نئی باتیں / نئی سوچ

Sunday, June 25, 2006

اِن سے ملو ـ 18

یہ خدا ہے

آج پھر عراق میں چالیس انسانوں کے سر کاٹ دیئے جس پر خدا نے شکریہ ادا کرتے ہوئے امریکہ سے فرمایا: اچھا کیا عراقیوں کو آپس میں لڑوا دیا ورنہ کب تک خدا اپنا عذاب خرچ کرے!؟ ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

Blogger नीरज दीवान said...

शोएब भाई, मेरे पास यूनीकोड ऊर्दू जनरेटर नहीं है. आपका चिट्ठा अच्छा लगा. मेरी ऊर्दू थोड़ी धीमी है. वैसे ख़बर इराक़ में चालीस लोगों के सर काटने वाली है. ये दर्दनाक है और वैश्विक शांति की दिशा में पश्चिमी देशों का पाखंड साफ़ दिख रहा है कि सद्दाम के हटने के बाद भी कहीं शांति होती नहीं दिखती.
वैसे आप ब्लॉग जारी रखें. मैं पढ़ता रहूंगा.
कभी फ़ुर्सत मिले तो मुझसे चर्चा अवश्य करें. चैट पर.

June 28, 2006 11:59 PM  
Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

ارے بھائی ۔ يہ کيسے پڑھيں ؟ ہميں تو سنسکرت پڑھنا نہيں آتی ۔ اس کو اُردو ميں لکھ ديجئے ۔

ميں نے چند ماھ قبل اپنے اُردو بلاگ کی سائيڈ بار ميں اِميج شَيک کی معرفت اللہ کے ناموں کا سلائيڈ شو ڈالا تھا ۔ کچھ دن پيشتر ميں ٹيمپليٹ ميں تبديلی کر رہا تھا تو مجھ سے اُس کا لنک حذف ہو گيا ۔ اب ميں دوبارہ صحيح لنک بنا نہيں پا رہا ۔ آپ ماہرِ فن ہيں ميری راہنمائی فرمائيے

June 29, 2006 8:35 AM  
Anonymous Anonymous said...

नीरज जीः
धन्यवाद आपका, मेरी भी हिन्दी कुछ पक्की नहीं है बस खुद से सीख लिया और हिन्दी मे ब्लॉग लिखना शुरू करदिया :) अगर आप यूनीकोड उर्दू मे लिखाई सीखना चाहते हैं तो किया मैं आपकी मदद करसकूँ? लगता है ईराक के लोग खुद शांती नही चाहते वे बरसों से ऐश करते आऐ हैं और अब भुगत रहे हैं। एक बार फिर धन्यवाद

اجمل صاحب:
بزرگوار ـ یہ سنسکرت نہیں بلکہ ہندی ہے ـ میرے ایک ہندی بلاگر ساتھی نیرج دیوان صاحب جنہیں اُردو پڑھنا آتا ہے مگر ٹائپ کرنا نہیں جانتے، تو اُنہوں نے میری اِس پوسٹ پر اپنا تبصرہ ہندی میں لکھا ہے (:


سلائڈ شو بنانے کیلئے چند امیجس کو اپلوڈ کرنا ہوتا ہے پھر اُنکے url کو سلائڈ دکھانے والی ’’جاوا‘‘ سکرپٹ میں ڈھال کر بلاگ کے ٹمپلیٹ میں (جہاں آپ چاہیں) وہ جاوا سکرپٹ ایڈ کرنا ہے ـ اگر آپکے پاس اُن امیجس کے url ہیں تو مجھے میل کریں یا میں خود وہ جاوا سکرپٹ آپ کو میل کردوں گا جسے آپ استعمال کرسکتے ہیں یا پھر سلائڈ شو بنانے کیلئے بہت سے فری جاوا سکرپٹ ڈاؤنلوڈ بھی کرسکتے ہیں جس کا url یہ ہے
http://www.javascriptkit.com/script/cutindex21.shtml
اور شاید آپ کو اِسکی بھی ضرورت ہو
http://www.bravenet.com/

June 30, 2006 8:48 PM  
Blogger میرا پاکستان said...

آپ کي تحريرں اردو ويب پر نہيں ابھر رہيں کيا وجہ ہے۔ کيا ذکريا صاحب کو ناراض تو نہيں کرديا ذرا ان سے بات کرکے تو ديکھں۔

July 01, 2006 4:06 AM  
Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

ميں نے تفصيل بذريعہ ای ميل آپ کو بھيج دی ہے

July 01, 2006 7:26 AM  
Anonymous Anonymous said...

