نئی باتیں / نئی سوچ

Thursday, April 28, 2005

منفرد بلاگ

پچھلے دس سالوں سے گرافک کے میدان میں سانس لے رہا ہوں اور یہ دس سال ایسا لگ رہا ہے جیسے پیدائشی گرافک ڈیزائنر ہوں ـ اسکول اور کالج میں ساتھ پڑھنے والے دوست آج پروگرامر، انجینئر اور باقی آئی ٹی کے میدان میں گھس کر خوب گل کھلا رہے ہیں جبکہ میں نے گرافک اور ملٹی میڈیا کو اپنالیا ـ عرصہ دراز سے بلاگ سے واقف تھا ہی مگر میرے لئے ضرورت محسوس نہیں ہوئی کیونکہ اسوقت بلاگنگ کیلئے ذاتی ویب سائٹ کا ہونا ضروری تھا مگر اب تو بلاگ بنانا مفت اور آسان ہوچکا ہے ـ فی الحال خیال آیا بلاگر پر اپنے بلاگ کیلئے ٹمپلیٹ بنایا جائے، بلاگر پر ٹمپلیٹ میرے لئے مشکل کام تھا مگر تجربہ کامیاب رہا ـ پروگرامنگ کیلئے شروع سے چڑ ہے اور HTML سر درد جیسا ہے ـ اردو بلاگ شروع کرنے کا شوق اسلئے آیا کہ اب اردو کو یونیکوڈ کے ذریعہ انٹرنیٹ پر لکھا جاسکتا ہے ـ شروع میں بلاگنگ کا مقصد کچھ نہیں تھا مگر اب مقصد صرف یہی ہے کہ یہ بلاگ میری آن لائن ڈائری ہے اسکے ساتھ اپنی سوچ اور خیالات کو لکھ کر محفوظ رکھ سکوں ـ اردو میں بلاگ اسلئے بھی کہ میرے تمام قریبی دوستوں اور جان پہچان والوں کو اردو پڑھنا نہیں آتا ورنہ وہ میری تحریریں پڑھ کر مجھے غلط سمجھیں گے حالاں کہ میرے بلاگ پر سے اردو دانوں کا گذر ہوتا ہے پھر بھی مطمئن ہوں کیونکہ اس بلاگ پر اکثر تحریریں ایسی ہیں جیسے میں خود سے باتیں کر رہا ہوں یا پھر اپنے بلاگ سے مخاطب ہوں ـ میری تحریروں میں اکثر روز مرّہ اور ذاتی خیالات ہوتے ہیں جبکہ دوسرے اردو بلاگس کی تحریریں معیاری اور معلومات سے بھرپور ہوتی ہیں اسلئے میرا بلاگ تمام دوسرے اردو بلاگس میں منفرد بلاگ ہے ـ
Blogger Nabeel said...

شعیب میاں ، ایسی بات کیوں کرتے، تمہارے بلاگ سے ہمیں دبئی کے حالات کا پتا چلتا رہتا ہے اور بہت سی نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ تم نے گرافکس سے متعلق بھی کئی ٹیوٹوریل پوسٹ کئے ہیں۔ آج کل تم ذرا کم لکھ رہے ہو۔ کیا بات ہے کیا کچھ زیادہ مصروفیت ہو گئی ہے؟

May 02, 2005 2:36 PM  
Anonymous Anonymous said...

Dear NABEEL thanks for your care, during this week i am too bussy for garment designing. thanx again.

