Wednesday, May 11, 2011

ضرورت سے زیادہ خدا (خدا کی واپسی)

مہینوں خاموشی کو توڑتے ہوئے اچانک خدا کو پھر سے بکواس کی سوجھی، اور ہزاروں کا مجمع جلسہ گاہ کھینچ لائے پھر اپنی جیب سے پرچی نکال سرسری نظر ڈالتے ہوئے کھنکارنے کے بعد تقریر پڑھنا شروع ہی کیا تھا ایک صحافی نے کھڑے ہوکر پوچھ لیا: اتنا لمبا عرصہ کہاں جھک مار رہے تھے؟ خدا نے جواب دیا: بھلا ہم کہاں جاکر جھک مارتے؟ البتہ ڈانس کی ریہرسل میں مصروف تھے جو ہمیں اگلے دنوں ایران میں ناچنا ہے ـ

خدا کو بتایا: جب سے آپ اِس دھرتی پہ آئے ناچتے ہی رہے اور پہلی بار نہانے کیلئے سمندر میں چھلانگ کیا ماری سونامی اُبل پڑا ـ عراق، افغان میں آپ کے ناچنے کا اثر ابھی تک باقی ہے مگر لبنان میں ناچتے ہوئے خود اپنی ہی ٹانگ تڑوا بیٹھے اب جو ٹھیک ہوئی تو آپ ایران میں ناچنے کا شوق پال رہے ہیں! کیا یہی ناچنے کیلئے ہم انسانوں کے بیچ آئے؟ جبکہ کسی بھی دھرم کے خدا کو ناچنا تو کجا ایک ٹانگ پہ کھڑے ہونا بھی معلوم نہیں ـ ـ آخر آپ کے اِس ناچنے کا مقصد کیا ہے؟؟

بات ٹالتے ہوئے خدا نے کھنکارا اور مائک پر زور سے فرمایا: تو حاضرین کرام، ہم جانتے ہیں کہ اتنا عرصہ ہمارے غائب ہونے پر کسی کو ذرا بھی تعجب نہیں، ویسے بھی آپ لوگ ہماری تقریر پر کونسا دھیان دیتے ہو صرف اونگھتے ہو اور اپنی کلائی گھڑی دیکھتے رہتے ہو کہ کب خدا کی تقریر ختم ہو ـ ویسے ناچنے کی ریہرسل سے ہم کافی تھک چکے اور آپ لوگوں کے اُونگھنے سے پہلے ہی ہم آج کی اپنی تقریر تمام کردیں گے ـ

تو عرض ہے، حال ہی ہم نے بہار میں ایک چمتکار کر دکھایا، ہر بہاری کے گھر کے سامنے سوئمنگ پول بنا دیا تاکہ امیر اور غریب میں فرق نہ رہے مگر یہ کیا؟ ہمارے اس کارنامے پر شکرانہ ادا کرنے کی بجائے سب لوگ لعنتیں بھیج رہے ہیں! میاں، ایسا پہلی بار ہوا کہ ہماری نیک نیّت پر لعنت نصیب پائی ـ جبکہ لعنت اُن کشمیریوں پر ہونی ہے جو بھارت کی دھرتی پر کھڑے ہوکر پڑوسی ملک کی شان میں قصیدے گا رہے ہیں حالانکہ یہ تعجب کی بات نہیں، جب خود اپنے ہی کاٹتے ہیں تو ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں ـ

خدا نے فرمایا: اُبھرتے شہنشاہ اُوباما کی قسم، ایران میں ناچنے کے بعد پھر پاکستان میں جم کر بھانگڑا ڈالیں گے ناچیں گے اور سب کو ساتھ لیکر نچائیں گے ایسا ہمارا ارادہ ہے ـ خیر، یہ تو ہونا ہی ہے تم انسانوں نے خود ہمیں ناچنے اور نچانے پر اُکسایاہے ـ ویسے تو ہمارا ارادہ ہے رشیاء، شام، سوڈان وغیرہ ممالک میں بھی ناچ دکھائیں ـ حاضرین میں کسی نے خدا سے کہا: کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ ناچتے رہیں اور پیچھے سے چین آپ کی مار لے!

