نئی باتیں / نئی سوچ

Saturday, May 28, 2011

آئن سٹائن


جدید سائنس کا بانی 
 
ہٹلر نے اسے دو مرتبہ قتل کرانے کی کوشش کی تھی اور جسے ایٹم بم کی تھیوری کا بانی بھی کہا جاتا ہے
عصر حاضر میں سائنس کی دنیا کے ایک معتبر نام آئن سٹائن کی طرف سے 1905ء میں پیش کئے گئے پانچ تاریخی مقالوں کی 100 ویں اور ان کی وفات کی پچاسویں سالگرہ منائی جارہی ہے ـ اس حوالے سے 2005 کو فزکس کا عالمی سال قرار دیا گیا ہے ـ آئن سٹائن کو ایٹم بم کی تھیوری کا بانی کہا جاتا ہے ـ اس کے نزدیک اس تھیوری کو پیش کرنے کا مقصد انسانیت کی فلاح تھا ـ ذیل میں آئن سٹائن اور اسکے کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے ـ موجودہ دور کی تیز رفتار ترقی آئن سٹائن کی مرہون منت ہے ـ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ جدید دور کا ارسطو تھا ـ وہ گذشتہ چوبیس سالوں میں منظر عام پر آنے والے ذہین ترین سائنسدانوں میں سے ایک ہے ـ بلا شبہ اسے اس فہرست میں نیوٹن گیلیو اور ارسطو کا ہم پلّہ قرار دیا جاسکتا ہے ـ 1905 کے مقابلوں میں انہوں نے ابتدائی طور پر وقت، روشنی اور مادے کے بارے میں نظریہ کو تبدیل کردیا ـ بعد ازاں خود اس نے ایک دہائی کے بعد اس نظریے کو مزید ترقی دی ـ آئن سٹائن نے ایک ایسے وقت میں آنکھ کھولی جب جدید ترقی کا عمل ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا ـ لوگ سفر کے لئے بگھی تانگے استعمال کرتے تھے ـ ان کے نظریات نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک ایسی حیرت انگیز ترقی کی بنیاد رکھی جس کی مثال گذشتہ دو ہزار سالوں میں نہیں ملتی ـ جتنی ترقی محض اس ایک صدی میں دیکھنے میں آئی ـ یہ یقینا آئن سٹائن کے سائنسی نظریات کا ہی کمال تھا ـ جب کہ کمپیوٹر، سٹیلائٹ، نیو کلیئر پاور اور نیوکلیئر بموں جیسی سائنسی ایجادات وجود میں آئیں ـ آئن سٹائن امن کا حقیقی علمبردار تھا ـ اسکی خواہش تھی کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے ـ یہی وجہ ہے کہ اس نے ہٹلر کے انسانیت سوز مظالم کے خلاف جرمنی کو خیر باد کہہ دیا ـ جس نے اس پر دو مرتبہ قاتلانہ حملہ کرایا ـ اس نے بقیہ زندگی امن کے حصول اور انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کردی ـ وہ اپنی شہرت کو فاشسٹ ازم اور نسلی تعصّبات کے خلاف بھر پور طریقے سے استعمال کرتا ـ انسانیت کے حقوق کا علمبردار یہ عظیم سائنسداں 18 اپریل 1955 کو 76 برس کی عمر میں وفات پاگیا لیکن اپنے پیچھے علم کا ایک ایسا بیش بہا خزانہ چھوڑ گیا جس کے بغیر اس دنیا کی ترقی کا تصور ممکن نہیں تھا ـ اس کی وفات کے موقع پر ایف بی آئی کی تیار کردہ فائل 1400 صفحات پر مشتمل تھی ـ دنیا کو ترقی کے دھارے میں شامل کرنے والا آئن سٹائن خود ذاتی زندگی میں انتہائی مضطرب اور پریشان حال انسان تھا ـ دو مرتبہ ازدواجی زندگی شروع کی، بدقسمتی سے دونوں ہی مرتبہ وہ خوشگوار زندگی کی خوشیاں سمیٹنے میں ناکام رہا ـ اس کے قریبی حلقوں کے مطابق اس کی ذاتی زندگی انتہائی پر آشوب تھی حتی کہ وہ اپنے بچوں کے مسائل سے بھی بالکل لاتعلق ہوگیا تھا ـ اسکے دوست اور رشتہ دار اس کے عجیب و غریب رویے کی وجہ سے سخت نالاں رہے ـ وہ فوٹو گرافرز کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتا