Wednesday, May 11, 2011

خدا کو نیند آگئی

آسمان کی جانب دیکھ خدا نے کہا: شاید بارش ہونے کو ہے ـ ـ ـ کسی نے خدا کو پہچان لیا جو برقعے میں ملبوس لمبے قدم ناپ رہا تھا ـ خدا کو روک کر پوچھا: عالیجاہ، اِس برقعے میں آپ کہاں؟ جلدی میں خدا نے جواب دیا: میاں راستہ چھوڑو، ہم جہاد کی راہ میں رواں دواں ہیں ـ خدا سے پوچھا: برقعہ میں کاہے کا جہاد؟ خدا نے جواب دیا: اِس زمانے میں جس طرح پھٹے کپڑے پہن کر تم لوگ فیشن کہتے ہو، جہاد کی راہ میں اگر پاؤں ڈگمگا جائیں تو برقعہ میں فرار ہونا ہم مجاہدین کا اسٹائل ہے ـ ہمّت کرکے خدا سے مزید پوچھ لیا: مگر برقعہ سے ـ جہاد ـ کیا ـ مراد؟ ـ ـ ـ کھینچ کر چماٹ مارنے کے بعد خدا نے کہا: میاں کاہے سوال پہ سوال مار رہے ہو؟ واللہ ہم سبزی مارکیٹ جا رہے ہیں اور برقعہ اِسلئے تاکہ کوئی نہ پہچانے ـ کمبخت لوگ خدا کو دیکھا نہیں کہ آٹوگراف کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں ـ ـ ـ خدا نے منہ بصور کر اپنے چہرے پہ نقاب ڈالا اور مٹکتے ہوئے سبزی مارکیٹ چلا گیا ـ

آج یہاں زبردست بارش کے باوجود ہزاروں لوگوں کے سامنے خدا نے خطبہ پڑھا، خطبہ شروع ہوا ہی تھا کہ جلسہ گاہ میں کسی نے بم کی افواہ اُڑائی تو مجمع میں بھگدڑ مچ گئی اور درمیان میں پولیس کود پڑی ـ سب سے پہلے خدا کی تلاشی ہوئی، خدا نے اپنی ساری جیبیں جھاڑیں، کچھ نہ ملا پھر بھی پولیس والوں نے خدا کو پیٹا کہ کیوں کچھ نہیں؟ کچھ تو ہوناچ ہے آخر آپ خدا ہیں ـ جب سے دھرتی پر خدا کی آمد ہوئی تب سے کئی جلسوں میں بم پھٹ چکے جس میں درجنوں لوگ لقمہ اجل ہوئے اور بقیہ اپنا نام معذورین کی لسٹ میں درج کروالئے ـ پولیس کے ڈنڈوں سے تنگ مجبوراً خدا نے قبول کرلیا: ہاں اپنے پاس بم تھا جسے ہم نے کھالیا اب وہ ہمارے پیٹ میں ہے ـ پولیس نے خدا کو چھوڑ دیا کہ آپ کہیں دور جنگل چلے جائیں اور بیت الخلاء سے فارغ ہوکر فوراً واپس آئیں ـ موقعہ غنیمت خدا فرار ہونے میں کامیاب رہا ـ شام کو دوبارہ جلسہ منعقد کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ـ

دوسرے دن ذرائع ابلاغ سے بات چیت کے دوران خدا نے بتایا: بھئی میڈیا والوں، ظالم پولیس والے ہمیں کھینچتے ہوئے تھانے لے گئے تھے اور زبردستی قبول کروالیا کہ ہم "خودکش بمبار" ہیں حالانکہ اپنے کو پٹاخوں سے بھی ڈر لگتا ہے، آسمان میں بجلیاں کڑکڑاتے ہوئے ہم خود سہم جاتے ہیں ـ خودکشی تو حرام ہے، بھلا بتاؤ ہم کیسے اپنے کو بم سے باندھ لیتے ـ خدا نے گلا پھاڑ کر روتے ہوئے کہا: ہم نے پولیس کے آگے اپنے سارے ہاتھ جوڑ دئیے کہ ہمارے پاس بم جیسی کوئی شئے نہیں پھر بھی اتنا مارا اُتنا مارا، ایسی ویسی جگہ مارا واللہ ہم سہلا بھی نہیں سکتے اور مجبوراً قبول لیا: ہاں ہم خودکش بمبار ہیں ـ میڈیا والوں سے خدا نے کہا: ذرا تفتیش کرنا آیا یہ اصلی پولیس تھی، چونکہ زمانے کے ساتھ چیزیں نقلی ہوتی جا رہی ہیں ـ ظالم پولیس والے کسی کو بھی پکڑ لے جاتے ہیں زبردستی جرم قبول کرواتے ہیں اور اصلی بدمعاش آوارہ آزاد گھوم رہے ہوتے ہیں ـ

