Saturday, May 07, 2011

چودھویں برسی ( 6 دسمبر 2006 )

اخباری نمائندوں نے خدا کو مجبور کیا کہ 6 دسمبر پر اپنے خیالات کا اظہار فرمائے اور بھارتیوں کو بتائے کہ آگے کا لائحہ عمل کیسا ہو ـ سَر کھُجانے کے بعد خدا نے اپنی اُنگلیوں پر حساب کرکے اخبار نویسوں سے فرمایا: واللہ ہم نہیں جانتے کہ چھ دسمبر کو ہماری ماں مری تھی یا باپ، البتہ اتنا ضرور یاد ہیکہ پچھلے سال 6 دسمبر کو ہمیں جُلاب لگے تھے جب زندگی میں پہلی بار KFC کا ناشتہ نوش فرمایا تھا اور وہ بھی امریکہ کے اُکسانے پر ـ ایک بزرگ اخبار نویس نے خدا کے کان مروڑ کر پوچھا: اووہ، آپ خدا ہو کہ پیجامہ، آپ کو 6 دسمبر نہیں معلوم؟ چھ دسمبر 1992 بولے تو آج سے چودہ سال پہلے اسی دن پورے بھارت میں آگ لگ گئی تھی، ہندو اور مسلمان ایکدوسرے کا خون چوسنے کھڑے ہوگئے تھے تب خدا کیا جھَک مارنے گیا تھا؟ بزرگ کی کڑک ڈانٹ سنکر اور اپنا کان سہلاتے خدا نے کہا: ایسی بات تھی تو پہلے کیوں نہیں بتایا، ہم تو ایک بھلے خدا ہیں، ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ باتھ روم میں فلش کیا کہ نہیں ـ خدا نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھے فرمایا: یہ تو برسوں سے روایت چلی آ رہی ہیکہ ہندو مسلمان ایکدوسرے کے جانی دشمن ہیں، اور یہ بات ساری دنیا جانتی ہی ہے تو پھر آج کا دن 6 دسمبر کو کیا خاص بات ہے؟ دور سے ایک پتھر خدا کے سَر پر آن پڑا، اِسی کیساتھ نعرے بازی شروع ہوگئی: مردہ باد مردہ باد خدا مردہ باد ـ ـ ـ ـ یہ 6 دسمبر کا جلوس تھا جو پچھلے چودہ سالوں سے بھارت کی مختلف گلیوں سے نکلتا ہے ـ خدا کو چھُپنے کی جگہ نہ ملی تو وہ بھی بھیس بدلکر کر جلوس میں شامل ہوگیا: مردہ باد مردہ باد خدا مردہ باد ـ مورچے میں نعرے بازی کرنیوالے ایک شخص سے خدا نے پوچھا: بھئی، یہ کِس کام کا جلوس ہے اور کہاں جا رہا ہے؟ اُس نے بے خیالی میں خدا کو بتایا: پتہ نہیں یار، محلّے کے ملاؤں نے خطبہ پڑھا "قوم کے سبھی افراد پر فرض ہیکہ اپنا کاروبار اور کام دھام چھوڑ جلوس میں جانا ہے کیونکہ آج سے چودہ سال پہلے ایک دوسری قوم کے لوگوں نے بابر کی تاریخی عمارت کو ڈھایا تھا" ـ خدا نے پوچھا: کیا آپ لوگ اُس عمارت کو دوبارہ بنانے کیلئے جا رہے ہو؟ اُس شخص نے غصّے میں کہا: آپ کے سَر میں بھیجہ ہیکہ گوبر؟ میں بھلا غریب آدمی آج تک اپنا گھر نہ بنایا تو ـ ـ ـ بات کاٹ خدا نے پوچھا: پھر یہ مورچہ کہاں لے جا رہے ہو؟ اپنے دانت پیستے ہوئے اُس نے خدا سے کہا: تیرے کو دکھائی نہیں دیتا کیا، وہاں سامنے اور اُدھر پیچھے مُلا صاحبان ہمیں زبردستی لے جا رہے ہیں، زبردستی آج ہمیں مزدوری کرنے سے روک لیا اور اب زبردستی دھوپ میں چلائے جا رہے ہیں نہ چائے نہ پانی، پتہ نہیں کہ ہمیں اور کتنا چلنا ہے نعرے بازی کرتے حلق سوکھا جا رہا ہے ـ خدا نے ہمدردی جتاتے پوچھا: نعروں میں خدا کو مردہ کیوں پکار رہے ہو، کیا تمہیں خدا پر اعتماد نہیں؟ جواب ملا: اگر خدا میرے سامنے آ جائے تو اُسکے دانت نہ توڑ دوں ـ ـ ـ خدا نے جھٹ سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے کہا: توبہ توبہ خدا کے دانت توڑو گے؟ اُس نے تمہارا کیا بگاڑا؟ اُس شخص نے جواب دیا: کیا نہیں بگاڑا، غریبی کیا کم تھی کہ مسلمان بنا دیا ـ پچھلے چودہ سالوں سے ہر چھ دسمبر کے دن اپنا کاروبار / مزدوری چھوڑ جلوس میں شامل ہونا فرض کر دیا چاہے بیوی اور بچّے بھوکے مَریں ـ اِسکے دکھ بھرے جواب سے خدا کو رونا آیا، جلوس کو روک کر سب کو اپنا حُلیہ بتایا: شکر ہیکہ ہم مسلمان نہیں بلکہ خدا ہیں، کاہے غریبوں کو جلوس میں ہانک رہے ہو، ملاؤں کے پاس کرنے کو کچھ نہیں اور اپنی شعلہ بیانی سے غریبوں کو ورغلاتے ہو ـ غریب کا خدا اُسکی دو وقت کی روٹی ہے، اور ملا لوگ ہیں کہ خدا کا نام لیکر غریبوں کا ایمان خراب کرتے ہو ـ یہ دنیا کسی خاص قوم کی جاگیر نہیں، پچھلے زمانوں میں بھی تم لوگوں کو خاک چٹایا تھا اور آج تک بھی تمہیں ذلیل اور رُسوا رکھا صرف تمہاری اندھی تقلید کی وجہ سے ـ اپنا ایمان خراب کر ہی لیا پھر غریبوں کا دماغ کیوں چاٹتے رہتے ہو ـ واللہ ہم باقاعدہ خدا ہیں اور دنیا ہماری جاگیر ہے ـ یہ مندر اور مسجد بنواکر جسے تم لوگ خدا گھر کہتے ہو، لعنت ہے تم انسانوں پر اگر چاہیں تو ہم تمہیں بے گھر کردیں ـ ہم انسانوں کے محتاج نہیں کہ تم خدا کیلئے گھر بناؤ ـ دیکھو اُن لوگوں کو جو بھوکے اور بے گھر ہیں، اپنے پڑوسی کے گھر لائٹ نہیں اور تم ہو کہ مندر اور مسجد کو روشنی سے جگمگانے چل پڑے ـ ہم تھوکتے ہیں تم انسانوں کی گندی سوچ اور اندھی تقلید پر جو بے گھر خدا کیلئے مندر اور مسجد بنوا لیا ـ کبھی تو اپنے ہمسائے کے کام آ جاؤ ـ ہم نے تم انسانوں کو ایک دوسرے کیلئے بنایا ہے، اپنا دکھ سُکھ آپس میں بانٹ لو کیونکہ یہی عبادت اور یہی سچّی خوشی ہے ـ تم انسانوں کو خدا کا واسطہ توڑ دو یہ مندر اور مسجد، خدا کو خدا کی قسم ہم خدا ہیں نہ کہ تمہارے گھر داماد ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

یہ خدا ہے ـ 47

Post a Comment