نئی باتیں / نئی سوچ

Sunday, May 29, 2005

’’شعیب‘‘

میں کیلی گرافر تو نہیں، ایک کتاب میں نام ’’محمد‘‘ کو کسی کاتب نے اس انداز سے لکھا تھا اور میں نے بھی اسی انداز سے اپنا نام ’’شعیب‘‘ CorelDRAW میں ڈیزائن کیا پھر Photoshop میں کچھ فلٹرس استعمال کرنے کے بعد واقع خوبصورت لگ رہا ہے ـ
Anonymous Anonymous said...

Beautifull design

May 29, 2005 11:03 PM  
Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

First thank you for you encouraging comment on my blog.

Reading about Photoshop, made me recall my problem. I had formatted hard drive to get rid of some problem. So, all installed software was deleted with the confidence that I had all on CDs. While re-installing, I found that my Photoshop 5 or 6 was missing (taken by one of but I had it's version 8 which only modofies version 5 or 6. In the market good copy is not available these days. Is it convenient to send complete Photo shop 5 or later version in zipped form ?

May 30, 2005 12:02 PM  
Blogger Whats In A Name said...

Hi...
I was here...

June 03, 2005 10:34 AM  
Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

Thank you Shuaib. I am finding difficulty in Islamabad. These days shops are flooded with CD's of songs and movies. Good software is rarely available. I am scared of cheep material which sometimes creates problem for my computer.

June 03, 2005 10:38 AM  
Blogger Danial said...

Dear Shoaib,

It is an ok design. but think about removing frames. and where is rest of the content? What about archives?

The small buttons for font fownload main page and contact are cute.

June 04, 2005 1:08 AM  

Post a Comment

صدام کی اوقات

ڈکٹیٹرشپ کے ذریعے پچیس سال سے زائد راج کرنے والے مرد آہن صدام حسین، شاید اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہوں، ٧٩ء کا وہ زمانہ جب امریکہ سے آشیرواد لیا کرتے تھے پھر پتہ نہیں انہیں کس مکوڑے نے کاٹ لیا کہ خود کو بش سمجھنے لگے جبکہ انہیں اپنی بیوقوفی کا احساس تھا مگر پھر بھی اپنے تیل کے کنوؤں پر بھروسا تھا ـ خیر، آج انہیں اپنی کی ہوئی غلطیاں یاد آرہی ہیں اور انہیں اپنی اس بیوقوفی پر ہنسی بھی آرہی کہ خود کو بش سمجھنے لگے تھے ـ دس سال ایرانی تھپڑوں سے سلجھے ہوئے صدام کو عقل کیا آگئی کہ شروعات تو چھوٹے ملک کویت سے کرنی ہے مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ یہاں پر منہ کی کھانی پڑے گی، انہیں سمجھانے والا بھی کوئی نہیں تھا اور نہ وہ خود سمجھنے کی طاقت رکھتے تھے کیونکہ انپر بش بننے کا جنون جو سوار تھا ـ شایانِ شان زندگی بسر کرنے والا شخص آج دنیا کے سامنے سر جھکائے ہوئے ـ یہ پوسٹ تحریر کرتے ہوئے خیال آیا کہ کاش اگر صدام کی جگہ اسامہ بن لادن عراق کے صدر ہوتے؟ اتنی آسانی سے امریکہ کے ہاتھ نہ لگتے اور امریکہ آج بھی اسامہ کی طرح صدام کو دھونڈتا پھرتا اور شاید کہ بش امریکی صدارت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ـ
Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