خدا کو یاد دلایا: آپ کی بات سچ ثابت ہوئی، حیدرآباد میں مکّہ مسجد حادثہ کے بعد پھر سے بم دھماکے ہوئے جس میں تقریبا چالیس لوگ چھانٹے گئے ـ خدا نے اپنی تعریف میں فرمایا: میاں، ہماری بات پتھر پہ لکیر ہے، اور یہ کوئی آخری دھماکہ نہیں "بم کا بدلہ بم" یہ سلسلہ جاری رہے گا، لوگ خواہمخواہ چھیتڑے پھاڑے ہلاک ہوتے رہیں گے ـ یوں تو بھارتیوں کیلئے بم دھماکے روز کا معمول ہے (جس دن کوئی حادثہ نہ ہو، یہ تعجب کی بات ہے) ـ خدا نے خود کے کان میں کہا: اچھا ہے، یہ مذہبی لوگ آپس میں لڑتے رہیں مرتے رہیں اور خدا کا کام آسان کرتے رہیں ـ خدا نے غضبناک ہوکر فرمایا: مذہب کی ابتدا فساد پر ہوئی تھی اور انتہا بھی فساد اور اختتام بھیانک فساد پر ہوگا ـ مذہب پر چلنے والوں کا قصّہ صرف اتنا کہ یہ ایکدوسرے سے ڈرتے ہیں پتہ نہیں کون کب غالب ہوجائے ـ خدا نے فرمایا: خدا کو اپنے خدا ہونے کی قسم! تم انسانوں کو تھوڑی بہت سوجھ بوجھ عطا ہوئی مگر ایک بار سمجھ لیا تو دوبارہ سوچنے کی زحمت نہ کی ـ خدا غارت کرے ایسی کھوپڑیوں کو جو سمجھدار ہوکر بھی سوچنے سے ڈرتے ہیں ـ

ایک غریب نے خدا سے کہا: آپ قسمتوں والے ہیں کہ خدا بن گئے اور ہمیں دیکھو پیدائشی غریب ہیں ـ ہنس کر خدا نے جواب دیا: بھئی غریب! خدا نے کبھی کسی کے پیٹ پہ لات نہیں مارا سوائے گاف کے ـ یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ چاہے امیر بن جائے اگر حوصلہ نہیں تو غریب ہوجائے ـ خدا نے فرمایا: ہم نے سبھی انسانوں کو یکساں عقلِ سلیم عطا کیا، کسی نے سمجھداری سے سمجھا اور کوئی سجھدار ہوکر بھی نہ سمجھا جیسے مثل مشہور ہے: "غریب اچانک بادشاہ اور بادشاہ اچانک غریب ہوجائے" تازہ مثال گیتانجلی بھی ہے ـ خدا نے کہا: ہماری قسمت اِس لئے چمک اُٹھی کیونکہ اُس زمانے میں کوئی دوسرا خدا ہونے کے لائق نہ تھا چونکہ اُس وقت ہمارے علاوہ اِس جہاں میں کوئی تھا ہی نہیں، اسی لئے بالآخر ہمیں ہی خدا بننا پڑا ـ خدا نے بتایا: دنیا میں کئی عظیم شخصیتیں گذریں جو غربت میں پیدا ہوئے پھر ایسے ویسے کارنامے انجام دیئے کہ دولت، شہرت و عزّت سے مالا مال ہوگئے ـ

خدا سے پوچھا: اُسامہ بن لادن کی طبیعت کیسی ہے؟ بہت عرصہ ہوا، اُنکا تازہ ویڈیو ریلیز نہ ہوا ـ خدا نے جواب دیا: وہ بخیر ہیں، امریکہ میں عیش فرما رہے ہیں ـ بڑے محنتی انسان نکلے، افغانوں کو پٹانے میں کامیاب رہے اور عرصہ تک امریکہ کیلئے مہرہ بنے رہے، اِنہیں بڑی لمبی قیمت وصول ہوئی بشرط یہ کہ چھُپے رہیں ـ ـ میاں، آپکی فرمائش پر اُن کا سلور جوبلی ویڈیو ریلیز ہوچکا ہے ـ خدا نے مزید کہا: القاعدہ کے پٹھو پٹھان کشمکش میں مبتلا ہیں کہ آیا اُسامہ زندہ ہے یا مردہ؟ پٹھانوں کو اب بھی یقین ہے کہ اُسامہ پوری دنیا پر بادشاہت کریں گے اور ہم پٹھانوں کو مختلف ممالک کا وزیر بنائیں گے ـ مگر اِن پٹھانوں کو یہ احساس ہی نہیں کہ انکی بیویاں اور بیٹیاں امریکن آرمی کی لونڈیاں بن گئیں جو کہ انکی دلی آرزو بھی یہی تھی، چوری چھُپے بھارتی فلمیں دیکھ انکے اندر حسرتیں جاگ اُٹھیں ـ اُسامہ کی مارکیٹنگ رنگ لائی جس سے افغانستان میں عورتوں کو امریکہ نے آزادی دلوائی ـ حالانکہ صدّام اور عرفات دونوں بھی امریکی مہرہ بنے تھے لیکن بدلے میں اپنی ہی جان دے کر اُلٹا قیمت چکانا پڑا، دراصل یہ ایک پہیلی تھی جو ابھی تک نہ سُلجھی ـ

آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خدا نے مترنّم آواز میں قصیدے پڑھے ـ پوچھا تو فرمایا: میاں، ریہرسل چل رہی ہے تاکہ مشرف کی میّت پر اُنکے سرہانے اِن قصیدوں کو بَر زبانی پڑھا جائے ـ بیچارے مشرف نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے، آگے پیچھے دونوں طرف کھائی ہے ـ آخر کب تک امریکہ کی گودی میں بیٹھے رہتے! دوسروں کو بھی بیٹھنے کا موقع ملنا چاہئے ـ پاکستان کے تازہ واقعات پر خدا نے کہا: اِس ملک کو عراق بننے میں شاید زیادہ دیر نہیں، فرقہ وارانہ فسادات کب شروع ہوجائیں کوئی وقت متعین نہیں ـ اگر پاکستانی عوام چاہیں تو جمہوریت قائم کرکے امن و امان سے رہ سکتے ہیں مگر ملاّؤں کا کیا بھروسہ، وہ تو اَنا پرست ہیں ـ افغان و عراق کی مثالیں سامنے ہیں ـ ـ پہلے امریکہ کی چمچمہ گیری پھر آپس میں گروہی تصادم اور ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ وار تشدد!! وقت بہت کم ہے، روشن خیالوں کیلئے اشارہ کافی ہے ـ اگر پاکستان کو عراق و افغان ہونے سے بچانا ہے تو سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانا ہے چونکہ فتنے کی چنگاری سُلگ چکی ہے ـ اگر خدا چاہے تو پاکستان کی مدد فرمادے مگر پہلے ملاّؤں کو سمجھاؤ کہ وہ خدا کو سمجھے لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ خدا صرف اِنہی کا ہے ـ

خدا نے خود کا نام لئے بغیر فرمایا: ہم نے نواز شریف کو پورے چار گھنٹے تپایا، ہمارے ہی حکم پر چند گھنٹوں کیلئے پاکستان تشریف لائے اور سٹپٹاگئے ـ یوں تو ہوناچ تھا، اب بینظیر کو بھی اُترنا ہے پھر اِنہی حالات میں مشرف کو ٹپکنا ہے ـ عوام یونہی بلا وجہ گلا پھاڑ رہے ہیں، یہاں ہر کوئی کسی کی حمایت میں نعرے لگا رہے ہیں ـ جانتے نہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے اگر سمجھدار ہوتے تو سب امریکہ کی آواز سے آواز ملاتے ـ پاکستان میں کہیں بھی یکتا نہیں کسی میں اتحاد نہیں، اگر اِن میں اتحاد ہوتا تو آج امریکہ کی اُنگلیوں پر اِسطرح نہیں ناچتے بلکہ اُلٹا امریکہ کو ناکوں چنے چباتے جسطرح کُند ذہن کہلانے والے طالبان آج بھی امریکہ کی ناک کے بالوں کو کھروچ رہے ہیں ـ خدا نے مزید اپنا نام لئے بغیر فرمایا: خدا کی قسم! ہم نے کسی کو طاقت و دولت عطا نہیں کیا بلکہ انسان نے خود اپنی قسمت آپ بنایا، اب جب تمہارے حوصلے پست ہوچکے تو امریکی غلامی ہی سہی، تم امریکہ کے باپ نہ بن سکے مگر وہ تمہارا باپ ہی سہی ـ چھوڑو یہ تکبّر، غرور، ضد، اَناپرستی ـ گذرے زمانوں سے روایت ہے کہ طاقتور بادشاہ ہی کمزور بادشاہ پر غالب رہتا ہے ـ مانا کہ تم خوددار ہو مگر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار کر خدا سے مدد کی بھیک نہ مانگو ـ

