں اور لکھتا رہوں گا ـ مذہب کے خلاف انگریزی میں بے شمار بلاگ لکھے جارہے ہیں، اور یہ نیک کام کرنے والا میں واحد شخص ہوں جو اردو میں مذہب کے خلاف بلاگ لکھتا آ رہا ہوں ـ میری ایک خوبی یہ ہے کہ انگریزی میں روانی کے ساتھ بات چیت کرسکتا ہوں مگر جب لکھتا ہوں یا ٹائپ کروں تو بہت سارے حرف کھا لیتا ہوں اور میری رائٹنگ بھی ڈاکٹروں سے بہت خراب ہے کیونکہ پچھلے دس سالوں سے صرف اور صرف گرافک پر کام کیا ہے تو ظاہر سی بات ہے میری خوشخط بھی گرافک کی طرح ہو ـ مجھے یہ دیکھ کر بہت غصّہ آتا ہے جب گوگل پر اردو میں تلاش کریں تو اکثر لنکس مذہبی ویب صفحوں پر لیجاتے ہیں اور بقیہ بی بی سی کے اردو صفحے پر ـ بروزِ جمعرات 3 نومبر کو یہاں امارات میں عید الفطر منائی گئی ـ صحیح معنوں میں عید ہو یا دوسرا کوئی تہوار، صرف بچوں کیلئے خاص ہوتا ہے اسلئے کہ انہیں بہت ساری عیدی ملتی ہے اور نئے کپڑے، کھیلنے کیلئے کھلونے وغیرہ اگر عید کا صحیح لطف اٹھانا ہے تو بچہ بن جانا چاہئے ـ میں خود اپنے بچپن میں یہ سارے لطف پاچکا ہوں، واہ وہ بھی کیا دن تھے عید کی نماز سے فارغ ہوکر گھر آتے ہی مزیدار اور لذیذ کھانوں کو نظر انداز کرکے سب سے پہلے عیدی کیلئے یہاں وہاں بھاگتے، ایک ہاتھ میں آئس کریم دوسرے ہاتھ میں گیس بھرے غبارے اور کپڑوں پر آئس کریم کے دھبّے ـ گھر میں صبح سے ہی رشتے داروں کی آمدیں، ہم ننھے بچوں کو صوفے پر یا ڈائننگ ٹیبل پر کھڑا کرکے اور زیادہ پیار آجائے تو گود میں اٹھاکر گلے لگاتے تھے ـ ایک دن دیدی نے میری انگلیوں پر مہندی لگائی تو ڈیڈی نے یہ پوچھتے ہوئے میری انگلیوں پر مارا کہ کیا تو لڑکی ہے؟ پھر میں نے آج تک مہندی کو چھوا نہیں ـ میری عادت تھی کہ عید گاہ سے باہر نکلتے ہی بہت سارے گیس کے غبارے خرید کر ڈیڈی کی کنیٹک ہونڈا پر سجاتا تھا ـ یہاں امارات میں روکھی سوکھی عید، نہ کوئی رونق نہ باغ تماشے نہ کہیں بچوں کا چہچہانا ـ خیر، عید سے میرا کیا لینا اور مجھے کونسا عید کی نماز پڑھنا؟ اس موقع پر ملنے والی دو دنوں کی چھٹیوں کا مزہ اٹھایا ـ ہم دوستوں نے کرائے کی کاریں لیکر شہر سے دور گھومنے چلے گئے اور بہت ہی سکون کے ساتھ مزے اڑائے ـ عید ہو یا دوسری عام چھٹیاں، یہاں پر بھی رونقیں لگی رہتی ہیں مگر بچوں کیلئے نہیں صرف بڑوں کیلئے ـ چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو اور دنیا کے کسی بھی شہر سے تعلق رکھتا ہو، اِس رونق میں ضرور شامل رہتا ہے ـ عید کے دن شام سے ہی دبئی کے مختلف شاہراہوں پر ہوشربا لڑکیاں، انسانوں کا جنگل، نائٹ کلب، ڈسکو اور بیئر باروں کے باہر لمبی قطاریں جس میں حاجی صاحب بھی کھڑے ہیں، پادری، پنڈت کے علاوہ سعودی عربیہ، کویت اور بحرین سے آئے ہوئے لوکل شہری بھی پیش پیش ـ یہ سارے لوگ عید کے صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس، مختلف قسم کے عطر اور پرفیوم لگائے ہوئے، سڑکوں پر دنیا بھر سے آئی ہوئی لڑکیاں جو عریاں کپڑے پہنے ہوئے اور جنکی وجہ سے ہر جانب ٹریفک جام ـ یہاں موجود اکثر لوگ جو مختلف ممالک کے شہری ہیں آج عید کے دن اپنی کمائی کا ایک بڑا حصہ شراب اور شباب پر لٹائیں گے اسکے علاوہ اپنے گھر والوں کو