May 07, 2005 10:48 PM  

Post a Comment

Monday, April 18, 2005

لکّی نمبر

پچھلے ہفتے ایک نئے برانڈ ’’ورری‘‘ جو فرانس کا ہے، ہماری کمپنی نے بڑے پیمانے پر فیشن شو منعقد کیا ـ دفتر میں ہی سارا کام ختم کرکے فیشن شو کے دو داخلہ پاس لئے اور دوست کو لیکر Corel Beach Resort (فائیو اسٹار ہوٹل) پہنچا ـ داخلہ پاس کے ساتھ Lucky ڈرا کوپن بھی شامل تھے، نام لکھ کر کوپن جمع کروا دیا ـ کمپنی مالکان کی نظروں سے دور رہے تاکہ قریب بلاکر کسی کام پر نہ لگوادیں، پیچھے دوستوں کے درمیان جاکر بیٹھ گئے ـ فیشن شو زبردست رہا، ہمارے مارکیٹنگ منیجرس بھی پتہ نہیں کہاں کہاں سے چھانٹ کر ماڈلز پکڑ لاتے ہیں ـ لکّی ڈرا کا اعلان ہوا، خوش نصیب کا نام سننے سینکڑوں کان کھڑے ہوگئے ـ گرررر ـ ناچیز کا نام نکل آیا ـ ـ انگلیاں خود بخود دانتوں میں پس گئیں، جی چاہا بھاگ نکلیں ـ اسٹیج کے برابر کمپنی کے مالکان براجمان تھے اور یہ فیشن شو امیر ترین اور اونچی سوسائٹی والوں کیلئے تھا ہم تو اسٹیج کے پیچھے کام کرنے والے لوگ ہیں ـ انتظامات دوسری کمپنیوں نے کئے تھے اسلئے داخلہ پاس ضروری تھا ـ لکّی ڈرا کوپن تو ایک فیصد بھی خیال نہ رہا کہ بدنصیب کا ہی نام نکل آئے گا ـ ایک شریر نے کھینچتے ہوئے اسٹیج پر لا چھوڑا ـ بہت سارے Gifts کیساتھ مبارکبادیاں وصول ہوئیں پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا ـ کمپنی کے ساتھی دور کھڑے پھٹی نظروں سے دیکھ رہے تھے اور ہمارے مالکان نوکیلے دانت دکھا رہے تھے ـ جناب کے طوطے اڑگئے اور پیر بھی ڈگمانے لگے ـ
Anonymous Anonymous said...

:0 ;)

April 20, 2005 11:37 PM  
Blogger Shoiab Safdar Ghumman said...

اسے کہتے ہیں برا ہوا؟؟؟؟ شاید

April 21, 2005 4:09 PM  
Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

طوطے ہاتھوں کے اڑا کرتے ہیں۔ اللہ نہ کر کہ آپ کے طوطے اڑیں۔ ویسے اگر آپ کالا شاہ کاکو رہتے ہوتے تو بات کچھ سمجھ میں آ جاتی۔ ہر چیز سے آزاد شہر میں رہ کر اتنا خوف کیوں ؟

April 26, 2005 4:16 PM  

Post a Comment

Apple

پرنٹ انڈسٹری میں اکثر ایپل میکنٹوش کا رواج ہے لیکن چھوٹی انڈسٹریاں Mac سسٹم خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتیں مگر کیا بات ہے ہماری ملٹی نیشنل کمپنی جس کے تقریبا ایک سو سے زیادہ شورومس پورے مڈل ایسٹ میں پھیلے ہوئے ہیں اور تقریبا پانچ لاکھ درھم روزانہ آمدنی ہوتی ہے ـ جب اپنے مالک سے ایپل میکنٹوش کی فرمائش کیا تو آئی ٹی منیجر سے کوٹیشن دریافت ہوا اور جب قیمت کا پتہ چلا تو مالک چکرا گیا ـ مجھ سے پوچھا: کیا PC میں جو کام ہوتا ہے وہ کافی نہیں ہے ـ میں نے بہتر سمجھانے کی کوشش کی کہ جسطرح دفتر میں لنگی پہن کر آنا اچھی بات نہیں حالاں کہ لنگی پہن کر کام کیا جاسکتا ہے ـ اسی طرح گرافک کے سارے کام میکنٹوش پر ہی اچھے لگتے ہیں اور یہ سسٹم گرافک کیلئے بطور خاص ہے ـ مالک عربی، سارے ڈیپارٹمنٹس کے چیف عربی یہاں تک کہ آئی ٹی منیجر بھی عربی اور عربیوں کی عقل موٹی ہوتی ہے ـ انڈیا میں گرافک کیلئے زیادہ تر ایپل میکنٹوش کا رواج ہے ـ

Post a Comment

بڑا میٹرکس

Post a Comment

Tuesday, April 12, 2005

پچھلے مہینے

دبئی میں ہندوستانی ٹیلیویژن چینلوں پر اطلاع دیجا رہی تھی کہ اب سے ٹھیک دو گھنٹے بعد جنوب ایشیاء میں پھر ایک بار سونامی نما زلزلہ ہوگا ـ ٹی وی پر یہ بھی دکھایا گیا کہ جنگی پیمانے پر جنوب ہند کے ساحلوں کے قریب تمام علاقے خالی کروائے جارہے تھے اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا تھا ـ پہلے تو اس عجیب پیشن گوئی پر تعجب ہوا، پھر رات ایک بجے تک اس انتظار سے کہ شاید ٹیلیویژن پر لائیو زلزلہ دیکھ پاؤں ـ صرف یہی اطلاع مل رہی تھی کہ زلزلہ ہونے والا ہے یا ہوگا ـ انتظار میں نیند بھی آگئی ـ جب صبح اٹھ کر سب سے پہلے اخبار دیکھا سماٹرا، میڈیا کی رپورٹوں میں بتایا گیا تقریبا چار ہزار لوگ ٢ء٨ ریکٹر اسکیل کی دہشت سے ہلاک ہوگئے اور جنوب ہند میں بھی زلزلے کے خفیف جھٹکے محسوس کئے ـ سائنسدانوں کی داد دینی چاہئے جنہوں نے کم از کم زلزلہ ہونے سے پہلے انتباہ کردیا تھا ـ یہ سائنس کی ترقی ہے جو اب بتاسکتے ہیں کہ آج زلزلہ ہوگا، اور کہاں ہوگا یہ بھی معلوم ہے ـ