بھارت کے حالات پر خدا نے فرمایا: شمال سے جنوب تک کہیں بھی سکون نہیں، چھوٹے بڑے سبھی شہر دہشت کی لپیٹ میں ہیں ـ جگہ جگہ بم دھماکے، لوٹ مار، جلسے جلوس، لاٹھی چارج اور فائرنگ ـ مزے کی بات ہے کہ سبھی مذاہب کے لوگ دائرہ بناکر ایک دوسرے کی مار رہے ہیں اور خود اپنی بھی مروا رہے ہیں ـ ہر ایک دوسرے کو دہشت گرد سمجھتے ہیں مگر اپنے اندر کے حیوان کو کون پہچانے! خود دہشت مچاکر دہشت گردوں کو دھونڈتے ہو؟ مذہب کی آڑ میں حیوانیت کا مظاہرہ کرتے ہو ـ

مگر عیسائیوں نے کہا: آپ کس ٹائپ کے خدا ہو؟ دیکھتے نہیں یہاں کرناٹک میں ہندوؤں نے ہمارے گرجا گھروں کو برباد کر رکھا ہے اور جب احتجاج کیا تو پولیس نے ہمارا جینا حرام کر دیا ـ اگر آپ سچ مچ خدا ہوتے تو ہماری مدد کو فورا پہنچ جاتے مگر آپ بھی دوسروں کی طرح ٹی وی پر ہمیں پولیس کے ہاتھوں پٹتے دیکھ رہے تھے ـ ہم جس خدا کی عبادت، پوجا کرتے ہیں وہ تو سولی پر لٹکے ہیں اور آپ خود کو اصلی خدا کہلوانے والے اگر سچ مچ کے خدا ہو تو ذرا اِن ہندوؤں سے ہماری بے عزّتی کا بدلہ لیکر دکھائیں ـ

خدا نے مُسکراکر کہا: میاں، تم کب سیدھے ہو، موقع ملے جب تم بھی اُنکی مار لیتے ہو ـ کل تمہارا وقت تھا آج انکی باری ہے ـ ہر کسی کو وقت ملتا ہے خود کی مروانے اور دوسروں کی مارنے ـ پرانے زمانوں سے یہی چل رہا ہے ـ یاد کرلو بوسنیا، فلسطین، گجرات اور کشمیر، نو ستمبر پھر افغانستان بعد میں ایران ـ ـ تم انسان واقع اچھے ہو مگر خیالوں سے حیوان ـ آج مسجد میں بم پھٹا تو کچھ ہی دنوں بعد مندر میں بم دھماکے اور یہ سلسلہ کبھی رُکنے والا نہیں کیونکہ تم انسان اپنے اندر کے حیوان کو سدھارنے والے نہیں ـ

خطبہ جاری رکھتے خدا نے فرمایا: ایک طرف دنیا بھر میں دہشتناک سرگرمیاں اور دوسری طرف سائنسدانوں کی عجیب و غریب حرکتیں ـ کسی کو کیا پتہ اگلے دن کا سورج دیکھنا شاید نصیب نہ ہو ـ آج بھی لوگ قیامت کے انتظار میں ہیں مگر سچ تو یہ ہے خود قیامت اس انتظار میں ہے کہ کب انسان حکم کرے ـ تم انسانوں کے پاس دنیا کو تباہ کرنے کا سبھی سامان موجود ہے حیرت انگیز میزائل، آٹم بم، دنیا کے وجود پر کھُجانا اب ستاروں سے آگے بھی جھانکنے تیاری پھر خدا کے عرش تک میزائل مار سکتے ہیں اور آخر میں شاید خدا کی بھی مار لیں!