تھا اسکے برعکس وہ کارٹونسٹوں میں کافی مقبول تھا ـ بیسویں صدی کے آغاز میں آئن سٹائن نے خود کو کافی حد تک مصروف کرلیا ـ زیادہ تر وقت فزکس سے متصادم تصورات سے نبرد آزما ہونے میں صرف کرتا ـ اپنے سوئس آفس کے دفتر میں بیٹھ کر پہروں اپنے خیالات کو عملی شکل دینے کے لئے تجربات پر کام کرتا رہتا ـ آئن سٹائن کا مقولہ تھا کہ تصورات علم سے زیادہ اہم ہیں اس لئے ضروری ہے کہ جستجو کا عمل جاری رہنا چاہئے ـ 1905 ان کی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ـ اِس دوران اس کے پانچ شاہکار مقالے شائع ہوئے جنہوں نے سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا ـ یہیں سے آئن سٹائن کی ایک سائنسدان کی حیثیت سے پہچان شروع ہوئی آئن سٹائن گھر سے پرنسٹن یونیورسٹی کا سفر پیدل چل کر طے کرتا تھا ـ اسے گاڑیوں میں سفر کرنا قطعی پسند نہیں تھا، پیدل چلتے ہوئے وہ سوچوں میں گم حقائق پر غور کرتا رہتا ـ اس کی عادت تھی کہ وہ دفتر جاتے وقت اپنی چھتری باغ کے لوہے کے جنگلے کے اوپر رکھ کر اس عمل سے لطف اندوز ہوتا غلطی سے اگر چھتری اچھل جاتی تو وہ یہ عمل دوبارہ از سر نو شروع کردیتا ـ پانچ نکاتی مقالہ کا پہلا کام مارچ 1905ء میں سامنے آیا جس کے مطابق روایتی فزکس میں روشنی شعاع کی لہر کی شکل میں ہوتی ہے ـ جب کہ آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ روشنی توانائی کے چھوٹے چھوٹے پیکٹوں یا کونٹیا انفرادی ذرات پر مشتمل ہے ـ ماڈرن سائنس کا پہلو اس قدر مبہم ہے کہ اس پر آئن سٹائن نے بھی طبع آزمائی کی کوشش نہیں کی ـ ’’فوٹو الیکٹرانک اثرات‘‘ پر اسے 1921ء میں نوبل پرائز کا حقدار قرار دیا گیا ـ اپریل میں پیش کیا گیا دوسرا مقالہ چینی کے مالیکیولز کے متعلق ہے جس میں اسکی پانی میں حل پذیری کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا ـ مئی میں منظر عام پر آنے والا تیسرا مقالہ پانی میں مالیکیولز کی غیر ہموار حالت اور اس کے آئٹم کی بے ترتیبی کے متعلق تھا جسے براؤنین موشن کا نام دیا گیا ـ آئن سٹائن نے ثابت کیا کہ ایٹم وجود رکھتے ہیں اور پھیلاؤ پر کیمیائی عناصر بناتے ہیں ـ جون میں آئن سٹائن کا چوتھا مقالہ سامنے آیا جو ’’قانون بقائے مادہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا جس کے مطابق مادے کو فنا نہیں کیا جاسکتا ـ جب کہ نیوٹن کا کہنا ہے کہ کشش ثقل ہی اہم چیز ہے ـ اسکا کہنا تھا کہ حجم ہی حجم کو کھینچتا ہے ـ سائنسدانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ روشنی بہت سے الیکٹرو میگنیٹس شعاعوں میں سے ایک ہے جو کسی بھی میڈیم میں حرکت کرسکتی ہے جسے وہ ایتھر کا نام دیتے ہیں ـ اِن کا کہنا تھا کہ روشنی کی رفتار ہمیشہ ایک جیسی ہوتی ہے ـ نومبر میں آئن سٹائن کا پانچواں اور آخری مقالہ سامنے آیا جس میں اِس نے قانون بقائے مادّہ کو وسعت دی جو کمیت کو توانائی میں تبدیل کرنے کے متعلق تھا ـ آئن سٹائن ایٹمی تھیوری کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال میں لانا چاہتے تھے ـ اِن کا مقصد ہرگز انسانیت کی ہلاکت نہیں تھا ـ عمر کے آخری حصے میں امریکہ منتقل ہونے کے بعد آئن سٹائن نے ہر فورم پر امریکہ کی دنیا کو فتح کرنے اور ایٹمی پالیسیز کی بھر پور مخالفت کی ـ