posted by Shuaib at 11:21 PM 0 comments

Post a Comment

مسلم ملک

ابھی ایک سال پہلے تک اپنے ذہن میں یہی خیال تھا کہ پاکستان اسلامی اصولوں پر چلنے والا ملک ہے جہاں پر ناچ گانے، فلم، ٹی وی یہاں تک کہ ریڈیو پر بھی موسیقی نشر نہیں ہوتی ہوگی ـ ہماری کمپنی میں مختلف ملکوں کے لوگ کام کر رہے ہیں الیاس اور ناصر دونوں پاکستانی ملنسار اور بڑے اچھے دوست ہیں، انہی سے معلوم ہوا کہ پاکستان بھی عام ملکوں جیسا ہے اور سعودی عرب واحد ملک ہے جو اسلام پر پوری طرح پابند ہے ـ صرف دو سال پہلے تک یہی تصور کرتا تھا کہ تمام مسلم ملکوں میں سعودی عرب جیسا قانون ہوتا ہوگا ـ

posted by Shuaib at 11:15 PM 0 comments

Post a Comment

ستاروں سے پیچھے

posted by Shuaib at 11:12 PM 1 comments

Blogger Shoiab Safdar Ghumman said...

ستاروں سے آگے تو سنا تھا مگر یہ ستاروں سے پیچھے کیا ہے ؟

April 14, 2005 7:12 PM  

Post a Comment

Friday, April 08, 2005

ہاں جی!

اپنے بلاگ سے مخاطب ہوں ـ پچھلے تین دنوں سے تجھے سجانے سنوارنے میں جو دقتیں اور مشکلیں پیش آئیں بیان سے باہر ہے ـ کسی صاحب کے انگریزی بلاگ پر، جن کا ٹمپلیٹ بہت ہی خوبصورت تھا اپنے ناپاک ارادوں سے ان کے ٹمپلیٹ کو پاکی صفائی کیساتھ اپنے بلاگ کے ٹمپلیٹ میں اتارلیا اور جب اپنا اردو بلاگ کھولا تو جو شکل نظر آئی جیسے ایک بھیانک خواب تھا ـ پروگرامنگ کی الف ب تک نہیں جانتا اور چلا بلاگ کے کپڑے (ٹمپلیٹ) بدلنے ـ پچھلی تین راتیں جو سائبر کیفے میں گذار دیں ، سائبر کیفے کا مالک بھی رعایت دینے لگا اور چائے بھی پلائی ـ انٹرنیٹ پر وقت صرف ہوا روپئے خرچ ہوئے مگر چوری سے لایا گیا ٹمپلیٹ اپنے اردو بلاگ پر صحیح نظر نہیں آرہا ـ ایک دن ہمارے دوست نے کہا تھا کہ چلو تمہیں ایچ ٹی ایم ایل کے کچھ گن سکھادوں تب میں نے کہا جاؤ بھئی ہم گرافک سیکھ کر کچھ گل نہیں کھلاسکے اب ایچ ٹی ایم ایل سیکھ کر کیا کروں ـ کل ہمارے دوست کی بہت آئی، کتنا اچھا مفت آفر دیا تھا کہ مجھے ایچ ٹی ایم ایل سکھا دیں گے اور میں نے ٹھکرا دیا تھا ـ دوسروں کے ٹمپلیٹ بہت اچھے لگتے ہیں اور انہی (چوری) کے ٹمپلیٹ کو جب اپنے اردو بلاگ پر اتاروں تو بغلیں جھانکنے کو دل کرتا ہے ـ بلاگ بنالیا یہی ایک بڑی کامیابی ہے اور یہ بھی دوسرے بلاگرس کو دیکھ کر سیکھا ـ یہ اردو بلاگ میرا منہ چڑا رہا تھا جب اسکو جیسا تھا ویسا چھوڑ آیا جیسے کہہ رہا ہو ’’شعیب زیادہ چالاکی نہ کر، کیونکہ تو ایچ ٹی ایم ایل کی الف ب تک نہیں جانتا‘‘ ـ

posted by Shuaib at 6:48 PM 3 comments

Blogger Shoiab Safdar Ghumman said...

