Saturday, May 07, 2011

پچاسویں قسط پر خدا رونا چاہا مگر

خدا نے دُکھ بھرے انداز میں اپنا قصّہ بیان کیا: ابھی پچھلے دنوں ہمارے ساتھ بہت بُرا ہوا، راہ چلتی ایک بارات کو ہم نے جوائن کیا، میوزک کی دُھن پر زبردست ٹھمکے لگانے شروع کئے تو ایک بزرگ باراتی نے ہمارا گریبان پکڑ کر شناخت پوچھا اور ہم نے بھی کالر چڑھاکر کہا: واللہ ہم خدا ہیں ـ تبھی ایک زوردار چماٹ ہماری گردن پر مارا ـ پوری رات چھت پر بیٹھے ہم سوچتے ہی رہے کہ کیا زمانہ ہے، آج خدا خود بندے کے ہوبہو آکر کہتا ہے ہم خدا ہیں مگر انسان کو یقین ہی نہیں ـ سمجھ میں نہیں آ رہا آخر کس کی شکل میں ہم خدا بن کر ظہور فرمائیں، بھگوان گنیش کی صورت میں یا صوفی سنت، سادھو بابا کے لباس میں یا پھر ملّا بن کر سر پہ عمامہ باندھے؟؟ اے عقل کے اندھوں، تم ہی بتاؤ کہ خدا کو کس روپ میں دیکھنا چاہو گے ـ

تالیاں اور سیٹیاں ـ خدا کی اِس پچاسویں قسط پر تحفوں کے انبار لگا دیئے، دوپہر کو اِتنا دبا کر کھالیا کہ شام چھ بجے تک خراٹے بھر رہا تھا پھر جاگا تو کھینچ کر لمبی انگڑئی کیساتھ خوفناک انداز میں منہ کھولے جماہی چھوڑا ـ خدا کے جاگنے پر پوچھا: عالیجاہ آپ نے ایسا کیا کھالیا کہ دنیا سے بے خبر سوتے رہے؟ خدا نے کھینچ کر دوبارہ انگڑائی چھوڑتے فرمایا: ہاں بھئی تحفوں میں کسی نے افغانی گائے کا بھُنا گوشت بھیجا، واقع بڑا ٹیسٹی تھا، یہ دیکھو ہمارے دانتوں میں ابھی تک گوشت پھنسا ہے ـ خدا کے اِس بیہودہ انداز پر پوچھا: خدارا آپ کو شرم نہیں آئی انسانوں کی طرح آپ بھی گوشت کھا گئے!  خدا نے حیرانگی ظاہر کیا: اِس میں کاہے کی شرم، اور یہ گوشت تو حلال ہے میاں ـ خدا کو بتایا: ارے آپ خدا ہیں کہ پائجامہ، آپ اپنی بنائی مخلوق کو ہی کھا گئے؟ آج گائے کو چبایا ہے اگر کل کا دن بھوک لگے تو انسان کو بھی کھالو گے کیا؟ خدا بھی بھڑک اُٹھا، اپنی کمر پر ہاتھ رکھے فرمایا: اوہ ہو ـ تم انسان کونسے شریف ہو، اگر ایک جانور انسان پر حملہ کرے تو اُسے درندہ کہتے ہو اور تم انسان اب تک لاکھوں جانور کاٹ کھا گئے پھر بھی خود کو اشرف المخلوق ہی کہلاتے ہو ـ ہاں جی؟ تم انسانوں کی اور بھی پول پٹیاں کھولدیں ـ خدا سے بحث و تکرار نہ کرو، خدا نہ کرے ہم غضب میں آجائیں ـ

