Wednesday, May 11, 2011

فلُو کا آلو بن گیا

عطر کی خوشبو جیسا یہ کیسا فُلو پھیل گیا، دوسروں کا دیکھ ہم نے بھی چہرے پہ ماسک چڑھا لیا ـ  ہمارے اِس انداز پر باقیوں نے کچھ نہ بولا مگر گلی میں آرام فرما رہے کتّوں کو ہمارا یہ حُلیہ ذرا پسند نہ آیا ـ پھُرتی سے کھڑے ہوکر ہمارے منہ پہ بھونکنا شروع کردیا ـ جلدی سے ماسک اُتار کر اپنا تعارف کروا دیا کہ میاں، ہم تو تمہاے خدا ہیں ـ یہ سُن کر کتّوں نے رُخ بدل کر اِدھر اُدھر بھونکتے رہے یعنی کہ شکر ہے اپنے خدا کو پہچان گئے ـ لعنت ہے عجب وبائی بیماریاں پنپ رہی ہیں، ہم خدا ہوکر بھی چہرے پہ ماسک سجائے رکھے ہیں جسکی وجہ سے انسان تو کیا کتّے بھی ہمیں پہچانتے نہیں ـ ایک عورت نے پوچھ لیا: اوہ جی کام سے نکلے تھے مگر یہاں بازار میں کہاں بھٹک رہے؟ اُس کو بھی ماسک اُتارکر بتانا پڑا کہ ہم تمہارے مجازی نہیں بلکہ باقاعدہ خدا ہیں ـ

گلی میں بچّے رنگ برنگے ماسک پہن ایسے پھُدک رہے ہیں جیسا کہ عید کے نئے کپڑے پہنے ہیں ـ اب بچّوں کا کیا ہے، جو بھی نیا پہن لیا بس خوشی میں ناچنا شروع کردیا ـ خواتین و حضرات بھی ایکدوسرے کو اپنا ماسک دکھاکر رعب جمانے لگے ہیں ـ بس اسٹاپ، ریلوے اسٹیشن ہر جگہ ماسک کو جیسے دھوتی اور چولی سمجھ رکھا ہے ـ بغیر ماسک پہنے شخص پر لوگ عجیب نگاہوں سے دیکھتے ہیں جیسا کہ وہ انسان نہیں بلکہ جراثیم کش انسان ہے ـ سؤر نے اتنی وباء نہیں پھیلائی جتنا کہ میڈیا والوں نے ہلاّ مچا رکھا ہے ـ سؤر میں ایسی ہمّت کہاں کہ؟ میڈیا والوں نے یہ وباء پھیلا رکھی اور خدا کو بھی سوئن فلُو ماسک پہننے پہ مجبور کر دیا ہے ـ

ہمارے ایک مرید، جو ہماری قسطیں پڑھ ہم پہ ایمان لے آئے تھے، سویرے ماسک پہن جاگنگ کو کیا نکلے کہ کتّے بھی اُن کے پیچھے نکل لئے ـ جاگنگ چھوڑ دوڑنا شروع کردیئے، بالآخر کھڈے میں جا گرے ـ وہ باہر نکل نہ پائے کیونکہ کتّے بھی دُم دبائے وہیں انتظار میں بیٹھے تھے ـ جیسے تیسے باہر جو نکلے گھر پہنچتے سوئن فلُو کا ماسک ماتھے پہ پہن آئے کیونکہ آلو جو بن گیا ـ گلی محلّے میں بچّے اور جوانوں نے پوچھا کہ یہ کونسا فیشن ہے؟ مجبورا بولنا پڑا کہ یہ فیشن نہیں بلکہ کتّا فلُو ہے ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی


[ یہ خدا ہے ـ 79 ]

Post a Comment