ٓٓآپ کے بلاگ کا یہ ٹمپلیٹ ہی کافی اچھا اور سادہ پے کیا ضرورت ہے تبدیلی کی؟

April 09, 2005 8:18 PM  
Blogger Unknown said...

بہت اچھا ٹمپلیٹ ہے

April 11, 2005 1:39 PM  
Blogger Unknown said...

بہت اچھا ٹمپلیٹ ہے

April 11, 2005 1:39 PM  

Post a Comment

گوگل کا بلاگر

ایم ایس این کا فری اسپیس بھی کچھ کم نہیں، شروع میں کچھ دقتیں پیش آئیں اور محسوس کیا گوگل کیجانب سے عنایت کردہ بلاگر کافی بہتر ہے ـ چند دنوں کیلئے ایم ایس این کے ویب لاگ کو بھول ہی گیا مگر جب دوبارہ اسے پرکھنا شروع کیا تو کچھ بہتر پایا ـ چند ایسی باتیں ہیں جو گوگل کے بلاگر میں موجود نہیں اور ایم ایس این کے فری اسپیس میں کئی سہولتیں دستیاب ہیں ـ آخر میں ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ بلاگ لکھنے والے ایچ ٹی ایم ایل اور تھوڑا بہت جاوا کا استعمال کرتے ہوئے بلاگ کا استعمال کرتے ہیں سب سے خاص بات اپنی من مانی بھی کرسکتے ہیں مگر فری اسپیس میں من مانی جیسی سہولت نظر نہیں آتی ـ انٹرنیٹ پر کئی کمپنیاں ویب لاگ کی سہولت مہیا کر رہے ہیں مگر گوگل کا بلاگر سب سے مختلف اور آسان لگتا ہے ـ

posted by Shuaib at 6:47 PM 0 comments

Post a Comment

Tuesday, April 05, 2005

اردو کانفرنس ـ اسلام آباد

کالم نویس ـ زبیر رضوی
’’گذشتہ ماہ عالمی اردو کانفرنس میں ’ہندوستان میں اردو‘ کے حالات پر بھی گفتگو ہوئی، جہاں اس کالم نویس کو مدعو کیا گیا تھا، زیر نظر مضمون ایک طرح سے وہاں کی رواداد ہے
‘‘

پا کستان کی راجدھانی اسلام آباد میں ٩ مارچ سے ٣١ مارچ تک پانچ روزہ عالمی اردو کانفرنس کے مختلف اجلاسوں اور مباحثوں میں جو راگ بڑی حاوی رہی وہ یہ تھی کہ پاکستان میں اردو بھلے ہی رابطے کی زبان ہے مگر اتنے برس گزرنے کے بعد بھی اسے سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا جاسکا ـ آج مرکزی سرکار کا تمام کام کاج انگریزی میں ہوتا ہے اور انگریزی کو پاکستانی معاشرے میں پہلے سے بہت زیادہ فروغ حاصل ہو رہا ہے ـ انگریزی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی ایک کھلی ہوئی وجہ یہ بیان کی گئی کہ ہندوستان کے ٹی وی چینلوں کی مقبولیت اور ان میں استعمال ہونے والی ملی جلی ہندی، انگریزی زبان اور لہجے نے پاکستان کی نئی نسل کا لہجہ اور کلچر ہی بدل دیا ہے ـ اس سلسلہ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ مغربی طرز کے جس کلچر نے ہندوستانی نسل کو متاثر کیا اب وہی کلچر بھارتیہ فیوژن کے ساتھ پاکستانی نسل کو ’’رول ماڈل‘‘ کے طور پر متاثر کر رہا ہے ـ بظاہر اس کانفرنس کی میزبانی کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سپرد تھی اسے اردو روز نامہ جنگ اور اس کے ٹی وی چینل ’’جیو‘‘ کی میڈیا تعاون بھی حاصل تھا ـ اس تعاون کے باعث کانفرنس کے اجلاسوں میں تو کم مگر اس کے ثقافتی پروگراموں میں عوام کی شرکت امڈ پڑنے والی تھی ـ یہ پہلی اردو کانفرنس تھی جس میں اردو کے حوالے سے فنون لطیفہ اور مختلف ثقافتی پہلوؤں کو بڑی خوبی سے مربوط کیا گیا تھا مثلا اردو دسترخوان، اردو فیشن شو، اور اردو سنگیت اور تھیٹر، اردو کلاسک سے اقتباسات کی ڈرامائی پیشکش، غالب، اقبال اور فیض تین عہد ساز شاعر پورے ایک دن کے اجلاس کا موضوع تھا، جس میں آفتاب احمد، ڈاکٹر جاوید اقبال اور لدمیلا واسیلووا نے اپنے مقالے پڑھے اور بعد میں ان کے کلام کی کئی انداز سے پیشکش کی گئی ـ اس کانفرنس کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ اس میں ہمارے ملک کی کانفرنسوں کے برخلاف ادیبوں کی تعداد زیادہ تھی سیاسی اور اردو کے فروغ کے دوسرے دعویداروں کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی ـ