(میرا پاکستان):
جنابِ عالی،
میں نے اپنی بلاگ فیڈ کو چند ماہ قبل بند کردیا تھا ـ چونکہ میری تحریریں وہاں اُردو سیّارہ پر اکثریت کے پلّے نہیں پڑتیں ـ آپ کا میرے بلاگ پر اور میرا آپ کے بلاگ پر ربط موجود ہے، بہت اچھا رہے گا یہ ربط نہ ٹوٹے اور یوں ہی سلسلہ جاری رہے ـ

July 01, 2006 10:33 PM  

Post a Comment

Sunday, June 18, 2006

امّی، بھوک لگی ہے ـ ـ ـ

یہ کلمہ سنتے ہی ماں کی ممتا تڑپ اٹھتی ہے، وہ اپنا آرام چھوڑ کر کچن کیطرف دوڑتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ جلد سے جلد اُسکے لال کیلئے کھانے کا بندوبست کرے ـ محنت مزدوری کرنے سے چند روپئے ملتے ہیں جس سے ہم اپنی بھوک مٹاتے ہیں مگر ماں کو اُسکے بچوں کی بھوک دیکھی نہیں جاتی اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے تک وہ چین سے نہیں بیٹھتی ـ

یہاں پردیس میں ماں بہت یاد آتی ہے ـ بخار میں زبردستی ہمارے منہ میں دوائی ٹھونستی ہے، بارش میں بھیگو تو ڈانٹتی پھر تولیہ سے ہمارا سر پونچھتی ہے، اسکول سے گھر واپسی پر دیر ہوجائے تو دروازے پر پریشان کھڑی رہتی ہے، آدھی رات کو اٹھ کر ہماری کمبل سیدھی کرتی ہے، صبح سویرے پیار سے جگانا ضد کرو تو کمبل کھینچ لینا، جلدی جلدی ناشتہ بنائے پھر پلٹ کر باتھ روم میں ہماری پیٹھ پر صابن بھی ملدے، ناشتے میں مستی کرو تو ہمارے گال نوچتی ہے کان کھینچتی ہے پھر ہمارے بالوں پر کنگھا بھی کرتی ہے، بخار اور بیماری میں پوری رات ہمارے سرہانے بیٹھ جاتی ہے تھنڈ لگے تو اپنی چادر بھی دیدے، غصّے میں جس گال پر تھپڑ مارے بعد میں پھر اُسی گال کو چومتی ہے، زیادہ دیر تک جاگیں تو کھینچتے ہوئے ہمارے بستر پر لاکر سلاتی ہے ـ برے کام پر ڈانٹنا اور اچھے کام پر شاباشی دینا، پیار سے ہمارے سر پر ہاتھ پھیرنا، باہر سے گندگی لیکر آؤ تو ہمارے بال کھینچتے ہوئے باتھ روم لیکر جانا، اسکول کے ھوم ورک میں ہماری مدد کرنا، بغیر کھائے سوجائیں تو زبردستی جگاکر ہمیں کھانا کھلانا ـ

اِس کے باوجود اسکول سے واپس آتے ہی کتابوں کا بستہ ایک طرف پھینک صوفے پر پیر پھسارے بیٹھ کر زور سے چلّاتے ہیں ’’امّی بھوک لگی ہے جلدی سے کھانا دو‘‘ اور ماں اپنا سکون چھوڑ کر دوڑی چلی آتی ہے بھلے وہ بیمار ہو ’’ہاتھ منہ دھولے بیٹا ابھی کھانا لگاتی ہوں‘‘ ـ ـ ـ کہتے ہیں ماں خدا کا روپ ہے اور میں کہوں ماں تو خدا ہے ـ

Blogger میرا پاکستان said...

آپ نے تو ہماري آپ بيتي لکھ دي بھائي۔ يہ سب کچھ تو ہمارے ساتھ بھي ہو چکا ہے۔ واقعي ماں کا کوئي نعمل البدل نہيں۔ اسي ليۓ کہتے ہيں کہ ماں کے پاؤں ميں جنت ہوتي ہے۔ يہي ماں ہے جو بڑھاپے میں بھي اپني اولاد سے دکھ اٹھا کر اس کا بھلا ہي سوچتي ہے۔