خدا سے پوچھا: اتنے دنوں کہاں چلے گئے تھے کہ یہ بلاگ آپ کے بغیر بالکل سُونا ہوگیا ـ خدا نے جواب دیا: گھنٹا بجا رہے تھے!! میاں، ہمیں اور بھی کام ہوتے ہیں آخر ہم خدا ہیں ـ چوبیس گھنٹے دنیا گھُمانا، مختلف جگہوں پر بارش برسانا، کہیں برفباری تو کہیں سمندری طوفان اُٹھانا، ایکساتھ پیرو میں زلزلہ اور بنگلہ دیش میں سیلاب چلانا، انسان حیوان سب کی خبر گیری کرنا، کسی کو بھوکا مارنا اور کسی کو حلق تک کھِلانا وغیرہ وغیرہ وغیرہ ـ خدا نے بتایا: اتنے سارے کام و کاج کے باوجود پھر بھی اِن قسطوں میں آکر ایک آدھ بکواس کہہ ڈالتے ہیں یعنی اپنے دل کی بھڑاس اُگل جاتے ہیں ـ اب چند دنوں سے ٹائم ہی نہ ملا کہ پوچھتے ہو یہ بلاگ خدا کے بغیر سُونا پڑگیا جیسے بکواسیت پڑھنے کیلئے یہاں کچھ بھی مواد نہ ملا؟ اماں یار، اِس بلاگ پر خدا کے فضل سے کُل 57 قسطوں میں ایک سے بڑھ کر ایک بکواس موجود ہے، اب یہ 58 ویں بکواس قسط بھی شامل ہوگئی ـ پڑھتے رہو، اگرچہ یہ بکواس قسطیں ہیں مگر خدا کی مقدس باتیں ہیں ـ

خدا نے پوچھا: قانون بکواس ہے یا بکواس ہی قانون! کہنے کو بھارت میں سب کیلئے یکساں قانون ہے، دیکھا جائے تو امیر و غریب کیلئے قانون میں اختلاف ہے مگر اچانک حیرانگی ہوتی ہے کبھی کبھار امیروں کو غرباء کے قانون سے جکڑ دیا جاتا ہے ـ اکثر مواقع پر امیروں سے لے دے کر صلح ہوجاتی ہے اگر قانون ضِد پر آجائے تو امیروں سے لے کر بھی دینے سے صاف انکار کر دیا جاتا ہے ـ سنجے کو اندر باہر کی ہوا کھلاتا ہے، ہرشد کو پیسوں سے تولہ جاتا ہے، لالو کو وزارت پر بٹھا دیا جاتا ہے اور سلمان کے ساتھ ناچنے گانے کے بعد اُلٹا قیمت وصول کرتا ہے ـ کئی بار قانون کے رکھوالے خود مجرم بن جاتے ہیں، پولیس اور آرمی میں ایسے ویسے جرائم رونما ہوتے ہیں کہ سُن کر بھی یقین نہیں آتا رکھوالوں کا یہ حال ہے تو انکو دیکھ کر خدا کا ہنستے بُرا حال ہے ـ بھارت سچ مچ عجیب ملک ہے، یہاں کا کرپشن ملک کی سیاست بھی ہے اور روایت بھی ـ خدا نے فرمایا: انڈر ورلڈ ڈان کو چاہے تو ابھی پکڑلے مگر ساتھ ہی کئی سیاستدانوں کی پول کھل جائے ـ دنیا کے سبھی ملکوں میں کرپشن موجود ہے مگر بھارت ایک ایسا ملک ہے یہاں کرپشن سبھی کی ضرورت ہے جیسے چلنے پھرنے کیلئے پاؤں کا ہونا ضروری ہے ـ

جلسہ گاہ میں خدا نے اپنی تعریف میں خود فرمایا: واللہ، ہم اپنی جوانی میں ایسے تھے ویسے تھے، نہایت ہی حسین و جمیل تھے کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ تھے ـ وہ اسلئے اُس وقت جہاں میں کوئی تھا نہیں کس کو اپنا منہ دکھاتے؟ اپنی جیب سے بچپن کا فوٹو نکال کر خدا نے حاضرین کو دکھایا تو مجمع غش کھاکر بیہوش ہوگیا ـ خدا نے حاضرین کو ہوش میں لاکر فرمایا: معاف کیجئے گا، چونکہ ہم نے اپنی پرورش خود کرلئے تھے اس لئے بچپن میں ویسے تھے ـ اپنی دوسری جیب میں ہاتھ ڈال کر خدا نے کہا: اب ہماری جوانی کا فوٹو بھی دیکھ لیجئے! مجمع اٹھ کر رفو چکّر ہوگیا ـ دوسرے دن اخباروں میں خبر تھی: "خدا کی تصاویر دیکھ کئی لوگوں کو انجان بخار چڑھ گیا" ـ اِس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے خدا نے اخبار نویسوں سے فرمایا: چونکہ ہم نے اپنی پرورش خود کر بیٹھے، اسلئے بچپن میں کچھ یوں تھے ـ اور اپنی جوانی کا پتہ نہیں کب آئی گئی ـ خدا نے کہا: یہ تصویریں ہم نے اپنے ہاتھ سے بنائے تھے کیونکہ اُس زمانے میں کیمرا کا وجود نہ تھا ـ