Post a Comment

میں شہید ہوں

دوسرا حصہ

 آج ہی یہ خبر ملی کہ والدہ سخت علیل ہیں اور میرا نام اُنکے لَبوں پر ہے، مرنے سے پہلے وہ مجھے دیکھنا چاہتی ہیں ـ یہ پورا ہفتہ جہاد کیلئے مجھے سَرگرم رہنا ہے، بقولِ امیر صاحب دھماکہ چاہے عبادت گاہ میں کریں یا بازار میں، دونوں کا ثواب برابر ہے ـ میں تو ٹھہرا مجاہد، خدا کو خوش کرنے کیلئے مجھے اور بھی سینکڑوں دھماکے کرنے ہیں تاکہ جنّت میں اپنا ایک مقام بنالوں ـ گھر سے نکلے تقریبا دو سال کا عرصہ ہوچکا، نہیں معلوم اپنے ہاتھوں کتنے لوگوں کے چھیتڑے اڑائے، شکر ہے ابھی تک قانون کے ہاتھ نہیں لگا ـ میرا مقصد ایک ہے خدا کیلئے معصوموں کا خون بہانا اور دَنگے فساد کرنا پھر یوں مرتے مارتے شہید ہوجاؤں ـ اُس دن میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں جب امیر صاحب نے مجھے اپنے کندھوں پر بٹھاکر بھانگڑا ڈالا جب پشاور کے بازاروں میں دھماکے ہوئے اور درجنوں لوگ ہلاک، وہ مَیں نے کئے مگر کوئی اور پکڑا گیا ـ امیر صاحب نے میرے گلے میں میگزین کی مالائیں پہناکر خوب شاباشی دی اور خدا کے حضور میری لمبی عمر کی دعائیں مانگیں ساتھ میں یہ خوشخبری بھی سنائی کہ بہت جلد مجھے لندن، فرانس اور بھارت وغیرہ بھیجا جائیگا تاکہ وہاں کے بازاروں میں بھی بم دھماکوں کے ذریعے جہاد کروں اور خوب اجر و ثواب پاؤں ـ اپنی عَلیل والدہ کو دیکھنے میرے پاس وقت نہیں، امیر صاحب کہتے ہیں خدا کے حکم کے آگے کچھ بھی نہیں ـ شہید ہونے کے بعد جنّت پہنچ کر وہیں اپنے والدین سے ملوں گا ـ

(ایک مجاہد کی آپ بیتی ـ خیالی)

Post a Comment

Wednesday, May 25, 2011

خدا کو اپنے خدا ہونے کا واسطہ

پوچھتے ہیں کہ جوانی میں کیسے تھے؟ واللہ نہایت حسین و جمیل تھے کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ تھے وہ اسلئے کہ اُس زمانے میں کوئی تھا نہیں کس کو اپنا منہ دکھاتے ـ پھر فرشتوں کی تخلیق کرکے پوچھا کہ ہماری تعریف بیان کرو تو وہ صدا سجدوں میں پڑگئے، نہیں معلوم وہ اپنا چہرہ دکھانا پسند نہیں کرتے یا پھر ہمارا دیکھنا ـ