بذریعہ فون عید کی مبارکبادیاں بھی دیں گے ـ مجھے بالکل بھی افسوس نہیں کہ مرنے کے بعد میرا کیا ہوگا کیونکہ میں جنت دیکھ چکا ہوں، ہاں دنیا میرے لئے جنت ہے ـ میرا شمار چند ایسے انسانوں میں ہوتا ہے جن کے اندر اچھائیاں اور برائیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں، اور وہ جو بالکل سیدھے سادے اپنی مرضی کے راجہ ـ میرے اور دوسرے لوگوں میں بس صرف اتنا سا فرق ہے کہ میں مذہب کو تسلیم نہیں کرتا اور مجھ میں باقی سب وہی ہے جو عام انسانوں میں ہوتا ہے یعنی جھوٹ، فریب، ایمانداری، دوستی وغیرہ ـ یوں تو اِس اسلامی ملک میں دنیا بھر کے تمام مذہبی لوگ آباد ہیں اور یہاں کے عجیب و غریب ماحول کو دیکھ کر مذہب کے خلاف میرے خیالات اور بھی پختہ ہوجاتے ہیں ـ یہاں آنے کے بعد دنیا بھر کے مختلف انسانوں کو قریب سے دیکھنے اور انہیں سمجھنے کا موقع ملا ـ دل صاف گواہی دیتا ہے کہ میرے خیالات سو فیصد صحیح ہیں چاہے دوسروں کیلئے میں غلط ہوں ـ مذہبی لوگوں کی مصنوعی اداؤں سے صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک دوسرے کو دکھانے کیلئے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور یوں تو دنیا کے رواج میں مذہبی شناخت بھی ضروری ہوچکی ہے ـ وہ رمضان کی 29 ویں رات تھی جب صرف بارہ برس کا تھا، امّی نے سختی کے ساتھ تاکید کی تھی کہ مسجد میں رات بھر عبادت کرنا اور بھائیوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ پر نظر رکھے اگر شکایت ملی کہ تو نے آج کی رات آوارہ گردی کی ہے تو سخت سزا دونگی ـ اور ایسا ہی ہوا، ڈیڈی کی اسکوٹر لیکر دوستوں کو بٹھایا پھر مسجد کے پیچھے موجود قبرستان میں آدھی رات تک اسکوٹر دوڑائی اور پورا پیٹرول ختم ہوگیا، گاڑی کئی جگہوں سے چٹخ چکی تھی ـ پہلے تو امّی نے بری طرح سے پیٹا اور پٹتے ہوئے دل میں یہ بھی امید تھی کہ یہ تو کچھ نہیں جب ڈیڈ آئیں گے تو پتہ نہیں کیا کریں گے؟ اور ڈیڈی بھی آگئے، بیلٹ اتاری تو میں سمجھا معمول کی طرح لنگی پہننے کیلئے پتلون اتار رہے ہونگے مگر یہ کیا بیلٹ کو لہراتے ہوئے چٹاخ چٹاخ مجھ پر شروع ہوگئے ـ پٹتے ہوئے اپنے بھائیوں کی طرف انگلی سے اشارہ بھی کر رہا تھا کہ تمہیں دیکھ لوں گا ـ ہائے رے بچپن کیا شرارت تھی، دوسرے بچوں پر میرا دبدبہ تھا وہ اسلئے کہ دس روپیوں کی شرط پر قبرستان میں موجود سانپ کے بلوں میں ہاتھ ڈالتا، اسوقت ذرا بھی خیال نہ تھا کہ یہ میری بیوقوفانہ شان پتی تھی صرف دوستوں میں روب جمائے رکھنے کیلئے پتہ نہیں اور کیا کیا کرتا تھا ـ دبئی آنے سے دو ماہ پہلے ہی ایک ڈرائیونگ سنٹر سے کار چلانے کی ٹریننگ لی پھر جلد ہی لائسنس بھی مل گیا تھا ـ مگر مجال ہے جو کبھی ٹو وہیلر کا لائسنس بنایا ہو، سولہ برس کی عمر سے لیکر بائیس سال کی عمر تک مختلف اخباروں میں نوکری کرتا رہا یعنی کہ میرا لڑکپن اور جوانی کا پورا عرصہ نیوز میڈیا میں گذار دیا ـ اور یہ پورا عرصہ میری ٹو وہیلر (بائیک) پر لال رنگ میں PRESS لکھا ہوا تھا جسکی وجہ سے ٹرافک کانسٹیبلوں کے سامنے گردن اٹھاکر شانے اچکاتے ہوئے تیزی سے گذر جاتا ـ اِس دوران کبھی بھی پولیس والوں سے پالا نہیں پڑا حالانکہ روزانہ رات ڈھائی بجے کے بعد ہی گھر واپس آتا تھا ـ اور ویسے بھی مجھے پولیس والوں سے ذرا بھی خوف نہیں کیونکہ اگر میری بائیک پکڑی بھی گئی تو شہر کے کئی نامی گرامی اخباری رپورٹر حضرات کس کام کے، جن سے میری اچھی جان پہچان تھی انہی کی بدولت میری گاڑی واپس بھی مل جاتی ـ اکثر ساتھی ایسا ہی کرتے ہیں جب کبھی بھی راتوں میں پولیس والے انکی گاڑی اٹھا لیجاتے تو وہ رپورٹر صاحبان کی مدد سے بغیر کسی جرمانے کے اپنی گاڑیاں واپس پالیتے ـ تقریبا آٹھ سالوں تک نائٹ شفٹوں میں مختلف اخباروں میں کام کرتا رہا کیونکہ فرونٹ پیج کی کمپوزنگ رات کے آخری پہر میں ہی ہوتی ہے اور میں گرافک ڈیزائنر کے علاوہ فرونٹ پیج (پہلے صفحے) کا کمپوزر بھی رہا ـ اتنے سالوں تک آدھی رات کو گھر لوٹتے ہوئے کسی چیز کا خوف نہیں تھا سوائے آوارہ کتوں کے ـ ژوسیا دنیا کی وہ واحد لڑکی ہے جو صرف ایک خاص شخص کیلئے بلاگ لکھتی ہے اور وہ شخص میں ہوں، حالانکہ وہ پولش ہے صرف میری خاطر اپنی ہفتہ بھر کی کہانی کو لکھ کر انگریزی میں بلاگ کرتی ہے ـ زندگی میں کئی لڑکیاں دیکھیں مگر ژوسیا ہزاروں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ایک ہے ـ مجھ سے ہزاروں کلو میٹر دور، ہر سال میرے وقت کے مطابق ٹھیک بارہ بجتے ہی دس پندرہ SMS کے ذریعے سالگرہ کی مبارکبادیوں کے ساتھ مجھ پر نظمیں بھی لکھتی ہے ـ دنیا میں اگر کوئی میرے تمام راز جانتا ہو تو وہ صرف ژوسیا ہی ہے، جس سے میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ـ وہ ایک عیسائی گھرانے کی مذہب پرست لڑکی ہے اور اس کو خدا پر پورا اعتبار ہے مگر مزے کی بات ہے کہ اسے میری آزاد زندگی بہت پسند ہے خود کئی بار مجھ سے کہہ چکی ہے کہ ’’تم جیسے بھی ہو بہت ٹھیک جا رہے ہو اور میں تمہارے ساتھ ہوں ـ‘‘ ژوسیا نہایت ہی پاک و صاف خیالات کی حامل لڑکی ہے، اسے میرے ساتھ شرارتیں کرنا بہت پسند ہے مگر وہ لڑکوں سے سخت نفرت کرتی ہے، خود اسکی زبانی ’’تمام لڑکے ایک جیسے ہوتے ہیں اور لڑکیوں سے صرف ایک ہی چیز چاہتے ہیں، یہاں تک کہ میرا چھوٹا بھائی جو اسوقت صرف سولہ برس کا ہے، ایک ساتھ تین تین گرل فرینڈس کو پال رکھا ہے ـ‘‘ ژوسیا اپنے باپ سے بھی نفرت کرتی ہے اسلئے کہ اسکی پھول جیسی ماں JOLANTA کو دوسری عورت کی خاطر طلاق دیدی تھی ـ چھیالیس سالہ جولانٹا جو پچھلے آٹھ سالوں سے Austrian SuperMarket میں کیشیئر کی حیثیت کام کرتے ہوئے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہے، میری بہت قدر کرتی ہے ساتھ ہی ہفتے میں دو بار SMS بھیجنا نہیں بھولتی اور اسے اپنی لائق بیٹی ژوسیا پر پورا بھروسہ جس نے مجھے اپنا بہترین ساتھی بنایا ـ میرے والد کا خاندان مسلک اہلِ حدیث سے ہے اور والدہ کا خاندان تبلیغی جماعت سے، دونوں کٹّر مذہبی اور میرے بھائی بہن بھی جن کا دن قرآن پڑھنے سے شروع ہوتا ہے ـ ایک دن ڈیڈی نے میرا گریبان پکڑ کر گھر سے باہر کر دیا کہ تو میری اولاد ہی نہیں ہے، نہ تجھے قرآن پڑھنا معلوم نہ نماز ـ پھر امّی سے پوچھا پتہ نہیں یہ نان مسلم ہمارے گھر کیسے پیدا ہوگیا؟ ڈیڈی کو خوف کھائے جارہا تھا، وہ ہمیشہ کہتے کہ قیامت کے دن خدا انکا گریبان پکڑ کر پوچھے گا تیری اولاد میں سے ایک کو مسلمان کیوں نہیں بنایا؟ برقعہ پہنے امّی روڈ پر میرے پیچھے نکل آئیں، کہنے لگیں ڈیڈی سے معافی مانگ لے اور ایک اچھا مذہبی ہوجا، تو ہماری اولاد ہے اور ہم تجھے اسطرح غیر مذہبی نہیں دیکھ سکتے ـ روڈ پر ہی امّی سے دو ٹوک سوال پوچھ لیا: گھر کا سارا خرچ کون چلاتا ہے؟ صرف میرے اور ڈیڈی کی کمائی سے گھر کا خرچ چل رہا ہے، گھر میں ضروریات کا سارا سامان میں اور ڈیڈی خرید کر لاتے ہیں تو ہمارے بیچ خدا کہاں سے ٹپکا؟ ہماری محنت، ہماری کمائی، ہماری جد و جہد اور تم اس پر خدا کا لیبل لگاتی ہو؟ اتنا سننا تھا امّی سرخ ہوگئیں اور روڈ پر ہی چٹاخ میرا سانولا گال بھی سرخ کردیا بے شرم آج تجھے خدا پر بھی اعتماد نہیں؟ ابھی تیری عمر ہی کیا ہے صرف سولہ سال اور اس پر اتنی گھناؤنی بات کہ خالقِ کائنات کو انکار کر رہا ہے؟ آج امّی مجھ پر اعتماد کرتی ہیں پھر بھی انکے دل میں شک ہے کہ انکا بیٹا واقع غیر مذہبی ہے، ٹیلیفون پر بھی میرے نماز اور روزے کے بارے میں پوچھتی رہتی ہیں اور کہتی ہیں ہمیں تیری کمائی زیادہ ضروری نہیں لیکن تو ایک اچھا مذہبی بنے یہی ہماری سب خوشیاں ہیں اور اس تعلق سے میں ہمیشہ فکر مند رہتی ہوں ـ اور مجھے بھی اپنی والدہ کی خوشیوں کا احترام کرنا ہے اور میں انسان ہوں، امّی سے کہتا ہوں آپ اطمینان رکھئیے آپ کی تمام نصیحتوں پر عمل کر رہا ہوں ـ کئی بار کوشش کرچکا کہ ژوسیا کو کچھ بہترین تحفے بھیجوں مگر خود مختار لڑکی ہمیشہ سے سختی کیساتھ انکار کرتی رہتی ہے ـ وہ لندن جانا چاہتی ہے جہاں پر اسکولوں میں اسے ٹیچنگ کی بہترین جاب مل سکتی ہے مگر اسکی ماں بھیجنا نہیں چاہتی کیونکہ وہ اسکی بیٹی ہی نہیں بلکہ ایک بہترین سہیلی کی طرح ہے ـ اب ژوسیا پورے بیس سال کی ہوچکی تو میں اسے شادی کے بارے میں یاد دلایا مگر اس نے سختی کے ساتھ انکار کردیا اور فیصلہ بھی کرلیا کہ وہ کبھی شادی نہیں کرے گی کیونکہ وہ مردوں سے سخت نفرت کرتی ہے اور اسے دنیا کا کوئی بھی مرد اچھا نہیں لگتا، ڈیڈی نے میری ماں کو بہت تکلیفیں دیں حالانکہ میری ماں دنیا کی بہترین عورتوں میں سے ایک ہے ـ یعنی کہ ژوسیا مجھ سے بھی شادی کرنا نہیں چاہتی خود اسکی زبانی ’’ہم دونوں بہترین دوست ہیں اور مجھے امید ہے ہماری عمر سو سال بھی ہوجائے تب بھی ہم ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور ایسے ہی ہنسی مذاق کرتے رہیں گے اسوقت ہمارے منہ میں دانت بھی نہیں ہونگے ـ‘‘ اسکی ماں JOLANTA جسے پولش کے سوا کچھ نہیں معلوم پھر بھی مجھ سے بات چیت کرنے کیلئے اپنی بیٹی ژوسیا سے انگریزی سیکھتی رہتی ہے ـ بیس سالہ خوبصورت ژوسیا جس نے میری خطرناک زبان کو تراش کر ہوش ٹھکانے لگائے ـ لائف میں ایک بڑی خواہش یہ بھی ہیکہ ژوسیا سے ہوبہو ملوں اور گلے لگاکر اسکے گالوں کو چوموں ـ کئی بار اسے کہہ بھی دیا کہ ’’دیکھنا ایک دن تیرے دروازے تک آ جاؤں گا اور تو مجھے دیکھتے ہی چکراکر گر جائیگی ـ‘‘ ہمیشہ کی طرح وہ مسکرا کر جواب دیتی ہے ’’تم ہمارے گھر آؤ تو شایانِ شان اپنی فیملی کیساتھ تمہارا استقبال کروں گی ـ‘‘ بہت ہی ذہین اور صاف دل لڑکی ہے، اسے بھی میری طرح دوسروں کی مدد کرکے دلی