Wednesday, May 11, 2011

خدا پھسل گئے

خدا پھسل گئے

نہانے کے بعد صاف ستھرے کپڑے پہن جونہی اپنے آشیانے سے باہر نکلے ـ ـ ـ فرشتے بھی عجیب ہیں، اب انکی جگہ انسانوں کو متعین کرنا پڑے گا ـ رات بھر بارش، گھٹنوں تک پانی ـ صبح اُٹھے تو پھر بھی بوندا باندی! تیار ہوکر باہر نکلے ہی تھے اپنے ہی آشیانے پر پھسل پڑے ـ شکر ہے کسی نے دیکھا نہیں ورنہ یہی وقت ہے گیٹ کے سامنے اسکولی بچّوں کا کاروان گذرتا ہے ـ کپڑے کیچڑ میں لت پت ـ بچّوں کا کیا، انکو ایسا ہی منظر پسند ہے کہ تالیاں بجاکر ہنستے ـ

نہا کر صاف ستھرے کپڑے پہننے کا یہ صلہ ملنا تھا ـ دوبارہ نہانے کے بعد دوبارہ تیار ہونا پڑا ـ لگاتار موبائل بج رہا ہے، ہر کوئی ہمیں اپنی خدائی یاد دلا رہا ہے کہ صبح کے دس بج رہے ہیں ـ حالانکہ ہمیشہ صبح نو بجتے ہی ہم خدا بن کر تیار ہوجاتے ـ آج ذرا لیٹ ہوگئے تو کیا ہم خدا نہ رہے؟ سڑک کی دونوں جانب بارش کا ٹھہرا ہوا پانی، ہر جگہ ٹرافک جام ـ ابھی یاد آیا کہ ہم خدا ہیں چاہے تو دھواں بن کر غائب بھی ہوسکتے ہیں یعنی دفتر سے چھُٹی مار سکتے ہیں ـ

صبح جو پھسلے تھے شام کو احساس ہوا کمر اور گاف میں کھٹّا میٹھا درد ہو رہا ہے ـ چار بجنے سے پہلے ہی اپنی خدائی کو خیرباد کہا ـ ہماری اُڑن طشتری کے شیشے میں دیکھا وہ بھی پکار رہا ہے کہ آج آپ کی خدائی کو کیا ہوگیا؟ بس میاں، گاف پھٹی ہے عرصہ ہوا پھسلے ہوئے ـ کسی کو بتا بھی نہیں سکتے ورنہ لوگوں کی ہنسی چھوٹ جاتی کہ آجکل خدا بھی پھسلنے لگے ـ برسات کا موسم ہے صرف دو دن پہلے اپنی اُڑن طشتری دھلوائی تھی مگر آج پھر منہ چِڑا رہی ہے ـ جاری

باقی پھر کبھی


[ یہ خدا ہے ـ 77 ]

Post a Comment