بھوک بڑا گندہ احساس ہے، ہم خدا ہوکر بھی محسوس کرتے ہیں مگر ایک مجرم کو زندہ رکھنے کیلئے حکومت کو گیارہ کروڑ خرچ کرنا بری بات ہے ـ وہاں کروڑوں میں کھیلنے والی بیٹی، عیش و آرام کی زندگی سے اچانک تہاڑ جیل میں ـ یہی تو ہماری قدرت کا کمال ہے ـ مائیکل جیکسن ہو یا سائی بابا سبھی اقسام کے خداؤں کو ایک دن مرنا ہی ہے ـ

جہاں میں جب بھی مختلف خدا وارد ہوتے رہے واللہ عیش کرگئے سوائے مذہبی خداؤں کے ـ کیونکہ مذہبی خدا خود مصیبتوں تکلیفوں میں رہے، صعوبتیں اٹھائیں، جنگیں لڑی فساد مچایا، من پسند مقدس کتابیں صحیفے لکھ ڈالے پھر لوگوں کو زبردستی مذہب سے جوڑ کر چلے گئے اور آج تک بھی یہ مذہبی جنونی لاچار اور اندھے اعتقاد میں گرفتار ہیں ـ

پوچھتے ہیں کہ ہمارا مذہب کیا ہے؟ ہم خدا ہیں، بھلا خدا کا بھی مذہب ہوتا ہے! ہم کو بس عیش کرنا ہے اور مرنے سے پہلے اپنے لئے لمبی مزار بنانا ہے ـ بھاڑ میں جائے وہ لوگ جو ہر دن مذہب کا جنازہ نکالتے ہیں، دنیا بھر میں دہشت پھیلاتے ہیں، جنّت میں داخلہ پاس کیلئے دہشت گرد بنتے ہیں ـ

آج کا دن بہت خراب نکلا، صبح اپنی اُڑن طشری سے اُڑان بھرنے ہی والے تھے کہ کمبخت بھکاری سے پالا پڑگیا، چڑھتے سورج کی طرح وہ ہم پہ چڑھ گیا اور اپنے باسی منہ سے پوچھ بیٹھا بھلا بتاؤ کونسی جڑی بوٹیاں کھالئے تھے کہ خدا بن بیٹھے اور ہمیں دیکھو بھکاری ٹھہرے ـ میاں نہایت آسان ہے تمہاری سوچ بھکاری کی اور ہماری خدائی ـ بھیک مانگنے کی بجائے ہماری طرح اوٹ پٹانگ سوچتے اور بکواس بلاگنگ کرتے تو آج تمہیں بھیک مانگنے کی نوبت نہ آتی ـ جاری

باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 84 ]

Post a Comment

Wednesday, May 11, 2011

وندے ماترم - वन्दे मातरम्

میں تیرا بندہ ہوں اے میری ماں
میرے اچھے پانی، اچھے پھلوں
بھینی خشک، جنوبی ہواؤں

شاداب کھیتوں والی میری ماں
حسین چاندنی سے روشن رات والی
شگفتہ پھولوں والی گنجان درختوں والی
میٹھی سے میٹھی زبان والی
سُکھ دینے والی، برکت دینے والی میری ماں

سو کروڑ لوگوں کی پُرجوش آوازیں
دو سو کروڑ بازوؤں میں سنبھلنے والی تلواریں
کیا اتنی قوت کے ہوتے ہوئے بھی
اے ماں تو کمزور ہے
تو ہی میرے بازوؤں کی قوت ہے

میں تری قدم چومتا ہوں، میری ماں
تو ہی میرا علم ہے، تو ہی میرا دھرم ہے
تو ہی میرا باطن ہے، تو ہی میرا مقصد ہے
تو ہی جسم کے اندر کی جان ہے
تو ہی بازوؤں کی قوت ہے
دلوں کے اندر تیری ہی حقیقت ہے