پرتیبھا کیلئے خدا نے اپنی دعائیں چھوڑیں: محترمہ، واقع آپ خوش قسمت ٹھہریں کہ بھارت کی پہلی خاتون صدر اُبھریں ـ اب ذرا سنبھل کے، یہ بھارت ہے پورے دیڑھ سو کروڑ بھارتیوں کا دل جیت کر دکھائیں ـ بطور پہلی خاتون صدر، خدا آپکے ساتھ ہے ـ مگر بھارتیوں کی مرضی کہ آپ کو کب تک ٹکائے رکھے چونکہ جب خدا بھارت آیا تھا، زمین پہ اُترنے تک نہیں دیا بلکہ کئی گھنٹے ہوا میں ہی لٹکائے واپس بھیج دیا (بڑے خود غرض بھارتی ہیں) ـ پرتیبھا کیلئے خدا نے فرمایا: ملک کے سب سے اونچے عہدے کا وقار پامال نہ کیجئے، آپ اِس ملک کی ماں سمّان ہیں سب کو ایک ہی نظر سے دیکھیں اور یکساں پیار بانٹیں ـ اپنی کھوپڑی کھُجاتے ہوئے خدا نے کہا: اماں یار، اب کونسا نیا سسٹم چل پڑا کہ بھارت میں اونچے عہدوں پر مسلمان تعینات ہو رہے ہیں! یہ سیاستدانوں کی چاندی اور مسلمانوں کیلئے پیتل کا کٹورا جیسا ہے ـ خیر، جو بھی ہے آپس میں مل بانٹ کر کھائیں اور کھلائیں خدا سب دیکھ رہا ہے ـ فی الحال اپنے دھرم کو دیکھنے سکینڈ شو جانا ہے ـ

خدا نے پوچھا: یہ کیا بات ہوئی کہ اکثر ہندی فلمیں ایک جیسی ہوتی ہیں؟ نہ سر نہ پاؤں، اِن فلموں کی کہانی میں کبھی ہیرو پنجاب سے کبھی ہیروئن پنجاب سے یا پھر پوری فلم پنجاب ہی سے ہوتی ہے ـ بھارت میں پنجاب کے علاوہ اور بھی شہر موجود ہیں مگر فلموں میں پنجاب کا ہونا جیسے ایک مقدس بات ہوئی!! خدا نے بتایا: کل رات سکینڈ شو میں اپنے دھرم کو دیکھا، کئی زمانوں کے بعد پردے پر ویسے ہی گرم نظر آئے مگر پھر بھی فلم چلتے پیٹرول ختم ہوگیا ـ خدا نے کہا: اب کی فلموں میں بکواسیت کے سوا کچھ نہیں جبکہ آج بھی بھارتی فلمیں پاکستانیوں کیلئے اُوڑھنا بچھونا سے کچھ کم نہیں ـ خدا نے فلمسازوں سے کہا: آپ لوگوں کو خدا کا واسطہ، کچھ تو بہترین فلمیں بناؤ کہ راحتی ملے چلو ایک اچھی فلم دیکھنے میں پیسے خرچ ہوئے جس میں منورنجن کے ساتھ ایک سبق بھی ملے ـ ایسا نہیں کہ فلم کے شروع ہوتے ہی ہیروئن اپنی ٹانگ اٹھائی تو گانا، ٹانگ ہلائی تو گانا ـ کچھ نہ کرے پھر بھی کچھ کرنے کو گانا اور گانے بھی خدا کی پناہ، خدا کو اپنے ساتھ سکریٹری لانا ہوتا ہے ـ

