Wednesday, May 11, 2011

اسکول ڈے (تیسرا پارٹ)

کلاس روم کی زینت بڑھانے کیلئے خدا نے ہیڈمِس زینت کو بلایا اور شکایت کردی:
بڑے عجیب قسم کے بچے ہیں، ہم پڑھا رہے ہیں اور یہاں دیکھئے سب منہ کھولے سو رہے ہیں ـ
ہیڈمِس زینت نے خدا سے کہا: آپ بچوں کو کچھ ایسا پڑھائیں کہ وہ جاگ جائیں مگر ویسا نہ پڑھائیں کہ بچے سو جائیں ـ
خدا نے کہا: تب تو ٹھیک ہے، ہم بچوں کو کالا جادو بتائیں گے کہ وہ جاگ اُٹھیں ـ
خوفناک کھنکارتے ہوئے خدا نے بچوں کو جگایا پھر اپنی جیب سے جادوئی ڈنڈا نکالا ـ
تو بچو! یہ ہے جادو کا ڈنڈا، اس کو ذرا گھمایا، دیکھو ہم اوباما بن گئے پھر یہ دیکھو اُساما بھی بن گئے ـ اب ہم ڈائناسور کی شکل میں آئیں گے ـ ـ ـ
سب بچوں نے ایک چیخ ہوکر کہا: بس رُک جائیے ـ اگر ہوسکے تو اپنے جادوئی ڈنڈے سے ہماری حساب کی ٹیچر کو غائب کردیں وہ بہت دماغ کھپاتی ہیں ـ

موڈ بنانے کیلئے خدا نے بچوں سے پوچھا: جب تم بڑے ہونگے تو کیا بنو گے؟
سب بچوں نے ایک آواز کہا: امیر ہونگے ـ پھر کار خریدیں گے اُسکے بعد ڈسکو جائیں گے ـ
خدا نے بچوں سے کہا: پھر شری رام سینا کے ڈنڈے بھی کھائیں گے! ہے نا ـ
ایک بچّی نے خدا سے پوچھا: جب آپ بچّے تھے تب بڑے ہوکر کیا ہونے کی سوچتے تھے؟
خدا نے بتایا: ہم ـ ـ ـ سوچتے سوچتے پاگل ہوگئے تھے پھر اچانک خیال آیا تو جھٹ سے خدا بن گئے ـ
خدا نے کہا: آؤ بچو! ہم سب ملکر دعاء کرتے ہیں کہ وزیراعظم منموہن سنگھ جلد صحتیاب ہوں ـ
ایک بچّے نے فورا کہا: آپ رِیتک انکل کیلئے بھی دعاء کریں، فلم کی شوٹنگ کے دوران بیچارے زخمی ہوگئے ـ

فلسطین میں شہید بچوں کی تصویر دکھاکر روتے ہوئے خدا نے کہا: اسرائیل نے ایک اچھا کام کر دیا، اِن بچوں کو بچپن میں ہی مار ڈالا ـ ـ ہائے افسوس اگر وہ بڑے ہوجاتے تو مجاہد ہوتے ـ جہاد کے نعرے لگاکر دنیا کی دوسری قوموں سے نفرت کرتے، خیرات کے پیسوں سے ہتھیار خریدکر تباہیاں مچاتے ـ ـ ـ اچھا ہے وہ فلسطینی بچے بچپن میں ہی مرگئے یعنی اپنی معصومیت کو برقرار رکھتے ہوئے شہید ہوگئے ـ کاش! طالبان، القاعدہ اور دیگر جہادی گروہ کے لوگ بھی بچپن ہی میں مرجاتے ـ

ایک بچّی نے خدا سے پوچھا: کیا میں بڑی ہوکر ڈسکو جاسکتی ہوں؟
خدا نے جواب دیا: ہاں ضرور جاسکتی ہو ـ کیونکہ اِس دنیا میں ڈسکو سے بڑھ کر اور کوئی مقدس جگہ نہیں ـ جہاں خوشیاں ہوں اور موج مستی بھی ہو، بھلا اِس سے بڑی اور کونسی عبادت ہوسکتی ہے!
ڈسکو میں سبھی لوگ آتے ہیں جس طرح سرکاری ٹرانسپورٹ میں سب ایک ساتھ بیٹھتے ہیں ـ سنیما ہال میں بھی ایسا ہی ہے ـ ہوٹل ریسٹورنٹ میں سبھی قسم لوگ آتے ہیں کوئی ٹوپی پہنے کوئی پگڑی، کوئی برقعہ اوڑھے تو کوئی دوپٹہ اور ساڑی ـ ـ ـ یہ عام بات ہے اور عام زندگی بھی جس میں بہت لطف ہے مگر کچھ کٹّر مسلمانوں اور شری رام سینا کے کچھ لوگوں کو یہ عام باتیں اور عام زندگی سمجھ نہیں آتی ـ ـ جاری


باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 71 ]

Post a Comment