تیری ہی محبوب مورتی ہے ایک ایک مندر میں
تو ہی دُرگا ہے دس مسلح ہاتھوں والی
تو ہی کملا ہے کمل کے پھولوں کی بہار
تو ہی پانی ہے علم ہے بہرہ ور کرنے والی
میں تِرا غلام ہوں، غلام کا غلام ہوں
اچھے پانی، اچھے پھولوں والی میری ماں
میں تیرا بندہ ہوں

لہلہاتے کھیتوں والی مقدس موہنی، آراستہ، پیراستہ
بڑی قدرت والی، قائم و دائم ماں، میں تیرا بندہ ہوں

वन्दे मातरम्
सुजलाम् सुफलाम् मलयजशीतलाम्
सस्यश्यामलाम् मातरम्।

शुभ्रज्योत्स्नापुलकितयामिनीम्
फुल्लकुसुमितद्रुमदलशोभिनीम्
सुहासिनीम् सुमधुर भाषिणीम्
सुखदाम् वरदाम् मातरम् ॥ १ ॥
वन्दे मातरम् ।

कोटि - कोटि - कण्ठ कल - कल - निनाद - कराले,
कोटि - कोटि - भुजैर्धृत - खरकरवाले,
अबला केन मा एत बले।
बहुबलधारिणीम् नमामि तारिणीम्
रिपुदलवारिणीम् मातरम् ॥ २ ॥
वन्दे मातरम् ।

तुमि विद्या, तुमि धर्म
तुमि हृदि, तुमि मर्म
त्वं हि प्राणाः शरीरे
बाहुते तुमि मा शक्ति,
हृदये तुमि मा भक्ति,
तोमारइ प्रतिमा गडि मन्दिरे-मन्दिरे ॥ ३ ॥
मातरम् वन्दे मातरम् ।

त्वम् हि दुर्गा दशप्रहरणधारिणी
कमला कमलदलविहारिणी
वाणी विद्यादायिनी,
नमामि त्वाम् नमामि कमलाम्
अमलाम् अतुलाम् सुजलाम् सुफलाम् मातरम् ॥ ४ ॥
वन्दे मातरम् ।

श्यामलाम् सरलाम् सुस्मिताम् भूषिताम्
धरणीम् भरणीम् मातरम् ॥ ५ ॥
वन्दे मातरम् ।


Post a Comment

ہا ہا ہا

اس لئے کہ بڑے دنوں بعد ہم نے اپنا بلاگ دیکھا تو منہ سے یونہی ہا ہا ہا نکل پڑا ـ گر کسی کو پسند نہ آئے تو ہی ہی ہی کرلیں اجازت ہے ـ کئی بار اپنا بلاگ دیکھا مگر جی بھر کے آج ہی دیکھا ـ پرانی قسطوں پر نظر ڈالے تو خود پر ہنسی آگئی، بکواس چھاپنے ہم سے کوئی ثانی نہیں کیونکہ ہم خدا ہیں ـ  جاری

باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 83 ]

posted by Shuaib at 11:23 AM 1 comments

Blogger Steven said...

یہ بلاگ بالکل بکواس ہے۔ پوسٹوں کے مطلب سمجھے بھی نہیں جاتے۔ صرف خدا کے بارے میں بیہودہ بات ہیں

May 24, 2011 3:47 AM  

Post a Comment

دعا اگر قبول ہو؟

کیسی دعا اور عبادت؟ اگر دعاء قبول ہوتی تو آج ہم بھارت کے وزیراعظم ہوتے ـ جاری

باقی پھر کبھی



[ یہ خدا ہے ـ 82 ]

posted by Shuaib at 11:22 AM 0 comments

Post a Comment

خ = سے خیریت

بھاڑ میں جائیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے خدا کو بھول اُباما پر نوبل چڑھایا ـ اور بھاڑ میں جائیں وہ لوگ بھی جنہوں نے بھارت سے خیرات میں زمین لی اور آج تک بھی خیریت سے نہیں ـ وہ لوگ بھی بھاڑ میں جائیں جو بولتے ہیں کہ چین نے بھارت کو چاروں طرف سے گھیرنا شروع کر دیا ہے حالانکہ وہ سبھی بھارتیوں کے گھروں میں چین سے بیٹھا ہے ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی


[ یہ خدا ہے ـ 81 ]

posted by Shuaib at 11:21 AM 0 comments

Post a Comment

یہ جھوٹ ہے، یہ بالکل جھوٹ ہے!