خدا کے غضب پر پوچھا: واہ جناب، خدا کے منہ سے انسانوں جیسی بولی زیادہ عجیب نہیں لگی ـ کاش، اگر خدا تھوڑی دیر کیلئے انسان بن جائے تو خدا کو اپنے خدا ہونے پر رونا آئے ـ مانا کہ تکبّر، غرور اور حسد کرنے پر آپ قادر ہیں، آپ بلا وجہ انڈونیشیا پر برس پڑیں تو کچھ بھی نہیں، عراق میں ہر دن عذاب پر آپ تالیاں پیٹتے نہیں تھکتے، آپ طوفانوں کے سوداگر ہیں، زلزلوں کے دلال ہیں اور غریبوں کے جانی دشمن بھی ـ انسانوں کی طرح آپ میں بھی خامیاں ہی خامیاں ہیں ـ ایک ایسے وقت میں خدا زمین پر اُترا، جبکہ آج دنیا کو خدا کی کوئی ضرورت نہیں ـ انسان خود مختار ہے، چاند اور مریخ کے بعد بلاک ہول کو بھی سَر کرنے والا ہے ـ ایسی ویسی حیرت انگیزیاں ایجاد کرلیں کہ خدا بھی اپنی اُنگلیاں دانتوں تلے چبالے ـ آج کا انسان اپنی روٹی آپ پاتا ہے جبکہ خدا کو روٹی بیلنا تک نہیں آتا ـ خدا کا غرور ہے کہ اِس کا کوئی ثانی نہیں مگر حالات صاف ظاہر ہیں انسان خدا سے کچھ کم نہیں ـ زندگی اور موت صرف خدا کے ہاتھ میں نہیں، عراق کے تازہ حالات گواہ ہیں کہ یہ کام امریکہ بھی کرسکتا ہے ـ اچھا ہے کہ خدا غائب ہی رہے، اگر وہ ذرا بھی ہمّت کرکے انسانوں کے ہوبہو آگیا تو کئی سوالوں کے جواب دینے ہونگے ـ

ڈینگیں مارنا کوئی خدا سے سیکھے، دنیا بنائی مگر خاک ایک سائیکل بنانے کی حیثیت نہیں ـ خدا کو اپنی خدائیت پر بڑا غرور ہے پھر بھی انسانوں سے آنکھ لڑانے کی اُس میں ہمّت نہیں، ہمیشہ سے اوجھل رہنا جیسے اُسکا تکیہ کلام ہے کبھی تو انسانوں کے ہوبہو آکر بولے ـ خود کو خدا کہلوا لیا تو سبھی انسان پاگل نہیں کہ آپ پر ایمان لے آئیں ـ اُس زمانے میں کہاں جَھک مار رہے تھے جب گدھا گاڑیاں تھیں؟ اور آج چکاچوند دنیا دیکھ بدحواسی میں زمین پر اُتر آئے ـ ویسے خدا کیلئے عقل حرام ہے کیونکہ سارے کام صرف اپنے حکم سے نپٹاتا ہے ـ اگر خدا میں ذرا بھی سوجھ بوجھ اور عقل نام کی چیز ہوتی تو پرانے زمانوں میں لوگ جاہل نہ ہوتے، اُس دور میں بھی آٹو رکشا، موٹر کاریں ہوتیں ـ آج باشعور انسانوں کو دیکھ خدا بھی محتاج زمین پہ اُتر آیا ـ

پورے غضب میں خدا چیخا: چل رے سالے ـ تیری ماں کی ـ ـ ـ خدا کو خدا کی قسم! ہم تنگ آچکے اِن بکواس قسطوں سے، خدارا کوئی تو اِسے سمجھاؤ، اگر یونہی خدا پر بکواسیت لکھتا رہے تو ایک دن اسکے اپنے اس کا سَر دھڑ سے جدا کردیں گے ـ اپنی اِن قسطوں میں خدا کی شان و شوکت کو مٹّی پلید کرکے رکھ دیا ـ ہمارا غصّہ بہت غضبناک ہے اگر یقین نہ آئے تو وہ پرانے قصّے پڑھ لینا بازار میں دستیاب ہیں ـ پہلی قسط سے ہی ہمیں نیچا دکھا دیا اور اب پچاسویں قسط میں خدا سے پنگا؟ دنیا میں ایسے بھی انسان تھے جنہوں نے خود کو خدا کہلوایا اور ایسے لوگ بھی تھے جو خدا پر اُوٹ پٹانگ کتابیں لکھ کر مرگئے مگر یہ بلاگ ہیکہ اپنی بکواس قسطوں سے ہمارے دماغ کی ماں بہن کرنے پر تُلا ہے ـ توبہ استغفار، زمین پر اُترنے کے بعد ہماری زبان بے قابو ہوگئی ہم بھی ماں بہن کی گننے لگے ـ