اسلام آباد، اس شہر کو ادبی اور ثقافتی پہچان دینے کی کوشش تو کی مگر لاہور اور کراچی والے اردو کے خزانے کو اسلام آباد منتقل کرنے کے لئے ابھی آمادہ نہ تھے ـ دلیل یہ تھی کہ اسلام آباد اردو لکچر سے کہیں زیادہ مغربی طرز کے نوکر شاہی لکچر کا نمائندہ ہے بھلے ہی یہ شہر جنوبی ایشیاء کی منصوبہ بند تعمیرات کے فن سے مالا مال تو ہے اور وہاں ضیا جالندھری، احمد فراز منشا یا رشید امجد، خالد حسن افتخار عارف، مظہر الاسلام جیسے شاعر، افسانہ نگار آباد ہیں مگر اردو اپنے تمام تر حسن و جمال اور نئی رعنائیوں کے ساتھ لاہور اور کراچی ہی میں پھل پھول رہی ہے ـ بزرگ شاعر احمد ندیم قاسمی کا ہفتہ وار کالم کانفرنس کے دوران سرفہرست تھا کیونکہ قاسمی صاحب کو کانفرنس کا اختتام کرنا تھا ـ پہلے دن ان کے بجائے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کا طنز و مزاح سے بھر پور خطبہ استقبالیہ تھا جس میں پاکستانی سیاست، معاشرے اور نوکر شاہی کے کئی پہلوؤں کو ہدف بنایا گیا تھا ـ یوسفی داد سے بے نیاز اپنے مخصوص انداز میں اپنی تحریر پڑھتے جاتے اور پھر تالیاں بجانے کا موقع دینے کے لئے رک بھی جاتے تھے ـ

ہماری مراد اس وقت برآئی جب ہمیں یہ خبر سنائی گئی کہ صدر پرویز مشرف نے کانفرنس میں شرکت کرنے والے غیر ملکی مندوبین سے ایوان صدر میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہے ـ کوئی دو گھنٹے کے انتظار کے بعد صدر سے ہاتھ ملاکر اپنی جگہ بیٹھے تو پھر وہ ستر منٹ تک باتیں کرتے رہے ـ صدر مشرف نے کہا کہ اردو کو پاکستان میں سرکاری زبان کا درجہ ملنا چاہئے، دونوں ملکوں کے درمیان ادب، کتاب اور افکار و خیال کا آزادانہ تبادلہ ہونا چاہئے، طالب علموں اور ریسرچ اسکالرس کو ایک دوسرے کی یونیورسٹیوں میں داخلے کی سہولت ملنی چاہئے ـ صدر نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی پر کچھ اس انداز سے اپنی بات کہی کہ لگا اس بار وہ ہر رکاوٹ کو دور کرنے پر تلے ہیں ـ انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ ٹکراؤ اور تصادم بہت ہوچکا اب ہمیں کبھی کرکٹ اور کبھی اردو کانفرنس اور کبھی دوسرے عوامی رشتوں کے حوالے سے قریب آنا ہے ـ انہوں نے ڈیوڈ میتھوز، کرسٹینا جیسے غیر اردو معاشرے سے تعلق رکھنے والے اردو استادوں کو اپنی حکومت اور پاکستانی اردو اداروں سے ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا ـ

کانفرنس کے دوران اس اعتراف کی گونج کئی بار سنائی دی کہ تقسیم ملک سے جہاں ہزاروں خاندان اجڑ گئے اور انہیں تہذیبی اور معاشرتی سطح پر بہت کچھ کھونا پڑا اردو پر بھی برا وقت آیا اور اسے کئی برسوں تک منقسم ہندوستان میں اپنی کھوئی ہوئی پہچان اور لسانی شہریت کو منوانے کے لئے بڑی جدوجہد کرنی پڑی لیکن پاکستانی باشندوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو کانا پھوسی کے انداز میں پوچھتے تھے کہ کیا واقعی اردو بھارت میں ختم ہوگئی؟ اردو کانفرنس میں ہندوستانی وفد کی شرکت، ان کے مضامین اور گفتگو نے بڑی حد تک ہندوستان میں اردو کے خاتمے کے تاثر کو

جھٹلایا ـ

شکریہ روزنامہ انقلاب ممبئی ـ کالم نویس زبیر رضوی

posted by Shuaib at 10:36 PM 3 comments

Blogger Nabeel said...