خدا نے بتایا: جب ہم چھوٹے اور بالکل ننھے تھے، اپنی خواہش یہ تھی کہ بڑے ہوکر ڈاکٹر بنیں گے ـ مگر آج کے حالات دیکھ کر شُکر مناتے ہیں کہ اچھا ہوا ہم ڈاکٹر نہ بنے ورنہ گلاسگو حادثہ کے فوراً بعد حکومتیں سب سے پہلے خدا سے تفتیش کرتیں اور خدا کو بھی خواہمخواہ قبول کرنا پڑتا کہ ہاں یہ حادثہ ایک چمتکار تھا ـ خدا نے فرمایا: بنگلور کے اَمن پسند شہریوں کا نام دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل کرنے کی کوشش ناکام رہی، امن پسند لوگوں کا خدا سائبان ہے ـ بنگلور شہر، جہاں دنیا بھر سے آئی ٹی، بی ٹی کمپنیوں کے سرمایہ سے لاکھوں بھارتیوں کو روزگار ملا اور اپنے مزاج جیسا خوش بہار موسم ملا ـ خدا نے کہا: ہمیں افسوس ہیکہ ڈاکٹر بن نہ سکے باوجود ڈاکٹری جیسے مقدس پیشے کی عزّت کرتے ہیں جو بلا مذہب سبھی انسانوں کا علاج کرتے ہیں ـ اور اِنہی ڈاکٹروں کی بدولت آج خدا کی کچھ شان باقی ہے، لوگ خدا کو حاضر و ناظر جان کر بہت کچھ کر جاتے ہیں جبکہ ڈاکٹروں کے آگے شرمندہ کھڑے ہوتے ہیں ـ

گرگٹ کو دیکھ کر خدا نے کہا: بدمعاش بڑا رنگین مزاج ہے، دیکھو کس طرح اپنے جسم کو رنگوں میں بانٹ رہا ہے! خدا کو یاد دِلایا: جہانپناہ! یہ گرگٹ رنگین مزاج نہیں بلکہ رنگین ہی ہے مگر خدا کی طرح رنگیلا نہیں کہ کسی کو گورا بنایا تو کسی کو کالا، کسی کو ہندو اور کسی کو مسلمان بنا دیا ـ یکلخت خدا نے کہا: میاں، کیوں اناپ شناپ بک رہے ہو! واللہ، خدا نے کبھی کسی کو فرقوں میں نہیں بانٹا ـ سب کو مکمل اور خالص انسان بنایا تھا، ہمیں کیا کھجلی تھی کہ انسان بنانے کے بعد ان میں مذاہب اور فرقوں کو تشکیل دیتے؟؟ یہ تم انسانوں کا سلسلہ ہے کہ اولاد کا مذہب وہی جو والدین کا ہے اور مذہبوں کی ایجاد تمہارے بزرگوں نے کیا تھا جو پچھلے زمانوں میں کام و کاج نہ ہونے کی وجہ سے خاندان میں پھوٹ ڈال کر فرقوں کی بنیاد ڈال گئے اور بچپن سے ہی ذہنوں پر تالے مار گئے جسکی کنجی پاس رہتے بھی تمہیں دکھائی نہیں دیتی ـ خدا کو اپنے خدا ہونے کی قسم! مذہبی ہونا آسان ہے مگر مذہب کو سمجھنا کسی مائی کے لال میں ہمّت نہیں ـ اور جس نے مذہب کو پہچان لیا وہ مذہبی نہیں بلکہ سچّا انسان ہے ـ

خدا نے فرمایا: ہم اُن رشتے داروں کے غم میں برابر شریک ہیں جن لال مسجد کے طلبہ کو بروقت برقعے نہ ملنے کی وجہ سے اپنی ہی فوج کے ہاتھوں بے موت مرنا پڑا ـ خدا نے بتایا: طلبہ نے سجدوں میں اپنی ناک رگڑتے ہوئے خدا سے مدد کی فریاد کرتے رہے (میاں، کیا ضرورت تھی ہلّہ مچانے کی ـ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارکر خدا سے پٹّی باندھنے کی فریاد کرتے ہو!) یہ صرف آج اور کل کی بات نہیں بلکہ پچھلے زمانوں سے بھی ”خود ساختہ مجاہدین“ مدد کیلئے خدا کو پکارتے نہیں تھکتے اور خدا بغیر تھکے اُن مجاہدین کی سُنی اَن سنی کردیتا ـ آخر کیا فائدہ ایسے جہاد کا؟ ہمیشہ اِس امید سے کہ خدا مجاہدین کے ساتھ ہے باوجود پھر بھی مجاہدین کا ہی نقصان ہے، بُری موت مرنے کے بعد اپنے عزیزوں کی نظر میں شہید مگر ساری دنیا کی نظر میں دہشت گردوں کی دہشتناک موت!! خود مجاہد بن بیٹھے اُلٹا اپنوں پر ہی عذاب بن گئے ـ جیسے خدا نے اِنکے خواب میں آکر کہا: ”کچھ کرنے کے لائق نہ سہی، والدین کے نافرمان ہی سہی، اچھے بُرے کی تمیز نہ سہی صرف ہتھیار چلانا آجائے تم پکّے مجاہد ہو“ ـ مارو اور مرو، اپنوں کے خون سے خدا کا جھنڈا لہراؤ اِس اُمید سے کہ تم جنّتی ہو جبکہ دنیا والوں نے دیکھ لیا تم کس مصیبت، عذاب جھیل کر بھیانک موت مارے گئے جسم کے حصّے چھیتڑوں میں اُڑگئے ـ