واللہ، ہم نے تو سوچا تھا کہ نئے سال 2007 کے موقع پر کچھ اچھا وعظ فرمائیں، مگر اِس پچاسویں قسط نے ہمارا موڈ آف کر دیا ـ چنگھاڑتے ہوئے خدا نے فرمایا: اپنے آپ کو دیکھ، اپنا حلیہ دیکھ، اپنی آس پاس کی چیزیں دیکھ، زمین و آسماں دیکھ پھر پوچھ اپنے دل سے کہ خدا کیا بلا ہے؟ تُجھ سے پہلے بھی کئی لوگ بکواس لکھ کر مرچکے مگر آج تک تیری طرح کسی نے خدا کی ٹانگ نہیں کھینچا ـ آخر ہم نے تیرا کیا بگاڑا کہ اتنا نالاں ہے ـ خدا پر اتنے بیہودہ انداز میں بدکلامی لکھنے والے بتا تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، تجھے خدا بنا دیا جائے یا ہمیشہ کیلئے عبرت کی نشانی! واللہ ہم خود کنفیوز ہیں کہ اتنی ہمّت اور جراءت کیساتھ خدا پر بکواس اور بدکلامی لکھنے پر تیرے ساتھ کسطرح کا برتاؤ کیا جائے ـ

خدا نے مزید فرمایا: سچ تو یہ ہیکہ اِن قسطوں نے ہمیں زمین پر اُترنے مجبور کردیا اور اِنہی قسطوں نے خدا کو ہیرو اور ویلن دونوں رولس نبھانے پر مجبور کیا ـ واللہ انہی قسطوں کیوجہ سے یاد آیا کہ ہم نے انسان کو بنایا تھا ـ مگر خدا پر اتنے بیہودہ انداز میں تحریر کرنے والا پہلے کبھی نہیں دیکھا ـ زمین پر ایسے لوگ بھی تھے جو خود کو خدا ہونے کا دعوی کیا تھا اور ایسے لوگ بھی گذرے جنہوں نے خود کو خدا کا اوتار بتایا تھا ـ مگر ایسا پہلی بار دیکھا کہ کوئی بلاگنگ کے ذریعہ خدا کو اپنی اوقات یاد دلا رہا ہے ـ واللہ، ہم خود حیران ہیں اِن بکواس قسطوں پر ـ  ہم خدا ہیں تو کیا ہوا، ہمارے سینے میں بھی دل ہے ـ ہمارے اندر جذبات ہیں اور صبر کا مادّہ بھی ـ تبھی تو کئی زمانوں تک ہم نے دنیا کو سَر پہ جو اُٹھا رکھا تھا، انسانوں کے ناز و نخرے سہتے رہے، ہر قسم کی جہالت کو برداشت کرتے رہے لیکن جب خدا کے نام پر مذہب بنانے شروع ہوئے تو ہم سے برداشت نہ ہوا، دل تو چاہا کہ دنیا کو اُٹھا کر پھینک دیا جائے مگر پھر دیکھا کہ لوگوں میں واپس انسانیت لوٹ آ رہی ہے، نئی باتیں اور نئی سوچ کی راہیں تلاش کرنے لگے ـ اور تب سے ہم نے دنیا کو اپنی انگلیوں پر گھمانا شروع کر دیا ـ

خدا کا بھاشن ختم ہونے پر اُسے بتایا: یہ قسطیں بکواس نہیں بلکہ جان بوجھ کر خدا کی خدائیت کو للکارا ہے ـ اپنے پیدا کرنے والے کا گریبان پکڑ کر پوچھنا ہے کہ جب پالنے کی اوقات نہیں تو پیدا کیا ہی کیوں؟ شک تو یہ بھی ہیکہ اگر خدا ایک باپ کا ہوتا تو آج دنیا کی سبھی قومیں ایک ہوتیں ـ خدا کی عظمت پر شک کرنا کسی میں جرات نہیں مگر جب کھلے دماغ سے غور کریں تو وہ خدا نہیں بلکہ صرف ایک طاقت ہے اور کچھ نہیں ـ یہی تو اِن قسطوں کی خاصیت ہے، دنیا کو بتانا ہے کہ خدا کہیں اور نہیں بلکہ اپنی جیب میں ہے ـ ہم خدا کی نہیں بلکہ خدا کو ہماری سننا ہے ـ اِن قسطوں نے خدا کو پاگل نہیں بنایا بلکہ اُسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا کی ہے ـ اگر اِن قسطوں کی وجہ سے آج خدا اپنی زبان نہ کھولتا تو اگلے ہزارہا صدیوں تک بھی لوگ اندھی تقلیدوں پر گذارا کر جاتے ـ اِن قسطوں کے ذریعہ خدا کو بتانا ہیکہ انسان بناکر دنیا میں بھیج دیا مگر دوبارہ پلٹ کر ہماری خبر تک نہ لی ـ

