Saturday, February 04, 2006

اِن سے ملو ـ 10

یہ خدا ہے کارٹون فلمیں خدا کو خوب لگیں اور خواہش ظاہر کی اُس پر بھی ایک آدھ کارٹون فلم بنے ـ امریکہ نے خدا کی خواہش کا احترام کیا بھلے اُسکے کردار کو بچے پسند کریں گے یا نہیں مگر خدا نے ضد پکڑی کہ وہ کارٹون کی شکل میں لوگوں کو تفریح پہنچائے گا اور ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ہر کسی میں ایک کارٹون چھپا ہوا ہے بھلے اُسے کارٹون پسند نہ ہو ـ خدا نے اپنے خیالات پر روشنی ڈالنی شروع کردی: انسان کا کردار خود ایک کارٹون بن گیا ہے، مانا کہ کارٹونس انسان کی تخلیق ہیں جو کہ خود انسان کی شخصیت کا ایک کرشماتی آئینہ ہے جس میں انسان کی اچھائیاں اور برائیاں صاف ظاہر ہوتی ہیں ـ کارٹونس بچوں کو ہنسانے کے ساتھ بڑوں کو اپنے آپ میں کئی سوالات پر غور کرنے کیلئے مجبور کرتے ہیں اسکے باوجود کارٹونس کو صرف ایک تفریح کا رتبہ دیدیا ـ چین اور جاپان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ہمارے ہمشکل بناسکتے ہیں مگر ہماری قدرتی کیفیت کو دکھانے کیلئے کمپیوٹر کا سہارا لینا پڑتا ہے ـ خدا نے درد بھری آواز میں کہا: واقع آپ حضرتِ انسان نے اتنی ترقی کرلی کہ اب ایک نئے خدا کو بھی تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں پھر دونوں خداؤں میں جنگ بھی کروا سکتے ہیں، آپ انسانوں کا کوئی بھروسہ نہیں ـ ہم نے آپ جاہل لوگوں کو خالص انسان بنایا اور سوچنے سمجھنے کی قوت عطا کی اور آپ انسان اتنے باشعور ہوگئے کہ گروپوں کی شکل میں اپنے علیحدہ مذہب بنالئے، ایکدوسرے کیلئے خون کے پیاسے اور پھر مصیبت کے وقت ہمارا ’خدا‘ نام لیا جاتا ہے؟ پہلے تو آپ انسان زبانی غیبت میں مصروف تھے پھر کارٹون سازی میں مہارت حاصل کرکے اسے اور آسان بنا دیا ـ خدا نے اپنی بات جاری رکھی: اگر آج بھی آپ انسانوں کا عقیدہ آنکھ کے بدلے آنکھ پر ہے تو غیبت، مذمّت و ملامت کے بجائے ایک منفرد ’’کارٹون جنگ‘‘ کی شروعات کریں تاکہ ایکدوسرے کی برائیاں ظاہر ہوں ـ امید ہے ایسا کرنے سے مختلف قوموں کے لوگ اپنی برائیاں چھپانے کیلئے ایکدوسرے کی عزت کرنا سیکھ جائیں ـ ـ جاری باقی پھر کبھی
Anonymous Anonymous said...

گزشتہ سے پیوستہ

لیکن اسی وقت خدا کی بارگاہ میں ایک بہت عام سا انسان داخل ہوا، لباس نہایت معمولی اور چہرے پر تھکن جیسے ساری عمر مشقت میں ہی گزری ہو۔ وہ سب کے لیے اجنبی تھا۔ بش نے مشرف سے کہا ’’یہ پاکستانی معلوم ہوتا ہے تم اسے جانتے ہو‘‘۔ مشرف نے کہا ’’نہیں میں نہیں جانتا، نہ تو یہ مجلس عمل والوں کے مظاہروں میں کبھی نظر آیا ہے اور نہ اس کا تعلق مشرف حمایت تحریک کے حامیوں سے ہے، ہوسکتا ہے یہ ہندوستانی ہو‘‘۔ بش نے بھارتی وزیراعظم سے استفسار کیا لیکن من موہن کا بھی کہنا تھا کہ اس آدمی پران کی نظر نہیں پڑھی۔ ’’ شاید اس کا دنیا داری سے تعلق نہیں،‘‘ من موہن کا خیال تھا۔
بش نے کہا، ’’کیا تم اسلامسٹس ہو، یا ہندو راہب یا پھر۔۔۔۔ نہیں عیسائی تو تم نہیں لگتے‘‘

اجنبی نے کہا ’’ میں بس ایک عام انسان اور مسلمان ہوں جسے حقوق العباد کی ادائیگی سے فرصت نہیں ملتی اسی لیے کبھی منظر عام پر نہیں آ پاتا لیکن آج خدا نے جو ’’کارٹون جنگ‘‘ کا حکم دیا تو آنا پڑا‘‘
’’کیوں تمہیں اس پر کیا اعتراض ہے؟‘‘ بش نے خشمگی سے پوچھا۔
بارگاہ خدا میں آنے والا بش کو نظر انداز کرتے ہوئے براہ راست خدا سے مخاطب ہوا ’’ آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر لیکن ان پچھلے احکامات کا کیا کیا جائے جس میں آپ نے کہا کہ ’دوسروں کے مذاہب کو برا نہ کہو تاکہ کوئی تمہارے مذہب کا برا نہ کہے‘؟ ‘‘

خدا کو ابھی جواب دینا تھا۔۔۔۔ جاری ہے

February 07, 2006 9:54 PM  
Blogger Shuaib said...

یہ سلسلہ وار تحریریں دل لگاکر پڑھنے کے لئے آپ کا شکریہ ۔

February 09, 2006 10:52 PM  
Anonymous Anonymous said...

میں دل لگا کر نہیں چشمہ لگا کر پڑھتا ہوں۔ آپ نے اس تحریر کو آگے نہیں بڑھا اور کے ایف سی پر پہنچ گئے۔ خیر ہندی بلاگ اچھا ہے لیکن میں ہجے کرتے کرتے تھک جاتا ہوں اس لیے وہاں تبصرہ نہیں کر پایا

February 14, 2006 7:39 PM  
Blogger Shuaib said...

شکریہ جناب ۔ آپ کے تبصرے کو آگے بڑھانے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ مجھے بہت خوشی ہوگی جب آپ بھی اس انداز کو اپنے بلاگ پر آزمائیں ۔ ہندی بلاگ ابھی شروعات میں ہے، میں خود انٹرنیٹ سے ہندی سیکھ رہا ہوں ۔

February 14, 2006 9:49 PM  

Post a Comment