Dear Shuaib

Thank you for posting such informative material.

April 06, 2005 5:21 PM  
Anonymous Anonymous said...

You are welcome Mr. Nabeel

April 07, 2005 10:43 AM  
Blogger Shuaib said...

My blog is under construction

April 07, 2005 9:59 PM  

Post a Comment

جاپان میں اردو

گذشتہ دنوں ٹوکیو سے ایک ایسا مہمان ممبئی آیا ہوا تھا جسے ٹوکیو یونیورسٹی اور اس یونیورسٹی کے شعبہ ’فارین لینگویجز (اردو) سے وابستہ ہونے کی سعادت حاصل ہے ـ اس مہمان کا نام ہے ناکامورا مایوکو، جاپان کے قصبہ اشکوہ، جو ٹوکیو سے قریب ہی واقع ہے، سے تعلق رکھنے والی اس ٢٠ سالہ طالبہ کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی سادہ مزاجی اور جھک کر آداب کہنے کی خوبصورت ادا نہیں بلکہ اردو دانی ہے ـ وہ جب اردو بولتی ہے تو اسے لقمہ نہیں دینا پڑتا اور کوئی لفظ سمجھانا نہیں پڑتا ـ ناکامورا، اردو میں کسی دوسری زبان کے الفاظ کا سہارا بھی نہیں لیتی، اس کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ وہ انگریزی جاننے کی حد تک ہی جانتی ہے ـ صحیح معنوں میں اگر وہ کوئی زبان جانتی ہے تو اس کی اپنی زبان جاپانی ہے یا پھر اردو ـ ناکامورا مایوکو، ٹوکیو یونیورسٹی میں ایم اے کی طالبہ ہیں اور ’’حیدرآباد میں اردو ـ کل اور آج‘‘ کے وسیع تر موضوع پر مقالہ لکھ رہی ہیں ـ اپنے اس مقالے میں انہیں نظام کے دور کی اردو اور آج کے حیدرآباد کی اردو کا تقابلی جائزہ پیش کرنا ہے ـ ریسرچ کے اسی مقصد کے تحت وہ ہندوستان آئیں اور واپسی میں چند روز ممبئی میں قیام کیا ـ اسی دوران انہوں نے دفتر انقلاب کا دورہ بھی کیا اور انقلاب کے ادارتی عملے سے ملاقات کی ـ آپ نے اردو کا انتخاب کیوں کیا؟ اس سوال کے جواب میں ناکامورا مسکراتے ہوئے کہنے لگیں ’’کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جس نے مجھ سے یہ سوال نہ کیا ہو ـ دراصل مجھے ایشیائی زبانوں اور تہذیبوں سے دلچسپی تھی، ان میں کسی ایک زبان یا تہذیب کا انتخاب کرنا تھا ـ میں نے مختلف زبانوں کے نام سن رکھے تھے لیکن اردو کا نام میرے لئے نیا تھا ـ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس نئی زبان سے وابستہ ہوا جائے ـ یہی وجہ تھی جو میں نے اردو کا انتخاب کیا‘‘ ـ اردو کیسی لگتی ہے آپ کو ـ یہ سوال سن کر ناکامورا کی چمک جاگتی ہے اور وہ اپنے مخصوص انداز میں کہتی ہیں ’’بہت شیریں زباں ہے‘‘ ـ یہ جاپانی طالبہ ’’زبان‘‘ نہیں بلکہ ’’زباں‘‘ کہتی ہے ـ اس کا تلفظ اتنا صاف ہے کہ بہت سے اردو والے بھی اس کے سامنے پانی بھرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ـ وہ اہل ہندی اور اہل اردو کے درمیان تلفظ کے فرق سے بھی بخوبی واقف ہے، اسی لئے دوران گفتگو کہنے لگی ’’کئی ہندی والے خوبصورت کو ’’کھوبصورت‘‘ بولتے ہیں‘‘ ـ یہ جان لینے کے بعد کہ ناکامورا نے اردو کا انتخاب کیوں کیا، ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ ہندوستان ہی کیوں آئیں، پاکستان بھی تو جاسکتی تھیں ـ بقول ناکامورا ’’ہمارے یہاں کے بہت سے طلبہ اردو کے سلسلے میں پاکستان جایا کرتے تھے، میں نے سوچا کہ کیوں نہ ہندوستان جاؤں جہاں اکثر طلبہ نہیں جاتے ـ اس کے علاوہ میرا موضوع چونکہ حیدرآباد سے متعلق تھا اس لئے بھی مجھے یہیں آنا تھا‘‘ ـ ناکامورا نے بنیادی اردو ٢ سال میں سیکھی اور پھر آہستہ آہستہ اس کے رموز و نکات سے آگاہی حاصل کرتی گئیں ـ جس طرح اس کا تلفظ صاف ہے اسی طرح اس کی تحریر شفاف ہے ـ ناکامورا سے گفتگو کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ جاپان میں اردو زبان کی تعلیم کی بنیاد ١٩٠٨ میں ڈالی گئی تھی اور اس کے موجد ہندوستان کے مشہور انقلابی رہنما مولوی برکت اللہ بھوپالی تھے البتہ جاپانی پروفیسر آرگامو نے اس کی تدریس کے شعبے کو اس قدر استحکام اور وسعت بخشی کہ وہ حقیقی معنوں میں وہاں کے ’’بابائے اردو‘‘ کہلائے اور اس ضمن میں گذشتہ نسل کی نمائندگی کرتے رہے ـ ان کے بعد کے دور میں اس منصب پر ان کے شاگرد پروفیسر سوزوکی تاکیشی نے اردو زبان کی تدریس و تعلیم کو وسعت دی ـ اردو سیکھ لینے سے اپنے کیریئر میں ناکامورا کو کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ یہ پوچھنے پر اس طالبہ نے ایک ایسی بات بتائی جو کم از کم ہندوستان کے لئے نئی ہے ـ اس نے کہا کہ ’’جاپان میں ’جیسی تعلیم ویسا کام‘ کا فارمولہ رائج نہیں ہے بلکہ ’جیسا کام ویسی تربیت‘ کے ضابطے کے مطابق کام ہوتا ہے ـ میری ہی مثال، میرا انتخاب بی اے یا ایم اے کی بنیاد پر ہوگا اور جس نوعیت کے کام کے لئے ہوگا اس کی علاحدہ ٹریننگ دی جائے گی ـ یہ الگ بات ہے کہ میں اردو سے وابستہ رہنے کے لئے کوئی ایسا کام کروں جو اردو سے متعلق ہو ـ مثال کے طور پر میں تحقیق کے اداروں میں کام کرسکتی ہوں، بحیثیت پارٹ ٹائم لیکچرر اردو پڑھانے پر مامور کی جاسکتی ہوں یا پھر ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اردو شعبوں سے وابستہ ہوسکتی ہوں‘‘ ـ کیا جاپانی ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اردو سروس ہے؟ ناکامورا نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کی اردو آبادی (جو ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں پر مشتمل ہے) کے لئے اردو سروس کا باقاعدہ اہتمام ہے ـ جب ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اردو سیکھنے پر والدین کی جانب سے کوئی اعتراض کیا گیا تھا، تو ناکامورا نے بتایا ’’ہمارے یہاں یہ فیصلہ کہ بچہ کیا پڑھے، کیا نہ پڑھے والدین نہیں کرتے ـ طالب علم خود یہ فیصلہ کرتا ہے‘‘ ـ
اردو کی اس طالبہ سے بذریعہ ای میل رابطہ mayuko@sannet.net.jp
پتہ Nakamura Mayuko, Dept of South & West Asian Studies, Tokyo University of Foreign Studies, Japan شکریہ روز نامہ انقلاب