یہ قسطیں لکھنے کا مقصد یہی ہیکہ خدا اپنی چھچھوری حرکتیں چھوڑ زمین پر اُتر آئے اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ اُس کا پیدا کیا انسان اتنا مہذّب بن گیا کہ دوسرے مذہب کے انسان سے سخت نفرت کرتا ہے ـ گذرے زمانے کے بزرگوں نے اپنی اپنی پسند کا جو مذہبی بیج بویا تھا، اُسکی نفرت انگیز جڑیں ہم انسانوں کو صدیوں سے لڑوا رہی ہیں ـ خدا کو خدا مانتے ہوئے بھی اپنی مرضی کے مذہب بنا گئے، اور ایسی ویسی ہدایتیں چھوڑ گئے کہ خدا کی پناہ اگر خدا بھی سُن لے تو شرم کے مارے مرغا بن جائے ـ اور آج دھرتی پر انسانوں کی اَن گنت قومیں دیکھ مگرمچھ کے آنسو بہا رہا ہے! دنیا والوں کو دھوکہ دینے والے اے خدا، ذرا بتا کہ تیرا مذہب کیا ہے؟ یہاں لوگ دل ہی دل میں خوش ہو رہے ہیں کہ صرف اِنہی کا دھرم سیدھا ہے اور اِنکی نظروں میں باقی جہاں کے درھم جھوٹ پر مبنی ہیں ـ ہر مذہب میں عجیب و غریب کرتوت، تو بھی دیکھے تو کھِلکھلاکر اپنے دانت گِرالے ـ کیا معلوم کہ خدا بے ڈھنگا ہو، اگر وہ سیدھا ہوتا تو آج سبھی قوموں کے انسان ایک ہوتے ـ یہ بھی سچ ہوسکتا ہیکہ خدا خود ہم انسانوں کو مذہبوں میں بانٹ کر تا قیامت لڑوانا چاہتا ہے کیونکہ اُسکے پاس دوسرا کوئی انٹرٹینمنٹ ہے ہی نہیں ـ

خدا نے ضبط نہ کرتے ہوئے اپنی ہتھیلی کھُجا کر فرمایا: بڑے دنوں بعد ہمارے اندر چماٹ مارنے کی آرزو جاگ رہی ہے یہ قسط ہمیں باؤلا ہونے پر مجبور کر رہی ہے، آج تک کسی نے خدا پر اتنی گھٹیا بدکلامی نہیں لکھی جو اِن قسطوں میں لکھی جا رہی ہے ـ خدارا، کوئی تو اِس بلاگ کے خلاف جلوس نکالو اور پتھراؤ کرو خدا خرچ اُٹھائے گا ـ اِس قسط کے پڑھنے والے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ خدا کے حق میں دعا کریں تاکہ وہ اپنا غصّہ پی جائے ـ غصّہ پیکر خدا نے فوراً کہا: سالہ، تیری ماں کی ـ ـ ـ خدا کی دھرتی پر کھڑا خدا کو للکار رہا ہے! کیا شکایت ہے، آخر تیرا پرابلم کیا ہے ـ ہم نے ایسا کیا کردیا کہ پوری قسط میں خدا کو ننگا دکھا رہا ہے ـ سب کی طرح تجھے بھی مانباپ دیئے، آنکھ ناک کان چوتڑ سامان سب کچھ ٹھیک ہی تو دیا ہے ـ ایسی کیا بات ہوگئی کہ خدا کے خلاف کھلم کھلا لکھ کر کیچڑ اچھال رہا ہے؟ باقی لوگ خدا پر ایمان رکھیں یا نہیں مگر تیری اِن بکواس تحریروں پر سب کا خون کھول اٹھتا ہے ـ صرف خدا ہی نہیں بلکہ سبھی مذہبیوں کو اپنی موت کی دعوت دے رہا ہے ـ خدا رحیم کریم ہے مگر تیری اِن قسطوں نے اب ہمیں کمینہ بننے پر مجبور کر دیا ہے ـ