یقین کیجئے، اس قسط میں زیادہ لمبا بھاشن نہیں چونکہ آجکل ہم ذرا مسافر ہوچکے ـ اوّل یہ کہ پہلے جیسا اب قسطیں چھاپنے کا موڈ نہیں، پہلے ٹائم بناکر ایسی ویسی بکواس چھاپ جاتے تھے اب چونکہ سفر میں کچھ وقت مل جاتا ہے اور چُپ چاپ بیٹھے رہیں تو دماغ کی ماں بہن ایک ہوجاتی ہے ـ تو عرض ہے، پتہ نہیں کہاں سے شروعات کریں! ورنہ بولنے والے بولیں گے کہ خدا کی قدرت کمزور ہوگئی یا پھر ہماری عینک ـ

خدا کا شکریہ کہ یہ 81 ویں قسط ہے اور ابھی تک کہیں سے کوئی بڑا فتویٰ یا ہمارے خلاف جلسہ و جلوس، پتھراؤ گھیراؤ نہیں ہوا ـ




باقی پھر کبھی


[ یہ خدا ہے ـ 81 ]

posted by Shuaib at 11:20 AM 0 comments

Post a Comment

پلیز! ہماری بات کا بُرا نہ مانے!

پرانے زمانے کے خداؤں کی موجاں تھیں کہ انپڑھ لوگوں میں آئے اور چھا گئے ـ اور پچھلے زمانے کے لوگوں میں کام دھام کچھ تھا نہیں بس یوں ہی خالی بیٹھے رہتے تھے کہ اُن خداؤں پر اندھوں کی طرح ایمان لے آئے ـ اور ہماری قسمت دیکھو کہ نئے زمانے کے خدا ہیں، 80 ویں قسط ہے مگر ابھی تک کسی نے ہم پہ ایمان لائے نہیں اور ہم ہیں کہ قسطوں پہ قسط چھاپ رہے ہیں ـ اُمید ہے مرنے کے بعد ہماری مزار پہ چادریں چڑھانے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی مگر کیا فائدہ! ہمارے زندہ رہنے تک کسی نے عقیدت سے نہیں دیکھا ـ

دسہرہ کے جلوس میں لوگوں کو ناچتے ہوئے دیکھ ہمارا بھی دل مچل اُٹھا، بھیڑ میں ڈانس کرنے کود پڑے، واللہ زبردست ٹھمکے بھی لگائے ـ کہ اچانک ایک بزرگ نے آکر ہم سے ہمارا تعارف پوچھا تو ہم نے بھی اپنا کالر چڑھاکر کہا ہم سچّی مچّی کے خدا ہیں یعنی باقاعدہ اور خود ساختہ بھی ہیں ـ بس میاں، اتنی سی بات ہمارا کھڑا ہوا کالر پکڑ کھینچتے ہوئے ہمیں باہر کا راستہ دکھلایا ـ خدا ہونے کا یہ صلہ کہ عوام کے ساتھ ذرا ٹھُمکہ بھی مار نہیں سکتے! عیدگاہ کے باہر انتظار میں کھڑے تھے ہر کوئی ہم پر شک کی نگاہ ڈال رہے تھے! حالانکہ صاف سھترے کپڑوں میں ملبوس تھے صرف عید کی نماز نہ پڑھی تو شک کرنے والوں کا شک اور بڑھ گیا ـ ہم نہ تو دہشت گرد ہیں نہ بھکاری! بتانے ہی والے تھے کہ ہم باقاعدہ خدا ہیں مگر کوئی پوچھے تو بتاتے ـ

