Saturday, May 07, 2011

فلسطینیوں سے تازہ خطاب

فتنے فساد اور جلسے جلوسوں کی عظیم مملکت فلسطین کی قوم سے خدا مخاطب ہُوا: واللہ، صدقے جاؤں تمہاری نشانہ بازی پر، تمہاری ہمّت کی داد دینی ہے جو اسرائیلی ٹینکوں پر پتھر مارتے ہو ـ توبہ کیا جگر پایا ہے اپنی جان پہ کھیل کر خودکش دھماکے کرتے ہو، غم یا خوشی میں آسمان کیطرف گولیاں چلانے والی اے قومِ فلسطین، ایک بات بتاؤ دنیا بھر سے ذکات و فطرہ سے سکون پانے کی بجائے کیونکر اپنی جانیں جوکھم میں ڈال رہے ہو؟ تمہارے لئے ہم کیا نصیحت کریں؟ تمہارا دماغ اتنا گرم ہیکہ ہم تمہیں سمجھا بھی نہیں سکتے! توبہ، یہ خون خرابوں کی وراثت کہاں سے پائے ہو، ہمارے نام کا نعرہ لگانے والے اے پتھر پھینک قوم کے لوگوں! خدا سے دشمنی رکھو مگر خدا کیلئے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھو ـ اگر تم صحیح ہوتے تو آج اسرائیل سے زیادہ طاقتور ہوتے، تمہارے اندر اتحاد ہوتا تو آج اسرائیل کا نام و نشان نہ ہوتا ـ تمہاری جہالت یہ کہ تم سب کسی ایک بات پر متفق نہیں جب دیکھو خون میں لَت پَت خدائی نعرے لگاتے پھرتے ہو ـ اپنے پڑوسی ملک سے چھیڑ چھاڑ کو جہاد کا نام دیتے ہو اور خود آپس میں ایسے لڑتے ہو جیسے لنگر لوٹ رہے ہو ـ تمہاری ابتداء بھی خونریز فساد سے ہوا، خدارا کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا اختتام بھی زبردست فساد پر ہو ـ دیکھو باز آجاؤ، جہاد جہاد جہاد کا نعرہ لگاکر آخر تمہارا ہی تو نقصان ہوتا آ رہا ہے، تم لوگوں نے اتنے سالوں میں کبھی سوچا تک نہیں کہ یہ کاہے کا جہاد ہے؟ خود اپنے پیروں پر کلہاڑی پہ کلہاڑی مارے جا رہے ہو! چاروں طرف سے تم گھِر چُکے ہو پھر بھی سینہ تانے واہ کیا شان سے کھڑے ہو، اِس سے پہلے کہ تمہارے لئے ذکات و فطرہ بند کروادیں باز آجاؤ ـ جِیو اور جینے دو، چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے پوری دنیا کو اپنی طرف کیوں متوجہ کر رہے ہو؟ اخبار والے بھی تنگ آچکے، تمہاری خون آلود خبروں کو اب اندرونی صفحات میں بھی شائع کرنے سے بیزار ہیں ـ مانا کہ اسرائیل تمہارے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے مگر تم بھی تو اسرائیل کیلئے بڑے خطرناک ہو ـ رونا دھونا ماتم کرنا آہیں بھرنا پھر جہاد جہاد کے نعرے لگانے سے اچھا ہے اپنے آپ کو اسرائیل سے بڑا طاقتور بن کر دکھاؤ ـ پھر دیکھو ہم اسرائیل کو دعوت دیں گے کہ اب اگر ہمّت ہے تو ذرا قومِ فلسطین سے آنکھ لڑا کے دیکھو! مگر تم فلسطینی پتھر پھینک کر اور خودکش دھماکوں سے کیا خاک جہاد کا نام لے رہے ہو؟ جلسے جلوسوں کے سوا تمہیں کچھ آتا نہیں، اور محنت مزدوری تو کرنے کی ضرورت ہی نہیں دنیا بھر سے امداد جو پاتے ہو ـ آخر کب تک تُکڑوں پر پلتے رہو گے! ذرا تم بھی مدد کرکے دیکھو پھر جانو کہ امداد کیا ہوتی ہے ـ اپنے پُرکھوں کی جہالت پر تم بھی جاہل بنے رہے مگر خدا کیلئے اپنی آنے والی نسلوں میں یہ نفرت سے بھری چنگاریاں ورثے میں نہ دیکر جاؤ ـ خدا نے فرمایا اگر ہم فلسطینی ہوتے تو دیوار پر چڑھ کر بولتے: اے اسرائیلی ہمارا اور تمہارا باپ ایک خدا ہے، تو یہودی ہے تو آخر انسان ہے اور میں فلسطینی پھر بھی ہوں تو انسان ـ آآ تیری اِس بنائی دیوار کو ہم ملکر توڑیں ـ آ مِلجا گَلے، سالوں کے اِس نسلی فساد کو پَل بھر میں ختم کردیں ـ ہم نے آپس میں ایکدوسرے کا بہت خون بہایا، تعصب کیوجہ سے ایکدوسرے کے معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشا ـ اگر آج ہم ایک نہیں ہوپائے تو ہماری نسلیں صدیوں تک یونہی خون میں لَت پَت ایکدوسرے کے خلاف نعرے لگاتی رہیں گی ـ آ میرے اسرائیلی بھائی مجھ فلسطینی کو اپنا بھائی مان کر گلے لگالے ـ دیوار پر چڑھ تو گیا اب کیسے اُتروں؟ جمپ ماروں تو اپنی گودی میں اُٹھا لے ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی
 
[ یہ خدا ہے ـ 51 ]

Post a Comment