posted by Shuaib at 9:39 PM 2 comments

Blogger Shoiab Safdar Ghumman said...

bhi io kia huwa hai blog ko?????

April 06, 2005 8:37 AM  
Blogger namaste said...

ہاں، انہیں جانتا ہوں۔
بالکل اچھی اردو آتی ہے انہیں۔

لیکن ایک بات جوڑ دوں تو، ان کی یونورسٹی، جو میری بھی تھی، "ٹوکیو یونورسٹی" سے الگ-تھلگ ہے۔
نام تو "ٹوکیو یونورسٹی" کا شعبہ جیسا ہے، مگر ایسا نہیں۔

April 07, 2005 4:00 PM  

Post a Comment

بچہ میٹرکس

image by shuaib

posted by Shuaib at 12:59 AM 0 comments

Post a Comment

Friday, April 01, 2005

امام صاحبہ

خاتون کی امامت کے بارے میں پڑھ کر خوشی ہوئی حالاں کہ کئی مہذّب لوگوں کو دھچکا پہنچا ساتھ ہی اخبارات کو بھی ایک نیا موضوع مل گیا ـ عورت کی امامت کونسے تعجب کی بات ہے ـ عورت، جسے دنیا کا ہر معاشرہ عزت کرتا ہے ’’لیڈس فرسٹ‘‘ عورت پائلٹ ہے، سیاستدان ہے اور ملک کی حکمران بھی ـ عورت نے معاشرے میں ہر جگہ اپنا مقام بنالیا اور اب امامت کا مقام بھی پالیا ـ

