Saturday, April 28, 2012

پبلک ٹرانسپورٹ

جونہی بس میں چڑھے ہمیں اُتار دیا، دوسری بس میں چڑھے وہاں سے بھی اُتار دیا ـ یوں چڑھتے اُتارتے جیسے عادت بن گئی ـ بس کے اندر لکھا تھا یہاں عورتیں ٹکاتی ہیں دوسری طرف لکھا ہوا تھا یہاں مرد براجمان ہوتے ہیں اب چونکہ ہم خدا ٹھہرے تو کہاں بیٹھے؟

دنیا میں اتنے سارے خدا ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ میں ہم جیسوں کیلئے بھی نشست مختص ہونا ضروری ہے ـ لکھا ہونا چاہئے کہ یہاں پر خدا تشریف رکھتے ہیں ـ ـ ـ ـ مگر کونسے خدا؟ ہندوؤں یا مسلمانوں کے؟ پبلک ٹرانسپورٹ میں سبھی انسان ساتھ بیٹھتے ہیں، ہندوؤں کے بازو میں مسلمان اور مسلمانوں کے بازو میں کرسچین ـ ـ ـ ـ کیونکہ یہ سرکاری بس ہے نہ کہ مذہبی ـ

جس طرح انسان کی زندگی میں کوئی ایک آدھ انجان خدا کا ہونا ضروری مانا جاتا ہے، کسی نے خدا کا نام گلے میں لٹکا رکھا ہے اور کوئی ہاتھ پر ٹٹو چھاپ رکھا ہے کہیں ٹیکسی میں ڈرائیور کے آگے دو انچ کے خدا لٹکے دکھائی دیتے ہیں جو کہ آدھ ننگے بھی ہیں ـ

اوباما کا بھاشن سننے کو کان کھڑے ہوجاتے ہیں، ہماری لاجواب قسطوں میں کسی کو دلچسپی نہیں ـ حالانکہ ہم کھل کر کلام کرتے ہیں، بھلا اس سے اچھا اور پاک صاف انداز کونسی مقدس کتاب میں ہے؟

ہمارے خدا بننے کا کیا قصور؟ جب اتنے سارے خداؤں نے چانس مار لیا تو ہم کیوں نہیں؟ جب ہم چھوٹے تھے، سوچتے رہے جب سُجھائی نہ دیا تو سمجھ گئے کہ ہم خدا ہیں ـ من ہی من میں مُسکرا لئے کہ چلو خدا تو بن گئے ـ مگر کیا فائدہ، جیسا کہ خداؤں کی تعداد اتنی زیادہ ہوچکی کہ اب کسی نئے خدا ہونے کا چانس ہی نہیں! ـ ـ جاری


باقی پھر کبھی


[ یہ خدا ہے ـ 76 ]

Labels: , , , , , , , , , , ,

Post a Comment