July 01, 2006 4:00 AM  
Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

ماں اس دنيا مين اللہ کا نمونہ ہے ۔ بچہ خواہ کتنا ہی بُرا ہو ماں ہميشہ اُس کی بھلائی چاہتی ہے ۔ انتہائی بدقسمت ہے وہ اولاد جس نے ماں کی قدر نہ جانی ۔
اگر آپ کے پاس وقت ہو تو ميری ماں کے متعلق نيچے ديئے ہوئے يو آر ايل پر پڑھ سکتے ہيں ۔ آپ جو ميری عزت افزائی کرتے ہيں دراصل ميری ماں کی محنت کی تعريف ہے
http://iabhopal.wordpress.com/my-mother/

July 01, 2006 7:23 AM  

Post a Comment

Friday, June 09, 2006

اِن سے ملو ـ 17

یہ خدا ہے

عرصہ بعد خدا کو خیال جاگا، کسی زمانے میں اُسے بھی کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا ـ چند دنوں سے امریکہ شک کرتا آ رہا ہے کہ دھیرے دھیرے خدا کا دماغ ایشیا اور یوروپ کی طرف گھوم رہا ہے ـ خدا کو سمجھایا بھی تھا کرکٹ جیسے غریب کھیلوں پر اپنا دماغ نہ گھمائیں، برائے مہربانی اپنی خدائیت پر لوٹ آئیں اور فیفا 2006 پر توجہ دیں ـ کسی گمنام نے خدا کے نام خط بھیجا: بکواس بند کریں اگر اپنے آپ کو واقع خدا سمجھتے ہیں تو عراق میں امن قائم کرکے دکھائیں ـ خط پڑھ کر خدا کی ہنسی نکل پڑی اور جواب لکھ بھیجا: ہم تو صرف خدا ہیں نہ کہ امن کے پیامبر، عراق میں امن بحال کرنے کیلئے امریکہ زندہ ہے جس سے بہتر دوسرا کوئی نہیں ـ وہاں عدالت میں کھڑے صدّام غرائے، آخر وہ بھی فٹبال کھیلوں کے جنونی ہیں ـ خدا نے صدام کو تسلّی دی، امریکہ نے آپکو زندہ رکھا وہی ایک بڑی نعمت ہے ـ موقعہ غنیمت امریکہ نے خدا سے دریافت کرنا چاہا آیا اِس بار فٹبال ورلڈ کپ، کونسے ملک کی جیت ہوگی؟ خدا نے اپنی پاک سادگی سے جواب دیا: جیت اُسی کی ہوگی جو اچھا کھیلے گا ـ زرقاوی کی موت پر آج چوتھے دن بھی امریکہ میں خوشیاں منائی جا رہی تھیں جس میں خدا کے علاوہ اُنکے عزیز و اقارب بھی شریک رہے ـ اِس بار ایرانیوں نے قبلہ بدلکر سجدہ کیا جس کا رُخ سیدھا جرمنی کیطرف تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہاں اِنہیں کچھ ملنے والا نہیں ـ امریکہ کا جھوٹا منہ دیکھ کر خدا نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا: میری عزت اور جلال کی قسم! کھیل کو کھیل سمجھ کر کھیلیں، بھلے کسی بھی ملک کی جیت ہو وہ امریکہ کی جیت ہے، اور امریکہ کی جیت خدا کی جیت ہے ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

Anonymous Anonymous said...

بھائی شعیب ، سچ مچ تمہاری تحریر میں جو کاٹ اور روانی ہے وہ اردو کے بڑے بڑے نام نہاد ادیبوں کو بھی میسر نہیں ۔۔،، اتنی بغاوت ،، اتنی سلاست ، اتنی گہری فکر ،، تم اتنی سی عمر میں اتنے اثر پزیر خیالات رکھتے ہو،جان کر حیرت کے ساتھ فکر بھی ہوئی کہ تمہارا خدا تم کو نظر بد سے بچائے۔۔ سچائی اور وہ بھی اتنی بے باکی کے ساتھ ، یار کیوں لوگوں کو اپنا دشمن بناتے ہو ،، دوست بناؤ،، دبئی میں کہاں ہو بتاؤ ،، کہ میں بھی اسی صحرا میں خاک چھاننے کی کوشش کر رہا ہوں ۔۔۔

June 30, 2006 1:58 PM  
Anonymous Anonymous said...

عالیجاہ ـ آپ کی آمد اور عزت افزائی کیلئے شکریہ ـ دبئی میں نوکری اور شارجہ میری رہائش ہے، مزید اور کیا بتاؤں جبکہ آپ نے اپنا رابطہ ظاہر نہیں کیا ـ

June 30, 2006 8:53 PM  
Anonymous Anonymous said...