دانتوں سے بھُنا گوشت نکالتے ہوئے خدا نے فرمایا: دیکھ بھئی، لوگ بھاڑ میں جائیں یا عجیب و غریب مذاہب بناکر سٹیا جائیں اِس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ـ تو نے اب تک کی سبھی قسطوں میں خصوصًا مذاہب کا ہتھوڑا ہمارے سَر پر مارتے ہوئے دلیلیں مانگتا رہا ـ ہم خود اِن مذہبوں اور اُنکے کرتوتوں سے لاعلم ہیں ـ ہم نے کوئی خاص دین یا مذہب نہیں اُتارا، اور نہ ہی ہمارا کوئی دین و مذہب ہے ـ واللہ، ہم پیدائشی لاوارث نکلے جنّت کے کھیت میں ننگے پڑے تھے پھر تھوڑا شعور جاگا تو احساس ہُوا کہ ہم ہی خدا ہیں ـ زمین پر اُترنے کے بعد اگر لوگوں سے ہم کُھل کر ملیں تو کیا جواب دیں، لوگ ہمیں آفر دیں تو کونسا مذہب اختیار کریں؟ ہمیں تو  مذہب کے نام سے ہی چِڑ ہونے لگتی ہے ـ بَس بھئی، ہم جو بھی ہیں اور جیسے بھی ہیں سہی ہیں ـ ہمیں نہ اسلام قبول کرنا ہے نہ عیسائی اور نہ ہی ہندو چاہے جتنی بھی رشوت ملے، سَر کٹادیں گے مگر کسی مذہب کو ہرگز نہ اپنائیں گے اِسی طئے شدہ پلان کے مطابق ہم چوری چوری زمین پر اُتر آئے ـ

آآہ ـ ـ ـ تم انسانوں کی بکھری قومیں دیکھ ہم نے رونا چاہا مگر رو نہ پائے اور نہ ہی ہمیں رونا معلوم ہے ـ کتنا اچھا خاصہ انسان بناکر بھیجا تھا، کون ہے ظالم جس نے تمہیں اِسطرح قوموں میں بانٹ گیا ذرا نام و چہرہ بتا دو ہم اُس کو قبر کھود کر نکالیں گے ـ اپنے وجود کی قسم ہم باقاعدہ خدا ہیں مگر تم انسانوں کی طرح مذہبی نہیں البتہ مہذّب ضرور ہیں ـ ہائے افسوس، اتنی اچھی عقل اور ذہانت کا حامل انسان آخر کیونکر اپنی زندگی کے خاص حصے کو اندھی تقلید پر گذارا کر رہا ہے؟ دیکھو تو سہی کیسی کیسی عجیب حرکتیں کر رہا ہے! خدا کے نام پر کوئی نارل توڑ رہا ہے اور کوئی سَر منڈوا رہا ہے، اگربتیاں موم بتیاں سب کی ماں بہن کر رہا ہے ـ ہمارے نام دھنڈورا پیٹ کر کوئی قوالی گا رہا ہے اور کوئی ماتم منا رہا ہے ـ کیا خاک انسانیت کی ماں ـــــــ رہا ہے ـ کون ہے وہ جو ایسی حرکتیں ایجاد کر گیا ـ ہم نے زمانہ جہالت میں بھی انسانوں کو وہی عقلِ سلیم دی تھی جو آج ہے ـ مگر اُس دور کے انسانوں میں کرنے کو کچھ نہیں تھا دھڑا دھڑ مذہب بنا گئے اور آج کا انسان اپنی عقل کو صحیح کاموں پر خرچ کر رہا ہے ـ