ایک بھارتی نے خدا سے کہا: ہمارے ملک پر رحم کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ بھارت کے حالات بھی پاکستان جیسے ہوجائیں ـ خدا نے جواب دیا: میاں، ہم سے کاہے مدد مانگتے ہو، آپ کے پاس تو ایک سے ایک خدا پڑے ہیں ہر رنگ میں ہر شکل میں، کوئی سولی پر لٹکا ہے تو کوئی بھالا تھامے کھڑا ہے اور کسی کا شروع سے ہی غائب ہے ـ جب اتنے سارے خداؤں سے تمہیں مدد نہیں ملتی جن کی تم رات دن عبادات کرتے ہو ـ ہم کیوں تمہاری مدد کریں تم ہماری کونسی مانتے ہو؟ تم لوگوں کو دوسروں پر الزام لگانا بہت آسان ہے جب تمہاری خود پھٹتی ہے تو چیخیں مارتے ہو ـ

اپنے خداؤں کو خود سجاتے ہو اور خود منتیں بھی مانگتے ہو رات دن عبادات کرتے ہو اپنے خداؤں کو خوش کرنے کیلئے ایک سے ایک ڈھونگ رچاتے ہو ـ ـ اور جب مسجد ٹوٹی تو خود بدلہ لیتے ہو مندر میں دھماکے تو خود بدلہ لیتے ہو ـ حالانکہ پھر بھی خدا کو حاضر و ناظر جانتے ہو ـ اگر تم لوگ واقع اپنے خداؤں سے محبّت رکھتے تو سمجھتے کہ ہمارے خدا خود بدلہ لیں گے ـ سچ تو یہ ہے کہ تم انسان اپنے خداؤں اور مذہبوں کے خود خالق ہو اور ایکدوسرے مذاہب سے خود بدلہ لیتے ہو ـ

اپنے گال پر زوردار چماٹ مارتے ہوئے خدا نے کہا: خدا کو اپنے وجود کی قسم! جب ہم نے انسان کو بنایا تو ذرا بھی خیال نہ تھا کہ اس کی سوچ اتنی گھٹیا ہوجائے گی کہ وہ خود کو خدا سمجھ بیٹھے اور دوسروں کو خدا اور اُسکے عذاب سے ڈراتا پھرے ـ خود دوسروں کی مارلی تو کوئی بات نہیں مگر جب کوئی اپنی مارلے تو خدا کی بارگاہ میں پناہ مانگتے ہو ـ دوسروں کو ہلاک کیا تو کوئی بات نہیں مگر جب کوئی غیر مذہبی اپنی جان لے لے تو شہید کہلانے کا حق رکھتے ہو؟

چھاتی پیٹ کر خدا نے کہا: ہم اِس جہاں کے ایک اکیلے اور تنہا خدا ہیں، چاہے ہمیں رام بولو رحیم بولو، عیسی یا موسی بھی پکارلو مگر پلیز! تمہارے بنائے ہوئے مذاہب میں خدا کی ٹانگ نہ کھینچو کیونکہ خدا کا کوئی مذہب نہیں ـ اپنے سبھی ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے خدا نے حاضرین سے فرمایا: چھوڑو یہ کل کی باتیں، اپنے برزگان کے بنائے دین کو ٹھوکر مارکر سب ایک انسان بن جاؤ ـ خدا نے حاضرین سے پوچھا: کیا ایسا کرو گے؟ کسی نے جواب نہیں دیا ـ

خدا نے اُونگھنے والوں پر غصّے میں مائک پھینک مارا: کمبختو! ہم یہاں زبردست خطبہ پڑھے جا رہے ہیں اور تم ہو کہ سو رہے ہو؟ تم لوگ کبھی سدھرنے والے نہیں ـ ہم اپنا خطبہ یہیں ختم کئے دیتے ہیں ـ سب لوگ خوشی میں اٹھ کر بھاگنا شروع کر دیئے، مگر ایک بدمعاش نے خدا کو چھیڑا: اگلا خطبہ اور کتنے سالوں بعد پڑھوگے؟ غصّے میں خدا نے جواب دیا: میاں، اب تو ہر ہفتہ ایک نیا خطبہ لیکر ہم حاضر ہونگے ـ ـ جاری

 باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 65 ]

Post a Comment