شعیب صاحب ۔ ذرا ہتھ ہولا رکھیا کرو۔ مطلب ہے ہاتھ ذرا نرم رکھا کریں۔ کچھ باتیں نازک ہوتی ہیں۔ کوئی مشین خریدیں تو ساتھ ترکیب استعمال بھی سیکھنی پڑتی ہے۔ سب جانتے ہیں روٹی آٹے سے بنتی ہے مگر پکانے کا طریقہ سیکھنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالی نے دماغ تو سب کو مفت میں دے دیا۔ ہم نے قدر نہ کی اور سمجھ بیٹھے کہ استعمال ہم خود ہی کر لیں گے۔ صرف صدام ہی نہیں بڑے بڑے سورما یہاں ہیں جو پیدا کرنے والے کو بھول کر ایک ہی ڈائریکٹر کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ ہمارے بڑے صاحب کے متعلق کیا خیال ہے جو شوخی میں آ کر اپنے ہی ہموطنوں کو مار اور مروا رہا ہے۔ جس دن اس کے بڑے صاحب کو اس کی ضرورت نہ رہی اس وقت اس کے ساتھ کیا ہو گا صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ ابھی تو وہ پھوں پھوں کرتا پھرتا ہے اور کسی کو خاطر میں ہی نہیں لاتا۔

May 30, 2005 4:43 PM  

Post a Comment

Thursday, May 26, 2005

فوٹو کا کمال

ژوسیا کی ممّی Web cam پر دیکھ کر کہنے لگی میں اسے خوبصورت لگ رہا ہوں اور میری آنکھیں بھی بہت پیاری ہیں ـ میں نے کہا آنٹی جی یہ کیسا مذاق ہے، آپ مجھے ذلیل کرنا تو نہیں چاہتیں؟ کیونکہ آج تک میرے مانباپ نے بھی مجھے خوبصورت نہیں کہا ـ کہنے لگی ـ ارے نہیں، میرا مطلب ہے تم سچ مچ خوبصورت ہو اور ہاں ـ مجھے آنٹی نہیں Jolanta کہنا ـ جی چاہا لاگ آف ہو جاؤں کیونکہ اتنی بے عزتی مجھے گوارا نہیں کہ یوروپ کی گوری آنٹی جنوبی ہند کے بدمعاش کو خوبصورت کہہ رہی ہے ـ ویسے آنٹی جی مطلقہ ہیں ـ آجکل ژوسیا کی ممّی بھی مجھے sms کرنے لگی ہے، پہلا جملہ یہی ہوتا ہے ’’hello my young friend‘‘ ـ دوسرے دن ژوسیا سے کہا اپنی ممّی کو سنبھال، وہ مجھ پر فدا ہونے کو ہے ـ مگر ژوسیا نے بھی زبردست مذاق اڑایا، کہنے لگی ـ ہاں ـ ممّی تمہیں بہت پسند کرتی ہے اور تمہاری تصویروں کو بڑے غور سے دیکھتی ہے اور یہ مذاق نہیں ـ میں نے کہا کیا مذاق نہیں، تصویروں میں جیسا ہوں ویسا ہوں نہیں وہ تو Adobe Photoshop کا کمال ہے ـ ژوسیا کہہ چکی ہے کہ اسکی ماں اس کی سہیلی جیسی ہے اور بیٹی سے زیادہ جوان بننے کی کوشش میں رہتی ہے ـ ژوسیا جاتے جاتے مجھ پر بجلی گراکر چلی گئی ’’ممّی سے اچھی دوستی ہوگئی اکثر تمہارے بارے میں پوچھتی رہتی ہے، ڈرتی ہوں کہ تم میرے باپ بننے ـ ـ ـ‘‘
Anonymous Anonymous said...