بھائی شعیب ، میں نے آپ کو اپنا رابطہ نمبر ای میل کر دیا ہے ۔۔امید ہے کہ آپ رابطہ کریں گے ۔اگر میل نہ ملے تو میرا موبائل نمبر ہے ۔۔2032204

July 01, 2006 12:52 PM  

Post a Comment

Tuesday, June 06, 2006

چڑھتی جوانی

میں نے اپنی دوست کو چھیڑا جو ہمعمر اور کنواری ہے، تم اپنی شادی کیلئے کس قسم کا لڑکا چاہتی ہو: خوبرو، جوان، ہٹّا کٹّا، دولتمند، اونچا تگڑا، بڑی مونچھوں والا، عاشق مزاج، اسمارٹ ، چکنا نازک، دبلا پتلا یا مضبوط بانہوں والا وغیرہ وغیرہ وغیرہ

مندرجہ بالا سبھی کیٹگیریز پر اُس نے جواب دیا نہیں ـ نہیں ـ نہیں ـ نہیں ـ نہیں اُن میں سے کوئی نہیں ـ

میں نے پوچھا: کیا مطلب کوئی پسند نہیں؟ مطلب کہ تمہیں لڑکوں میں ذرا بھی دلچسپی نہیں!

میری دوست نے جواب دیا: مجھے سب پتہ ہے کہ سب لڑکے ایک جیسے ہوتے ہیں ایڈیٹ ـ ـ پھر بھی میں ایک ایسا لڑکا چاہتی ہوں جو پیارا سا ہو، سیدھا سادا، بھولا سا، کم گو، نیک اور شریف جو مجھے دولت نہیں بلکہ ڈھیر سارا پیار دے، دوست جیسا برتاؤ کرے اور زندگی بھر ساتھ رہے وغیرہ

میں نے کہا: صرف انتظار کرتی رہ جانا، بوڑھی ہوجاؤ گی مگر تمہاری اِن نیک خواہشات والا لڑکا ـ ـ ـ میں سمجھتا ہوں اِس دنیا میں تو نہیں ملے گا

دوست کو غصّہ آگیا: کیوں نہیں ملے گا؟ تم کیا سمجھتے ہو کہ دنیا میں سب لڑکے صرف تمہارے جیسے ہی ہونگے؟ ہاں ـ ایک سے ایک اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں ـ ـ ـ کہیں نہ کہیں تو ملجائے گا میرا ہمسفر

اُسکے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے میں بھی غصّے میں بولا: کیا کہا تم نے، تمہارے جیسے لڑکے؟ تم نے ایسا کیوں کہا کہ سب لڑکے صرف تمہارے جیسے ہی ہونگے؟ کیا خرابی ہے مجھ میں؟ بس صرف پیٹ تھوڑا آگے نکل آیا ہے (دبئی کی گرمی سے) باقی سب تو ٹھیک ہے، شرافت میں ڈوبا، برائی سے دور بھاگنے والا، نیکو کار، لڑکیوں کو دیکھتے ہی احترام میں ایک آنکھ بند کرلیتا ہوں

دوست کہنے لگی: بس بس ـ اب رہنے بھی دیں ـ معلوم ہے تم کتنے شریف اور سیدھے سادے ہو ـ تمہارے اندر تو جیسے شرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہے، تم جیسا شریف انسان دوسرا کوئی نہیں!

میں نے بھی جھٹ سے پوچھ لیا: تو کیا خیال ہے میرے بارے میں؟

میری دوست شرم اور غصے میں اٹھی اور جس کرسی پر بیٹھا تھا، کرسی کے ساتھ مجھے بھی زمین پر گرا کر مسکراتے ہوئے دوسرے کیبن میں چلی گئی قریب بیٹھـے دوسرے دوستوں نے بھی قہقہہ لگایا ـ یہ ہمارا لنچ ٹائم تھا اور روزانہ مختلف موضوعات کے بعد آج کا ٹاپک یہ نکلا ـ

Post a Comment

ہندوستان سے پہلا اُردو بلاگ
First Urdu Blog from India

IndiBlogger - The Largest Indian Blogger Community

حالیہ تحریریں

سویتا بھابی کا وال اچھا
تو میرا خدا میں تیرا خدا
دھونڈو تو خدا بھی مل جائے
مصروفیت
معلوماتِ خداوندی
2 اکتوبر، گاندھی جینتی کے موقع پر خاص پوسٹ
رام کہانی ـ رحیم کی زبانی
میرے چاند کے تکڑے
اس بلاگ پر اگلی پوسٹ

Hindi Blog

Urdu Graphic Blog

Motion Blog

Powered by ShoutJax

Counters