مبارک ہو جناب
گھر سے نکلتے وقت امّی نے بڑے پیار سے سمجھایا: کچھ کھانا پکانا سیکھ لے تو اچھا ہے، وہاں جاکر خاک ہوٹلوں کا کھائے گا؟ ہم نے دو ٹوک جواب دیا: وہاں جاکر دیکھا جائے گا ـ آخری بار امّی نے کہا: ارے انڈا فرائی تو سیکھتے جا ـ ہمارا جواب تھا: بس امّی، ابھی کچھ سیکھنے کا ٹائم نہیں، کل رات کی فلائٹ سے روانہ ہونا ہے ـ یہاں آئے چار سال ہونے کو ہیں، ایک مرتبہ اپنے ساتھی کو پیاز اور ٹماٹر کاٹنے میں ہیلپ کیا تو بدلے میں بریانی کھانے کو ملی ـ اور کئی مرتبہ خود سے چائے بھی بناکر پی لیا ـ سالوں سے ہوٹلوں کا کھاتے ہوئے موٹاپا ایسا کہ عدنان سمیع ہمیں دیکھ کر خود کو دبلا سمجھے ـ ویسے تو ہمیشہ ہوٹلوں کا کھاتے رہنا صحت کیلئے مضر ہے ہی ـ گھر کے لذیذ پکوانوں میں عیب نکالنا اور مستی کرنا، کھانا جتنا بھی مزیدار ہو مگر امّی کو سُننا ہی پڑتا ہے: آج ایسا کیوں بنایا؟ میں نہیں کھاؤنگا ـ اور اب تو گھر کے کھانوں میں عیب نکالنے کی سزا بھی بھگتی جا رہی ہے ـ کاش اگر امّی سے انڈا فرائی کرنا سیکھ لیتا، خیر ـ آج زندگی میں پہلی بار تین انڈے خراب کرنے کے بعد بالآخر چوتھا انڈا فرائی کرنے میں جنابِ والا کامیاب رہے ـ
ہمیں یاد ہے کبھی کبھی ماں جب کھانا کم پڑ جاتا تھا تو ہانڈی میں پانی ملا کر اسے پتلا کرلیا کرتی تھی اور ہم اس دن کھانا کھاۓ بغیر سکول چلے جایا کرتے تھے اور ماں ہمیشہ یہ پوچھتی رہتی تھی کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں نے ہانڈی میں پانی ملایا تھا۔