ویسے جناب اگر آپ اس کی امی سے دوستی کر لیں تو بہت اچھا ہے ۔ جوڑی خوب سجے گی ۔

May 27, 2005 9:38 AM  
Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

میاں۔ ہوشیار رہیں۔ مرد اور عورت دونوں کی عمر کے سنتالیس سے ستاون سال بڑے لا ابالی ہوتے ہیں۔

آپ کی تفریح طبع کے لئے۔
آجکل نہ صرف تعلیمی امتحانوں کا مہینہ ہے بلکہ عملی زندگی بھی ایک بوجھ بنتی جا رہی ہے۔ دل ہلکا کرنے کے لئے اخبار کھولیں تو خبریں پڑھ کر دل بوجھل اور دماغ پریشان ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اشد ضرورت ہے طبعیت کو خوشگوار کرنے کی۔ تو لیجئے حاضر ہے ایک مختصر نسخہ۔ کلک کیجئے اوپر میرے بلاگ پر اور پڑھئے
Disorder in the Court (will make you at least smile)

May 27, 2005 12:32 PM  
Blogger Shoiab Safdar Ghumman said...

hahaha! bhi yeh kia ho raha hai app kay sath?? wesy app kis may dilshape latay hai maa mai ya??

May 28, 2005 8:28 PM  
Blogger Nauman said...

You are good when you write at random. I would like to see more of that rather than this adolescent fantasy which appears corny.

May 29, 2005 8:18 PM  

Post a Comment

Sunday, May 22, 2005

میرا چائنیز

الوحدہ اسٹریٹ پر واقع پیٹزاہٹ کے بالکل پیچھے میرا پسندیدہ چائنیز ریسٹورنٹ ’’چائنا ٹاؤن‘‘ میں جمعرات کی صبح چھ بجے گیس سلینڈر زوردار آواز کیساتھ پھٹ پڑا یہاں تک کہ پیچھے کیجانب موجود Pizza Hut کی شیشے کی دیواریں چکناچور ہوگیں ساتھ ہی آس پاس کئی اور دکانوں کو نقصان پہنچا ـ اخباری اطلاعوں کے مطابق جملہ آٹھ افراد گھائل اور ایک کی حالت نازک ہے ـ
اسی ریسٹورنٹ میں رات کا کھانا کھایا تھا اور صبح سلنڈر پھٹ پڑا ـ خوبصورت، پاک صاف ریسٹورنٹ اسوقت کھنڈر بن گیا ہے ـ مجھے مزیدار کھانے پسند ہیں اور یہ چائنیز ہمارے فلیٹ سے بالکل قریب ہے اور ہفتے میں چار دن اسی ریسٹورنٹ میں رات کا کھانا کھاتا ہوں ـ ویسے شہر میں بہت سارے چائنیز ریسٹورنٹ موجود ہیں مگر یہ میرا فیوریٹ ریسٹورنٹ تھا ـ

Post a Comment

ایک شام

سمندر کنارے، کھجور کی جھاڑیوں کے نیچے ہم دوستوں نے دھواں دار سیخ کباب اور چکن تندوری بنایا ـ جمعرات کی رات کورنیش پر ہمیشہ کی طرح سینکڑوں فیملیاں ہفتہ وار چھٹی منا رہے تھے اور ہم جملہ ١٢ بیچلرس چولہا سلگاتے ہوئے آنکھوں میں آنسو آگئے جبکہ آس پاس چھٹی منانے آئی ہوئی فیملیاں کھا پی کر گپ شپ میں مشغول ہوگئں ـ
ہم جملہ ١٢ دوست، سب کا تعلق بنگلور ہی سے ہے، ہم سب یہاں ایک ہی کمپنی میں کام کرتے ہیں ـ اسلئے آپس میں شور شرابہ گالی گلوچ کیساتھ بات چیت اور ہنسی مذاق عروج پر تھا تاکہ روایت کو زندہ رکھ سکیں ـ ہمارے میں چند شریر لڑکے خوبصورت لڑکیوں کو دیکھ کر آس پاس بیٹھی ہوئی فیملیوں میں گھس گئے اور انکے چولہے سلگانے میں مدد کرنے لگے جبکہ دو گھنٹوں کی مشقت اور ہم جملہ ١٢ لڑکوں کی لگاتار محنت کے بعد بالآخر ہمارا چولہا بھی سلگ اٹھا، سب دوست خوب سیر ہوگئے اور رات تین بجے تک چھیڑ چھاڑ، ہنسی مذاق، کمپنی کے مالکان اور ہمارے منیجروں کی نقلیں اتار کر لوٹ پوٹ ہوگئے ـ رات چار بجے گالیوں کیساتھ ایکدوسرے کو الوداع کہا ـ سب اپنے اپنے راستے ٹیکسیوں میں بیٹھ کر چلے گئے، میں اور میرا روم میٹ پیدل چلتے ہوئے اپنی منزل کیطرف کیونکہ ہمارا فلیٹ سمندر سے کچھ ہی فاصلے پر ہے ـ