لمبی جماہی لینے کے بعد خدا نے اپنے سامنے ڈبّے سے کیک اُٹھاکر کھایا تو چلّا اُٹھا: آآآخ ـ تھُووو ـ ـ ـ یہ کِس نے بغیر شکر کا کیک بھیجا، اُسکی ماں کی ـ ـ ـ جیسے کہ ہم بلڈ پریشر کے مریض ہیں؟ واللہ ہم تو ہر قسم کی بیماریوں سے پاک ہیں ـ کسی نے خدا کو تحفے میں بغیر شکر والا کرسمس کیک بھیج دیا اور اوپر سے یہ پچاسویں قسط کیوجہ خدا اپنا سَر دیوار سے پیٹنا چاہا پھر فرمایا: اب بس بھی کر یہ قسط کافی سے زیادہ لمبی ہوچکی ہمارا دماغ اور نہ چاٹ ـ واللہ ہم باقاعدہ خدا ہیں باوجود اِس بلاگ کی عجیب و غریب قسطوں کیلئے لاجواب ہیں ـ واللہ، ہم میں کسی چیز کی کمی نہیں سوائے گنجے پَن کی دنیا کو جو اپنے سَر پہ اُٹھا رکھا تھا ـ پھر دنیا کو گھماتے ہماری کمر ٹوٹنے کو ہے ـ دل چاہتا ہے یہ گھمانے کام بھی کسی اور کو سونپ دیں جسطرح افغانستان اور عراق میں عذاب برپا کرنے کیلئے امریکہ کو کام سونپا تھا تاکہ قیامت کے دن اِس حساب کتاب سے ہم بچ سکیں ـ

عراق میں یوں بیدردی سے انسانوں کا قتل ہوجانا واقع خدا نے اپنی آنکھوں سے آنسوں نکالنے کی کوشش کی، اور میزبان سے شکایت بھی نہیں کرسکتا، خود امریکہ نے پابندی لگا دی اِس خون خرابے کے ماحول میں خدا کا عراق میں وارد ہونا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ـ یہاں تک کہ صدّام کی پھانسی کا لائیو تک دیکھنے نہیں دیا ـ پھانسی پر لٹکنے سے پہلے صدّام نے جو آخری کلمہ پڑھا: "امریکہ کو خدا مبارک"، ہم بھی خدا بننے نکلے تھے مگر کیا پتہ تھا کہ خدا کو بھی عبرتناک موت آئے! پھانسی کے پھندے سے لٹکتے ہوئے صدام نے آخری بار خدا کو حقارت بھری نظروں سے گھورا: "امریکہ میں سکون پانے والے اے خدا، آپ ایسے ملک میں مہمان بن کر اُترے ہو ـ دیکھ لینا ایک دن وہی آپ کے کندھے پر بیٹھ کر کان میں موتے گا" ـ ہماری یہ بد دُعا ہے، عراق کی یہ چنگاری ساری دنیا کو جلا کر راکھ کردے جبکہ خدا کی بھی یہی آرزو ہے ـ

صدام کی موت پر خدا نے جھومتے ہوئے سیٹی بجاکر فرمایا: دل کرتا ہے ناک سے گانا گائیں "عانشق بنایاں عانشق بنایاں" وہ چلا تھا خدا بننے مگر ہم نے امریکہ کی مدد سے اُس کو ٹپکا دیا ـ پھر بھی اُسکی ہمّت دیکھو کہ پھانسی سے لٹکتے ہوئے بھی دِیدے پھاڑے گھور رہا ہے واللہ، ہمارا پائجامہ گِیلا ہونے کو تھا ـ شُکر ہے امریکہ کا، اگر وہ نہ ہوتا تو آج صدام خدا کی برابری تک پہنچ چکا ہوتا ـ واقع وہ شیر دِل تھا، اُسے پنجرے میں پھانسنے کیلئے ہم نے سبھی ملکوں سے مدد کی بھیک مانگی تھی ـ اڑوس پڑوس ایران اور شام کیلئے ایک سبق ہے، خدا کے میزبان امریکہ سے آنکھ لڑاؤ گے تو صدام سے بُرا حشر پاؤگے ـ یہ سب تم انسانوں کے کرتوتوں کی وجہ سے ہے، اگر مختلف قوموں میں بٹنے کی بجائے سب ایک ہوتے تو آج دنیا کا ماحول بہت ہی خوشگوار ہوتا جسکی کوئی مثال ہی نہیں ـ