تسکین ملتی ہے ـ میری پچیسویں سالگرہ پر مبارکباد دیتے ہوئے ڈیڈی نے ٹیلیفون پر کہا تھا ابھی کب تک یوں پردیس میں رہے گا، گھر واپس آ اور اپنی شادی کے بارے کچھ سوچ ـ ڈیڈی کے منہ سے یوں اپنی شادی کے بارے سنتے ہی جسم میں جیسے گدگدی سی دوڑ گئی، سچ مچ اِس پچیس سالہ تیز رفتار زندگی میں کبھی بھی اپنی شادی کا خیال نہیں آیا اور آیا بھی تو صرف مذاق کی حد تک ـ ابھی چھٹیوں میں گھر جاؤں تو والدین زبردستی میری شادی کسی ایسی لڑکی سے کروا دیں گے جو نہایت ہی مذہبی اور عبادت گذار ہوگی اور وہ بیچاری دلہن میری دشمن ثابت ہوگی کیونکہ مجھے یہ ہرگز گوارا نہیں کہ میری بیوی مذہبی ہو ـ اور میں اپنی بیوی کی نظروں میں دنیا کا سب سے بڑا گناہگار جسے خدا پر ذرا بھی اعتماد نہیں ـ ژوسیا نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ ہمیشہ ثابت قدمی کے ساتھ ہر مشکل کا اکیلے سامنا کرے گی اور اسے کسی بھی سہارے کی ضرورت نہیں ـ وہ ایک لڑکی ہے، مجھ سے پانچ سال چھوٹی لیکن اسکے اخلاق اور باتوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ مجھ سے پانچ سال بڑی ہو ـ اسے میں ہمیشہ Lesbian کہہ کر چھیڑتا ہوں اور وہ مسکرا کر کہتی ہے ایسی کوئی بات نہیں، مجھ میں بھی کوٹ کوٹ کر عورت پن ہے مگر میں کسی لڑکے پر بھروسہ نہیں کروں گی اور نہ ہی کبھی کسی سے شادی کروں گی ـ میں نے پوچھا کیا تمہیں مجھ پر بھی بھروسہ نہیں؟ غصہ ہوکر کہتی ہے ایسا کیوں پوچھ رہے ہو؟ میں سب سے پہلے God اور پھر اپنی ماں کے بعد صرف تم پر بھروسہ کرتی ہوں ـ آج کی پوسٹ کا یہ بارہواں پیرا گراف ہے، ہوا یوں کہ کل شام ایک شاپنگ مال گیا تھا جہاں ایک خوبصورت حسینہ سے نین لڑاتے ہوئے ایکسیلیٹر پر میرا پاؤں پھسل گیا، شدید درد محسوس ہوا، لنگڑاتے ہوئے شاپنگ مال سے باہر آیا اور ٹیکسی پکڑ کر سیدھا اپنے فلیٹ آگیا، پاؤں سوج چکا تھا، کچھ مرہم لگاکر تھوڑی دیر آرام کیا پھر ٹی وی دیکھا بورنگ ہونے لگی پھر کمپیوٹر کھولا بلاگ کیلئے کچھ پوسٹ لکھنا چاہا تو یہ ایک لمبی پوسٹ بنتی جارہی ہے ـ اس بلاگ سے بھی میری زندگی پر کافی اثر پڑا، جہاں آج سے پہلے انٹرنیٹ پر اپنا کافی وقت فضول گذارتا تھا، انجان لوگوں سے چیٹنگ حالانکہ مجھے چیٹنگ کا شوق نہیں مگر بیکار وقت خرچ کرتا تھا، فضول اور فحش ویب سائٹس پر بھی ـ مگر اب نہیں، کیونکہ آج کل وقت کو صحیح جانب استعمال کر رہا ہوں ـ بلاگ کی شروعات سے تھوڑا بہت Html اور Java سکرپٹ سیکھنے کا موقع ملا، اسکے علاوہ بلاگ کی ٹمپلیٹ بنانا، انٹرنیٹ پر اردو کی ترویج میں کچھ نہ کچھ کرتے رہتا ہوں فی الحال اردو کی انیمیٹڈ تصویریں بنا رہا ہوں اور ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ دوسرے بلاگروں کی تحریروں سے بہت ساری معلومات حاصل ہوئیں ـ آج اگر انٹرنیٹ استعمال کرتا ہوں تو صرف اور صرف بلاگ لکھنے پڑھنے، ایمیل استعمال کرنے اور چند گنتی کے دوستوں کیساتھ چیٹنگ کرتا ہوں بس اور کچھ نہیں ـ ہفتے میں ایک بار ژوسیا کے ساتھ چار ـ پانچ گھنٹے چیٹ کرتا ہوں اسکے علاوہ ہم دونوں روزانہ SMS کے ذریعے تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں ـ
Blogger Nabeel said...