posted by Shuaib at 9:39 PM 0 comments

Post a Comment

ظالم دوڑ

ابھی ہمارے ایک ساتھی ہم چند موٹے دوستوں کو دبلا کرنے کی قسم کھاچکے ہیں، روزانہ شام کو زبردستی تیز رفتاری کیساتھ بھگاتے ہیں اور تھنڈی سانس لینے کا موقع بھی نہیں دیتے ـ سمجھ میں نہیں آتا انہیں یہ آئیڈیا وِنٹر میں کیوں نہیں آیا کیونکہ اب سمر شروع ہوچکا ہے اور ساری دنیا جانتی ہے دبئی کی گرمی کیا بلا ہے ـ دوڑ کے بعد پسینے میں بھیگے ہوئے ہم مسافروں کو پانی تک پینے نہیں دیتے اور کہتے ہیں دوڑ لگاتے ہی پانی پینا اچھی بات نہیں جاؤ پہلے نہالو پھر پانی پی لینا ـ شروع کے دو دن میں خود جوش میں تھا مگر اب دوڑتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اپنے آپ پر ظلم کر رہا ہوں ـ کیونکہ بیچارے کو دوڑنے کی عادت نہیں ـ

posted by Shuaib at 9:37 PM 0 comments

Post a Comment

Thursday, May 19, 2005

ABOUT ME

دن ہفتے مہینے سال گذر گئے اب پورے چوبیس سال کا ہوچکا ہوں، اسی سال 13ستمبر 2005ء کو میری سلور جوبلی بھی مکمل ہوجائے گی ـ پچھلے بارہ سالوں سے مختلف عہدوں پر فرائض دے چکا ہوں، زندگی میں پہلی بار روزگار کیلئے بیرون ملک بھی آگیا ـ فی الحال ایک ایسے ملک میں سکون کی زندگی کاٹ رہا ہوں جہاں دنیا بھر کی ہر نسل ہر قوم کے لوگ آباد ہیں، اب سینہ تان کر کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اپنی زندگی کا چوبیس سالہ تجربہ ہے ـ ٩٦ء سے سولہ برس کی عمر میں انٹرنیٹ کا استعمال شروع کیا اور ساتھ ہی ڈیسک ٹاپ پبلیشنگ میں ڈپلومہ بھی مکمل کرلیا ـ اسی سال اپنا میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد روزنامہ اخبار میں نائٹ شفٹ صفحہ اول کیلئے کمپیوٹر کمپوزنگ کا عہدہ حاصل کیا اور ٢٠٠٢ء کو اس عہدے سے استعفی دیدیا (یہ الگ کہانی ہے کہ اتنی کم عمری میں اخبار میں پہلے صفحے پر نوکری مل گئی) اخبار میں کام چھوڑتے وقت میری عمر ٢٢ سال کی تھی یعنی اپنی زندگی کے تقریبا چھ سال میڈیا اور اخبارات