Saturday, May 28, 2011

میں شہید ہوں

دوسرا حصہ

 آج ہی یہ خبر ملی کہ والدہ سخت علیل ہیں اور میرا نام اُنکے لَبوں پر ہے، مرنے سے پہلے وہ مجھے دیکھنا چاہتی ہیں ـ یہ پورا ہفتہ جہاد کیلئے مجھے سَرگرم رہنا ہے، بقولِ امیر صاحب دھماکہ چاہے عبادت گاہ میں کریں یا بازار میں، دونوں کا ثواب برابر ہے ـ میں تو ٹھہرا مجاہد، خدا کو خوش کرنے کیلئے مجھے اور بھی سینکڑوں دھماکے کرنے ہیں تاکہ جنّت میں اپنا ایک مقام بنالوں ـ گھر سے نکلے تقریبا دو سال کا عرصہ ہوچکا، نہیں معلوم اپنے ہاتھوں کتنے لوگوں کے چھیتڑے اڑائے، شکر ہے ابھی تک قانون کے ہاتھ نہیں لگا ـ میرا مقصد ایک ہے خدا کیلئے معصوموں کا خون بہانا اور دَنگے فساد کرنا پھر یوں مرتے مارتے شہید ہوجاؤں ـ اُس دن میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں جب امیر صاحب نے مجھے اپنے کندھوں پر بٹھاکر بھانگڑا ڈالا جب پشاور کے بازاروں میں دھماکے ہوئے اور درجنوں لوگ ہلاک، وہ مَیں نے کئے مگر کوئی اور پکڑا گیا ـ امیر صاحب نے میرے گلے میں میگزین کی مالائیں پہناکر خوب شاباشی دی اور خدا کے حضور میری لمبی عمر کی دعائیں مانگیں ساتھ میں یہ خوشخبری بھی سنائی کہ بہت جلد مجھے لندن، فرانس اور بھارت وغیرہ بھیجا جائیگا تاکہ وہاں کے بازاروں میں بھی بم دھماکوں کے ذریعے جہاد کروں اور خوب اجر و ثواب پاؤں ـ اپنی عَلیل والدہ کو دیکھنے میرے پاس وقت نہیں، امیر صاحب کہتے ہیں خدا کے حکم کے آگے کچھ بھی نہیں ـ شہید ہونے کے بعد جنّت پہنچ کر وہیں اپنے والدین سے ملوں گا ـ

(ایک مجاہد کی آپ بیتی ـ خیالی)

Post a Comment