واہ، آج تو خوب لمبی پوسٹ لکھی ہے تم نے۔ لگتا ہے میرے کہنے پر ژوسیا کی یاد کچھ زیادہ ہی ستانے لگی ہے تمہیں۔ چلو کبھی نہ کبھی تو یہ ملن ہوگا۔ کبھی لگاؤ چکر پولینڈ کا۔

November 06, 2005 7:51 AM  
Blogger Nabeel said...

اور یہ تم نے جنیفر لوپیز کو اتنا بوڑھا کیوں قرار دیا ہے۔ اتنی عمر تو نہیں ہے اس کی۔ جہاں تک رہی بات مذہبی بلاگز کی، تم نے یہ نہیں بتایا کہ تم ان پر بھی گوگل کے ذریعے سیکس کی تلاش میں پہنچتے ہو۔ ہا ہا ہا

November 06, 2005 7:54 AM  
Anonymous Anonymous said...

ژوسیاکا بلاگ تو پھر تم لازمن پڑھتے ہو گے۔۔۔۔

November 06, 2005 9:19 AM  
Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

آپ نے بنگلور سے دبئی تک پوسٹ لکھ ماری ہے اور دعوی بھی مذہب کی مخالفت کا ہے ۔ نام نہاد آزاد خیالوں میں اتنی لمبی پوسٹ پڑھنے کا حوصلہ نہیں ہوتا ۔ وہ تو جانتے ہیں چلتی کا نام گاڑی ۔ نہیں مانتے تو اپنی ساری پوسٹس پر تبصرے دیکھ لیجئے ۔ شائد ہی کسی مذہب دشمن نے تبصرہ کیا ہو ۔ ذرا اعداد و شمار لکھیئے کہ کل کتنے تبصرے ہوۓ اور ان میں سے کتنے مذہب دشمنوں نے کئے ؟ زیادہ نہیں صرف یکم جولائی سے 6 نومبر 2005 تک دیکھ لیجئے ۔

November 06, 2005 10:12 AM  
Anonymous Anonymous said...

جنیفر لوپز کو بوڑھا نہ کہیں ورنہ میں اور نبیل بھی بوڑھے قرار پائیں گے۔

آپ کے بلاگ پر تبصرے کی خاطر آج اوپرا کھولنا پڑا۔

November 06, 2005 11:46 AM  
Anonymous Anonymous said...

جنیفر لوپز کو میں بھی پسند کرتا تھا مگر آجکل وہ مجھے اچھی نہیں لگ رہی کیونکہ اسکے مقابلے اور بھی بہت ساری آچکی ہیں (;

November 06, 2005 10:51 PM  

Post a Comment