کی نظر ہوگئے ـ ٩٧ء سے ٩٩ء تک میرا تعلیمی دور تھا مگر اسکے ساتھ اخبار میں نوکری بھی جاری رہی ـ ٩٩ء میں بنگلور یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کرنے کے ساتھ ’ارینا ملٹی میڈیا‘ سے ملٹی میڈیا پروگرامنگ میں دو سالہ ڈپلومہ بھی مکمل کرلیا ـ اب مزید روزگار کی تلاش میں بار بار ممبئی کا رخ کرنے لگا، جگہ جگہ انٹرویو دینے کے باوجود ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، ایک دفعہ ناکامی کی صورت میں ممبئی سے واپسی پر دل برداشتہ ہوکر گوا پہنچ گیا اور زندگی میں پہلی بار اپنی مردانگی کا ثبوت پیش کرکے بہت اچھا لگا ـ واپس بنگلور آگیا اور اخبار میں نوکری جاری رہی ـ دوستوں کے کہنے پر ویب پیج گرافک ڈیزائننگ میں بھی ڈپلومہ کی سند حاصل کیا ـ ٢٠٠٢ء کا نصف حصہ بہت ہی سکون سے گذرا یعنی بیکار ہوچکا تھا ـ اسی عرصے میں دوبارہ ممبئی کا رخ کیا اور واپسی پر گوا میں ایک اور مرتبہ اپنی مردانگی کا ثبوت دیا ـ بنگلور واپس آنے پر ایک ملباری سے ملاقات ہوئی جس نے مجھے خلیجی ممالک میں کام دلانے کا جھانسہ دیا اور مجھے دھوکہ ہونے والا تھا، ملباری سے بال بال بچا ـ چند دنوں بعد اخبار میں ایک ایجنٹ کی طرف سے دبئی میں نوکری دلانے کا اشتہار دیکھا، دبئی میں گرافک ڈیزائنر کی ضرورت تھی یعنی نوکری میرے ہی لائق کی تھی ـ ایجنٹ کے دفتر جاکر نوکری کیلئے عرضی دیا ـ چند دنوں بعد اس ایجنٹ کے دفتر میں دبئی سے ایک عربی آیا، مجھ سے انٹرویو لینے کے بعد پوچھا تنخواہ کتنی چاہئیے؟ میں نے جواب دیا مجھے کام چاہئے ـ میرا جواب سنکر عربی خوش ہوا اور دبئی بلاکر اپنی کمپنی میں نوکری پر رکھ لیا جسے آج تک بھگت رہا ہوں، مگر ایجنٹ نے مجھ سے اپنا کمیشن بھی لے لیا ـ ٢٥ دسمبر ٢٠٠٢ء کو دبئی کی سرزمین پر اترا اور اب ٢٥ دسمبر ٢٠٠٤ء یعنی دو سال کا عرصہ ہوگیا ہے اپنے وطن سے نکلے ہوئے ـ ـ ـ میری چوبیس سالہ زندگی کا حصہ ختم ہوا ـ ـ ـ مزید سوانح حیات (; وقت کے ساتھ ساتھ پوسٹ کرتا رہا ہوں گا ـ