خدا نے مزید کہا: جسطرح تم لوگوں نے الگ الگ مذاہب بناکر بکھر گئے، ہم نے طئے کرلیا کہ یوں ہی تمہیں آپس میں لڑوا کر تباہ و برباد کردیں گے ـ پرانے زمانوں میں ایک دوسرے کی زمین ہڑپنے لڑا کرتے تھے اور اب تم سب لوگ ایکدوسرے کو نیچا دکھانے لڑتے رہو گے جسکی کوئی انتہا نہیں ـ اتنی اچھی عقل اور سوجھ بوجھ کے ہوتے بھی تم لوگ فرقہ پرست اور نسل پرست کی ذہنیت رکھتے ہو، واللہ پھر کاہے عقل ہونے کے باوجود پاگلوں جیسی حرکتیں کرتے ہو؟ تمہارا پاگل پَن دیکھ کر دل کر رہا ہے سمندر میں اتنی زور سے چھلانگ ماریں کہ گذشتہ سونامی کو اپنی نانی یاد آجائے ـ

چھاتی پیٹتے ہوئے خدا نے فرمایا: ہائے ربّا، ہمیں اپنی ماں یاد آ رہی ہے، آج یہاں ساتھ ہوتی تو ہمارے کان مروڑ کر پوچھتیں کہ کاہے عجیب انسان بنا دیا بدتمیز کہیں کا ـ ہمارے پیدا ہوتے ہی وہ مرچکی، اگر ذرا تمیز سِکھاکر کر جاتی تو ہم انسان بنانے کی غلطی نہ کرتے ـ اچھا ہوا کہ آج کا یہ دور ہماری ماں دیکھ نہ پائی ـ آج کے حالات دیکھ کر وہ رو پڑتی اور ہم بھی اُسکی روتی صورت دیکھ دہاڑ اُٹھتے ـ خدا نے اپنا بڑا منہ کھولکر روتے ہوئے چلایا: مـــــــــاں ـ تم کہاں ـ ـ ـ ـ ہمیں دنیا کا وارث بناکر اکیلا چھوڑ گئیں، مــــــاں ـ جانوروں کی دیکھ بھال بائیں ہاتھ کا کام ہے مگر یہ انسان بناکر ہم نے سب سے بھیانک غلطی کر دی ـ کچھ اچھا سوچ کر ہم نے انسان بنایا تھا تاکہ جانورں میں رونق آجائے مگر بے شرم انسان کروڑوں جانور کاٹ کھا گئے، اِتنا اچھا خوبصورت انسان بنایا اور اُس میں زبردست عقل بھردی اور آج اسی عقل کو استعمال کرتے ہوئے خدا پر بھی میزائل مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے ـ مــــــاں ـ

آنسو پونچھ کر خدا نے فرمایا: زندگی میں پہلی بار ہم رو پڑے، واقع ماں کو یاد کرتے ہوئے پتھر دِل والا بھی رو اُٹھتا ہے ـ اپنے اِس بڑھاپے میں بھی ماں کی گودی میں سَر رکھ دیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم واپس اپنے بچپن کی معصومیت میں کھو گئے ـ لوگ خواہمخواہ خدا سے مانگتے ہیں اور خدا سے پوچھتے ہیں ـ ہم سے کوئی کھانا مانگ کر دیکھے، انتظار میں بھوکا مرجائے اگر یہی بھوک کا اظہار اپنی ماں سے کرے پھر دیکھے وہ تڑپ اُٹھے گی اور کہیں سے بھی جگاڑ کرکے تمہارا پیٹ بھر دیتی ہے ـ ارے بیوقوفوں، ماں ہی خدا ہے، تمہاری بیماری میں پوری رات جاگتی ہے، تمہیں کھانا کھلانے کے بعد بچا تو کھاتی ہے، تمہیں چَین سے سُلانے کے بعد خود سوتی ہے، تمہارے اُٹھنے سے پہلے پانی گرم کرتی ہے، تمہارے بالوں میں کنگھا کرتی ہے، جس گال پر تھپڑ مارے پھر اُسی گال کو چومتی ہے، تمہاری بُرائیوں کو چھُپاتی ہے، اچھے کاموں کی طرف راغب کرتی ہے، غلطیوں کو معاف کرتی ہے، ضرورتوں کو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر پورا کرتی ہے، جَلے کٹے ہاتھوں سے وقت پر کھانا بناتی ہے، تمہارے پورے آرام کا خیال رکھتی ہے، آدھی رات کو بھی آواز دو وہ بیقرار چلی آتی ہے، تمہارے کان کا میل صاف کرتی ہے، تمہارا پاخانہ اُٹھاتی ہے، گندی چیزوں سے دور رکھتی ہے، اپنے سب بچوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے، تمہاری تکلیفوں میں ہمیشہ ساتھ رہتی ہے، تمہارے آرام اور سکون کو اپنی خوشی محسوس کرتی ہے، بھیک مانگ لے اپنا جسم بیچدے مگر اپنے بچوں کو بھوکا نہ رہنے دے، آؤ اے عقل کے اندھے انسانوں بیکار میں خدا کو پوجنے کی بجائے اپنی ماں کی عبادت میں جُٹ جاؤ یہی سچی عبادت ہے، خدا سے مانگو گے تو انتظار کرتے ہی رہ جاؤ گے، اپنی ماں کی عبادت کرو اور جو چاہے مانگ لو وہ انکار نہیں کرتی، واللہ ہمارا حلق سوکھ گیا بغیر فُل اسٹاپ کے اتنا لمبا جو بول دیا ـ