کتّوں نے بھونکتے ہوئے خدا کا پیچھا پکڑلیا، اب خدا بھی حیران: بدمعاش اپنے خدا کو نہیں پہچانتے؟ ایک کتّے نے دُم ہلاکر خدا سے پوچھا: آپ کی تعریف؟ خدا نے جھلاّکر کہا: بدتمیز! ہم تمہارے باپ یعنی اِس سارے جہاں کے ایک اکیلے خدا ہیں ـ کتّے نے پھر دُم ہلایا: اچھا تو آپ ہیں! دراصل شک کرنا پھر بھونکنا ہماری فطرت ہے ـ خدا نے بھی اپنی دُم ہلاکر کتّوں سے خطاب فرمایا: کمبختوں! تمہارے میں بھونکنے کی صلاحیت کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی منحوس آواز میں گلا پھاڑو اور دوسروں کے کان! جب تمہارے میں بھونکنے کی تمیز نہیں تو کاہے کتّا بنے پھرتے ہو؟؟ گلی محلّے میں ہر آنے جانے والوں پر جھپٹتے ہو جیسے یہ تمہارے باپ کا علاقہ ہے ـ خدا نے کتّوں کو لتاڑا: تم آوارہ کتّوں کیوجہ سے لوگ باگ پریشان ہیں، رات کو ڈیوٹی سے لوٹنے والے کرفیو سے نکل جائیں مگر کتّوں کی نظر سے نہیں ـ اکثر لوگوں کی دعاء ہے کہ: یا رب! کتّوں کو واپس بلالیں اور اُنکی تعداد میں شیر، چیتوں کا اضافہ فرما دیں ـ چونکہ شیر کو اپنے سامنے دیکھ انسان کی روح فنا ہوجاتی ہے مگر کتّوں کو سامنے دیکھ جسم کپکپاتا ہے اور پاؤں بھاری پڑجاتے ہیں ـ

خدا سے فریاد ہوئی: ذرا ٹینکریڈو کی زبان پر لگام دیں جس نے اسلامی مقدس مقامات پر بم حملوں کا فتویٰ چھوڑ کر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے ـ خدا نے تھنڈی سانس لے کر جواب دیا: دنیا میں سبھی اقوام نے اپنے لئے علیحدہ مقدس مقامات بنالئے ہیں، ہندوؤں کیلئے کاشی اور متھرا، مسلمانوں کیلئے مکّہ اور مدینہ ـ جبکہ امریکیوں کیلئے امریکہ خود ایک مقدس ملک ہے ـ ظاہر سی بات ہے جب القاعدہ اور دوسرے مولوی حضرات روز افزاں امریکہ پر حملے کی دھمکیاں چھوڑتے نہیں تھکتے اب پہلی بار ایک اُبھرتے امریکی صدر ٹینکریڈو کے فتوے پر مسلمانوں کے جذبات کیسے مجروح ہوگئے؟ تعجب ہے! مسلمانوں کیلئے مقدس مقام صحیح مگر امریکیوں کا مقدس ملک کچھ نہیں؟؟ یہ کیا بات ہوئی کہ مسلمان بار بار امریکہ پر فتوے چھوڑے ـ ـ ـ پھر کوئی امریکی مکہ مدینہ کے خلاف فتویٰ کیوں نہ دے؟؟؟ خدا نے پورے غضب میں فرمایا: ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی کسی کے خلاف فتوے نہ چھوڑیں بلکہ آپس میں انسانیت کے ساتھ مل جُل کر بھائی چارے سے رہیں ایکدوسرے کے مذاہب / تہذیب کا احترام کریں ـ ـ یقین جانو پھر کسی کے جذبات مجروح نہ ہونگے!