posted by Shuaib at 10:09 AM 0 comments

Post a Comment

Saturday, May 14, 2005

موصوف مصروف

موصوف مصروف

posted by Shuaib at 11:33 PM 0 comments

Post a Comment

Monday, May 09, 2005

بنگلور

گارڈن سٹی کہلانے والا شہر جو تقریبا انفارمیشن ٹیکلنالوجی کا جنگل بن چکا ہے ـ ایک وقت تھا جب سڑکوں کے دونوں جانب بڑے بڑے درخت تھے، اس شہر کا نام ہی رکھ دیا تھا ’’باغوں کا شہر‘‘ ـ اب یہ شہر گارڈن سٹی کہلانے کے قابل نہیں، ہاں اگر ٹیکنالوجی شہر کہہ دیں تو تعجب کی بات نہیں ـ بنگلور، انفارمیشن ٹیکنالوجی کیلئے ہندوستان کا دارالخلافہ کہلاتا ہے ـ گذشتہ سال ہندوستان نے اپنا ایجوکیشن سیٹیلائٹ بھی خلاء میں لانچ کردیا جس کا کنٹرول بنگلور میں قائم ہے ـ گذشتہ سال ہی ایک لڑکے نے ننھا طیارہ بناکر سب کو چونکا دیا جس کے طرز پر شہر میں چھوٹے کمرشیل طیارے بنائے جارہے ہیں ـ چار سال قبل چند انجینئر اسٹوڈنٹس نے سورج کی شعاؤں سے چلنے والی کار کو ایجاد کیا تھا، آج بھی انکی بنائی ہوئی کاریں شہر میں دوڑ رہی ہیں ـ ایک سائنس کے طالبعلم نے خاص جھاڑیوں سے پیٹرول ایجاد کرکے شہر کے مارکیٹ میں ہنگامہ برپا کردیا ہے ـ ٹیلیویژن اور انٹرنیٹ پر باقاعدہ بنگلور کے بدلتے تیوروں پر نظر رکھا ہوا ہوں، شہر کی گلیوں میں ٹیکنالوجی کا سیلاب ہے، تقریبا ہر طالبعلم کی ذاتی ویب سائٹ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے ـ لوگوں کے نظریات بدل چکے ہیں ـ ایک وہ دور بھی تھا، جب تعلیم حاصل کرلینے کے بعد امریکہ، آسٹریلیا وغیرہ جانا پسند کرتے تھے اب یہاں شہریوں کے خیالات بدل چکے ہیں، واقع شہر کے حالات یکسر بدل گئے ہیں ـ کوئی مجھ سے پوچھے ہندوستان میں امن و امان والا اور خوشحال شہر کونسا ہے ـ تو جواب ہوگا میرا اپنا شہر بنگلور ـ
Bangalore city Police Hotels in Bangalore Bangalore IT, A Brief of Bangalore, All About the Bangalore city, This is Bangalore, Some pictures of Banglalore city,

posted by Shuaib at 9:54 PM 2 comments

Blogger Asma said...

Assalamo alaykum w..w!

No doubt, bangalore is world famous for it's techno-productivity and excellence ... this news that a student has found a way to extract oil from bush is marvellous!! new as well :)

Good!

May 15, 2005 1:57 AM  
Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

سکول میرا ایک ہم جماعت بنگلور کا رہنے والا تھا۔ وہ بنگلور کے باغوں کی بہت تعریف کیا کرتا تھا ۔ جب بنگلور سے ہجرت کر کے ان کا خاندان پاکستان آیا تو وہ دس سال کا تھا ۔ ہم دونوں نے اردو میڈیم سکول سے میٹرک کیا ۔

مندرجہ ذیل یو آر ایل پر اردو میڈیم
کے ایک طالب علم نے کچھ انکشاف کیا ہے ۔ ذرا دیکھئے تو یہ اردو میڈیم طالب علم کیا کہتا ہے ۔
http://hypocrisythyname.blogspot.com/2005/06/urdu-medium-school.html

June 18, 2005 11:12 AM  

Post a Comment

Saturday, May 07, 2005

ماں کے نام

عبادتوں میں، سجدوں میں، رسموں اور تیوہاروں میں پتہ نہیں لوگ کس سے کیا مانگتے ہیں ـ اگر عبادت کرنا اتنا ہی ضروری ہے تو کیوں نہ اپنی ماں کی عبادت کروں جو میری خوشیوں کیلئے اپنے آپ کو قربان کرسکتی ہے، میری پریشانیوں کو اپنے سر پر اٹھاتی ہے، میرے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتی ہے، میرے درد کو دیکھ کر بلبلا اٹھتی ہے، مجھے بھوکا پیاسا دیکھ کر بیقرار ہوجاتی ہے، میرے آرام کیلئے اپنی نیند حرام کرلیتی ہے، میری بیماری میں ساتھ رہتی ہے، اگر تکلیف میں ہوں تو میری مدد کو پہنچ جاتی ہے ـ دنیا کی ہر ماں ایسی ہی ہوتی ہے جو اپنی اولاد کی خوشیوں کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرسکتی ہے ـ کیونکر خواہ مخواہ ایسے رب کی عبادت کروں جس کے وجود کو میں جانتا تک نہیں ـ کون ہے اس دنیا میں جو میرے دل کی بات سمجھ سکے؟ اگر کوئی ہے تو وہ صرف ماں ہے ـ

posted by Shuaib at 10:02 PM 1 comments

Anonymous Anonymous said...