خدا نے اپنی بانہیں پھیلاکر فرمایا: لوٹ آؤ انسانیت کی طرف، مذہب اور دھرم میں کچھ نہیں رکھا ـ اگر یونہی مذہب مذہب کرتے رہوگے تو بڑی بڑی جنگیں دیکھو گے، دنیا میں کبھی نہ رُکنے والی تباہیاں ہونگی! مذہب، فرقہ پرستی اور نسل پرستی کی یہ جنگیں دنیا کو خاک میں ملادیں گی اب تک تو یہی ہوتا آ رہا ہے اور آج بھی یہی ماحول ہے ـ چھوڑو یہ کل کی باتیں، یہ جہاں تمہارا ہے آپس میں مِلکر اِسے اور خوب سجاؤ سنوارو ایکدوسرے میں اتحاد لاؤ ـ اپنے دماغ سے مذہبی سوچ کو ہٹاؤ یہ تمہارے دِل میں ایکدوسرے کیلئے جو نفرت ہے یہی مذہب ہے ـ اب بھلا بتاؤ اے عقل کے اندھوں اِس نفرت کو مذہب کیوں کہتے ہو؟؟؟ پتہ نہیں تمہارے پُرکھوں نے یہ دین مذہب کیوں بنا گئے جو تمہیں صدیوں سے لڑوا رہی ہیں پھر بھی تمہیں اِسکی سمجھ نہیں آئی دلوں میں برابر نفرت پال رہے ہو اور باتیں بڑی بڑی کرتے ہو!

خدا کو خدا کی پناہ، یقین کیجئے گر ہمیں انسانوں جیسی سوچ ہوتی تو ہم اپنے خدا ہونے پر کوستے ـ تم انسانوں کے کارناموں کو دیکھ ہمیں اپنے خدا ہونے پر افسوس ہے ـ کئی صدیوں بعد بَس یوں ہی دنیا دیکھنے زمین پر اُتر آئے، سارا جہاں جھَک مارا پھر امریکہ میں قیام کرنا پسند فرمایا کیونکہ یہاں دنیا کے سبھی اقوام کے لوگ رہتے ہیں ـ تم بھی اپنے ملکوں کو ایسا بناؤ کہ جہاں ہر قسم کے نہیں بلکہ ایک ہی قسم کے انسان ہوں، جِن کا دین و مذہب صرف انسانیت ہو سب ملکر ایک ہوجاؤ پھر دیکھو تم اتنے طاقتور ہوجاؤگے کہ امریکہ تمہاری اُنگلیوں پر ہوگا ـ تمہارے متحد ہونے میں سب سے بڑا برابلم تمہارا مذہب ہے، تمہاری یہ مذہبی سوچ تمہیں ایک ہونے نہیں دیتی، حالانکہ تم کتنی بھی بڑی بڑی اَمن کی باتیں کرلو مگر تمہارے اندر نفرت کی آگ سُلگتی رہے گی ـ اِسکی ماں کی ـ ـ ـ یہ پچاسویں قسط بہت لمبی ہوگئی ـ واللہ، دیکھو دنیا میں آکر ہماری زبان گھٹیا ہوگئی ـ اتنا لمبا لمبا بولکر ہم تھک چکے، ارے کوئی وہ بھُنا گوشت پھر سے بھیجدے واللہ، ہم کھاکر دوبارہ سونا چاہتے ہیں ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 50 ]

Post a Comment