تبصرہ

خدا نہ کرے کسی کی محبوبہ امام صاحبہ ہو اور محبوب مؤذن ـ عبادت گذار وقت سے پہلے عبادتگاہ پہنچ جائیں گے، پھر مستورات کیلئے پردے کے انتظام کو غیر ضروری قرار دیا جائے گا، برابری چاہنے والی عورتیں جلوسِ جنازہ میں شرکت کرتے ہوئے کندھا بھی دیں گی ـ عورتیں نکاح پڑھائیں گی، خوبصورت معلّمہ سے نکاح پڑھوانا نیک شگون سمجھا جائیگا ـ پھر علما اور معلّمائیں رائے مشورے کیلئے آپس میں جڑ کر بیٹھیں گے، نہ چاہتے ہوئے بھی ہر کوئی عبادت کا شوق لائیں گے ـ پھر بالآخر خوشیوں کے دن ایکدوسرے سے ملکر کر شکوے دور کریں گے، کسی کے بیچ پردہ نہ ہوگا ـ اسی بہانے مختلف فرقے آپس میں سب ایک ہوجائیں گے ـ کاش ایسا ہو ـ

posted by Shuaib at 10:06 AM 6 comments

Anonymous Anonymous said...

Salam.... please tell me which software you are using for this urdu blog.

April 02, 2005 1:33 PM  
Anonymous Anonymous said...

Hi, please tell me which software you are using for urdu typing

April 02, 2005 7:47 PM  
Blogger Danial said...

how cute :)

April 03, 2005 5:35 AM  
Anonymous Anonymous said...

Give me your Email i will tell you about the Unicode software (urdu Unicode)

April 04, 2005 1:05 PM  
Anonymous Anonymous said...

Yes Danial bhai, Zabardast ;)

April 04, 2005 1:07 PM  
Anonymous Anonymous said...

maaf kerna shuaib bhai magar islam mein aurat ki imamat ki ijazat nahin ... hum ko divine rules mein apni tang nahi arrani chahiyay ...

April 13, 2005 5:40 PM  

Post a Comment

مختلف انداز

image by shuaib

posted by Shuaib at 10:03 AM 0 comments

Post a Comment

موٹو

Shuaib motoپرانے فلیٹ میں اکثر سوچتا رہتا، کاش یہاں پارک ہوتا تاکہ روز شام کو ورزش کے ذریعہ موٹاپا کم کرلیا جائے ـ اب یہاں نئے فلیٹ میں شفٹ ہوئے پانچ ماہ سے زیادہ ہوگیا اور بلڈنگ کے سامنے ہی صرف دس قدم پر ایک خوبصورت پارک بھی ہے ـ جوش میں آکر اسپورٹس ویئر بھی خرید لایا تاکہ روز شام کو دوڑ لگاؤں اور دوست احباب ’’شعیب موٹو‘‘ کے بجائے صرف شعیب پکاریں ـ سستی اور کاہلی کی وجہ سے ابھی تک ورزشیں شروع نہیں ہوئیں ـ پچھلے مہینے سے روزانہ رات کو لبنانی پتزا پر گذارا ہو رہا ہے، اس علاقے میں کھانے کیلئے ایسی ہی (چیز) بھری غذائیں ملتی ہیں ـ اب تو آفس میں شعیب کو کوئی نہیں جانتا، موٹو کے نام سے سب پہچانتے ہیں ـ

posted by Shuaib at 9:50 AM 3 comments

Blogger Shoiab Safdar Ghumman said...

This comment has been removed by a blog administrator.

April 02, 2005 8:33 AM  
Blogger Shoiab Safdar Ghumman said...

ارے شعیب صاحب ورزش شروع کر دو باتیں مت کرو صرف اب میں آپ کو موٹو نہیں کہو گا مگر میں توپہلے بھی نہیں کہتا تھا

April 02, 2005 8:35 AM  
Anonymous Anonymous said...

شعیب صفدر صاحب، مشورہ دینے کا شکریہ اور امید کرتا ہوں کہ آگے بھی مجھے موٹو نہ کہیں گے ـ

April 02, 2005 1:23 PM  

Post a Comment

ہندوستان سے پہلا اُردو بلاگ
First Urdu Blog from India

IndiBlogger - The Largest Indian Blogger Community

حالیہ تحریریں

سویتا بھابی کا وال اچھا
تو میرا خدا میں تیرا خدا
دھونڈو تو خدا بھی مل جائے
مصروفیت
معلوماتِ خداوندی
2 اکتوبر، گاندھی جینتی کے موقع پر خاص پوسٹ
رام کہانی ـ رحیم کی زبانی
میرے چاند کے تکڑے
اس بلاگ پر اگلی پوسٹ

Hindi Blog

Urdu Graphic Blog

Motion Blog

Powered by ShoutJax

Counters