Thank you Dear Safaddar

May 10, 2005 10:53 PM  

Post a Comment

’عرب اتحاد‘

اس شہر میں رہتے ہوئے عرب اتحاد کے بارے میں تھوڑی بہت جانکاری ہوجاتی ہے ـ عرب ممالک کا کلچر، لباس اور ایک زبان دنیا کیلئے ایک مثال ہے ـ اچھا تو، یہ پوسٹ تحریر کرنے کا مقصد تھا ’عرب اتحاد‘ انکے اتحاد کی عام مثال یہی ہے کہ عرب ممالک کا کلچر اور زبان ایک ہے جبکہ امریکی اتحاد میں قسمہا قسم کے ممالک، کلچرس، زبانیں، مختلف ذہنیت کے لوگ شامل ہیں پھر بھی امریکی اتحاد آج دنیا کا سب سے طاقتور اتحاد ہے، اس اتحاد کی جی حضوری میں کئی ممالک پیش پیش ہیں! اووہ ہو ! امریکی اتحاد کے گن گانے لگا، یہ پوسٹ تو ’عرب اتحاد‘ کے لئے خاص ہے جب اتحاد کا لفظ زبان پر آیا تو دماغ پر دوسرے اتحاد گشت کرنا شروع ہوگئے ـ عربی مرد ایک دوسرے سے گلے شکوے نہیں کرتے جب بھی آپس میں ملیں تو ایکدوسرے کی ناک سے ناک ملاکر رگڑتے ہیں سمجھ میں نہیں آتا یہ کونسی رسم ہے ـ اور عربی عورتیں آپس میں گال سے گال چپکا دیتی ہیں جیسے ایکدوسرے کے کان میں کچھ کہہ رہی ہوں، بری بات ہرگز نہیں کیونکہ یہ تو یہاں کا کلچر ہے ـ صرف جنوب ایشیائی ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے ممالک میں بھی لوگ گلے ملکر ایکدوسرے کی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں جیسے ایکدوسرے کا پرتپاک خیرمقدم کر رہے ہوں ـ اففف ! پھر پہیہ پٹری سے اتر گیا، یہ پوسٹ تو ’عرب ـ ـ ـ ‘ خیر، عرب اتحاد کے بارے میں مجھے زیادہ بکواس تحریر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ساری دنیا اپنے کانوں سے سن اور آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ ’عرب اتحاد‘ کیا چیز ہے؟ اتحاد عربی لفظ ہے مگر لگتا ہے عرب لوگ اتحاد کا مطلب نہ تو جانتے ہیں اور نہ سمجھنا چاہیں گے پھر بھی یہاں روزانہ کی گفگتو میں لفظ ’اتحاد‘ کئی بار آتا ہے ـ

posted by Shuaib at 9:58 PM 0 comments

Post a Comment

ہندوستان سے پہلا اُردو بلاگ
First Urdu Blog from India

IndiBlogger - The Largest Indian Blogger Community

حالیہ تحریریں

سویتا بھابی کا وال اچھا
تو میرا خدا میں تیرا خدا
دھونڈو تو خدا بھی مل جائے
مصروفیت
معلوماتِ خداوندی
2 اکتوبر، گاندھی جینتی کے موقع پر خاص پوسٹ
رام کہانی ـ رحیم کی زبانی
میرے چاند کے تکڑے
اس بلاگ پر اگلی پوسٹ

Hindi Blog

Urdu Graphic Blog

Motion Blog

Powered by ShoutJax

Counters