بیکار بیٹھنے کے بجائے خدا نے جیب سے منکوں والی تسبیح نکال خود اپنی تعریف آپ شروع ہوگیا، کسی نے بتایا منکوں میں خدا کی حمد و ثناء کرنے سے جنت میں مفت انٹری ہے ـ پھر خدا کو یاد آیا جنت تو اِسکی اپنی ہے پھر کاہے کیلئے حمد و ثناء؟ لوگ بھی عجیب و غریب حرکتوں میں مصروف ہوجاتے ہیں گنتی میں خدا پر آیتیں پڑھتے ہیں ـ جنّت خدا کا ذاتی مکان ہے، بھلا کوئی انسان حمد و ثناء کرلے تو خدا کیونکر اُسکو اپنی جنت میں بلائے؟ پتہ نہیں کس کمبخت نے یہ افواہ اُڑائی تھی کہ خدا کی حمد و ثنا کرو اور جنت میں مفت انٹری مارو!! خدا کو خدا کی قسم! تم انسانوں کے ہر اچھے بُرے کرموں کا اجر یہیں دنیا میں موجود ہے لال مسجد تازہ مثال ہے ـ خدا نے کہا: اب چونکہ رمضان کا مقدّس مہینہ آگیا جبکہ ہمیں بھوکا رہنے کی عادت نہیں اور جس کو بھوکا رہنا ہے شوق سے رہے مگر اپنی جھوٹی عبادتوں سے خدا کا دل جیتنے کی کوشش نہ کرے، اور اگر خدا کو خوش کرنا ہی ہے تو تم سبھی انسان آپس میں ایکدوسرے کا احترام کریں، ایکدوسرے کے مذاہب کلچر پر طنز نہ کریں ـ خدا نے فرمایا: ہمیں بھی خواہش ہے کہ رمضان کے پورے روزے رکھے بشرط ایسا طریقہ ہو کہ بھوکے رہے اور بھوک کا احساس بھی نہ لگے ـ

ہند اور پاک کو یومِ آزادی کی ساٹھویں سالگرہ پر مبارکبادی دیتے ہوئے خدا نے فرمایا: دونوں ممالک کے لوگ آزادی کا مطلب چھُٹی سے مناتے ہیں ـ آپ لوگوں کو آزادی کا مطلب معلوم نہیں تو حنیف اور ناصر مدنی سے پوچھو! بیچارے قسمت کے مارے، جیل سے آزادی نصیب ہوئی تو جیسے دوبارہ جنم پالئے ـ خدا نے چنگھاڑتے ہوئے کہا: صبح سویرے قومی ترانہ پھر بھاشن پھر مٹھائی کھانے کے بعد پورا دن صرف چھُٹّی کے طور پر گذارنے والوں! بہت ہی خون خرابوں کے بعد ایسی آزادی ملی کہ کھُل کر سانس لینے کی توفیق نصیب ہوئی ـ بھارت کو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا شرف حاصل ہوا، یہاں ہر بھارتی کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہوا ـ اگرچہ پاکستانی عوام آج بھی اپنے جنرلوں اور ملاؤں کی غلامی سے آزاد نہ ہوئے مگر خود کو پاکستانی کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں ـ خدا نے فرمایا: آزادی دلوانے والی شخصیتوں کو یاد کریں اور اُنکا شکر ادا کریں کہ اِنہی کی بدولت غلامی سے آزادی ملی، حق مانگنے کی جرأت ہوئی، دنیا بھر میں الگ پہچان بنی ـ خدا نے کہا: بھارت اور پاکستان میں جن لوگوں کو آزادی کی قدر نہیں معلوم، اُنہیں اِس آزادی کی ساٹھویں چھُٹی مبارک ـ

تھک ہار کر رات کو بستر پر عجیب و غریب انداز میں کروٹیں بدلنے کے باوجود خدا کے ہاتھ نیند نہ آئی ـ خدا نے نیند کو پکارا، اپنی جیبیں جھانکا مگر نیند کا کوئی اتہ پتہ نہیں ـ نیند کو بلانے کے واسطے خدا نے اپنی اُنگلیوں پر ایک سے لاکھ تک گنتی کرلیا پھر بھی نیند نہ آئی، اپنے سبھی ہاتھوں کو گِن لیا پھر بھی نیند نہ آئی، پانچ مرتبہ اپنی سبھی ٹانگوں کو گِن لیا پھر بھی نیند نہ آئی ـ یکدم جھلّاکر بستر سے اُٹھنے کے بعد خدا نے اخبار اُٹھایا اور سبھی خبروں کا حفظ کرلیا پھر بھی نیند نہ آئی ـ غصّے میں خدا نے خود کے گال پر دو چار تھپڑ رسید کرلئے کہ پورے 21 پیراگراف ہوچکے مگر تھکاوٹ کے باوجود نیند آتی کیوں نہیں؟ یہاں تک کہ خدا نے انگلیوں پر تھُوک لگاکر اپنے جسم کے تمام بالوں کو گن لیا پھر بھی نیند نہ آئی ـ تنگ آکر خدا چھت پر چلا آیا یہاں کھُلے آسمان پر چمکتے ستاروں کو دیکھ مسکرایا ـ خدا نے خوش ہوکر تاروں کی گنتی شروع کر دیا، شاید کہ نیند آجائے اور تھوڑی ہی دیر میں اپنا منہ پھاڑے جم کر جماہی چھوڑا ـ آنکھوں میں تارے مُرجھانے لگے ـ تاروں کی گنتی پوری نہ ہوئی البتہ خدا کو نیند آگئی ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 57 ]

Post a Comment