ہماری بدقسمتی موجودہ دور کے خدا بن گئے، اگر پچھلے زمانوں میں آتے چونکہ اُس زمانے میں لوگ انپڑھ تھے، آج ہماری بھی پوجا اور عبادات ہوتی ـ لوگ ہمارا آئڈل بناکر جلوس نکالتے یا پھر ہماری قبر پہ چادر چڑھاکر پنکھا مارتے ـ اب لوگ ہیں کہ اپنے مذہب سے اُکتا چکے، کیسا سجدہ کیسی پوجا ـ خود محنت کرو، پیسہ کماؤ اُلٹا اپنے خداؤں پر تیوہاروں میں پیسہ لُٹاؤ!!!! لوگوں کی آنکھیں آج کھل رہی ہیں کہ غیب سے کوئی پیسہ آنے کو نہیں مگر پھر بھی اندھوں کی طرح پوجا پاٹ اور عبادات میں مشغول ہیں کہ خزانہ مل جائے ـ

بیت اللہ محسود کی میّت کیلئے خوشی و غم کے موقع پر ایک شعر یاد آتا ہے مگر یہ شعر ماں بہن کی گالیوں پر طرح ہے ـ خیر، یہ گالیاں تو دل کی دُہائیاں رہیں بالکل جیسے سلمان خان نے شاہ رُخ خان کی نیویارک میں پاجامہ تلاشی پر دل ہی دل میں کہہ ڈالیں ـ مگر جسونت سنگھ کے مرچ مسالہ کتاب جہاں بھارت میں نمک کچھ زیادہ ہوگیا تو پاکستان کیلئے سستا آٹا بن گیا ـ میاں، فلائٹ کے ٹائم کا اناؤنس ہوگیا ـ یہ تو ائرپورٹ پر ٹائپنگ کی ہے، سوچا تھا اس قسط میں بڑا لمبا بھاشن اُتاریں گے کیونکہ اناؤنس ہوا تھا کہ فلائٹ دیڑھ گھنٹے پیچھے ہے مگر اچانک پھر اناؤنس ہوا کہ آدھے گھنٹے میں طیارہ کھڑا ہے ـ دل کی بھڑاس، بھڑاس ہی رہ گئی پھر ملتے ہیں انشاء اللہ ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی


[ یہ خدا ہے ـ 80 ]

posted by Shuaib at 11:20 AM 0 comments

Post a Comment

فلُو کا آلو بن گیا

عطر کی خوشبو جیسا یہ کیسا فُلو پھیل گیا، دوسروں کا دیکھ ہم نے بھی چہرے پہ ماسک چڑھا لیا ـ  ہمارے اِس انداز پر باقیوں نے کچھ نہ بولا مگر گلی میں آرام فرما رہے کتّوں کو ہمارا یہ حُلیہ ذرا پسند نہ آیا ـ پھُرتی سے کھڑے ہوکر ہمارے منہ پہ بھونکنا شروع کردیا ـ جلدی سے ماسک اُتار کر اپنا تعارف کروا دیا کہ میاں، ہم تو تمہاے خدا ہیں ـ یہ سُن کر کتّوں نے رُخ بدل کر اِدھر اُدھر بھونکتے رہے یعنی کہ شکر ہے اپنے خدا کو پہچان گئے ـ لعنت ہے عجب وبائی بیماریاں پنپ رہی ہیں، ہم خدا ہوکر بھی چہرے پہ ماسک سجائے رکھے ہیں جسکی وجہ سے انسان تو کیا کتّے بھی ہمیں پہچانتے نہیں ـ ایک عورت نے پوچھ لیا: اوہ جی کام سے نکلے تھے مگر یہاں بازار میں کہاں بھٹک رہے؟ اُس کو بھی ماسک اُتارکر بتانا پڑا کہ ہم تمہارے مجازی نہیں بلکہ باقاعدہ خدا ہیں ـ

گلی میں بچّے رنگ برنگے ماسک پہن ایسے پھُدک رہے ہیں جیسا کہ عید کے نئے کپڑے پہنے ہیں ـ اب بچّوں کا کیا ہے، جو بھی نیا پہن لیا بس خوشی میں ناچنا شروع کردیا ـ خواتین و حضرات بھی ایکدوسرے کو اپنا ماسک دکھاکر رعب جمانے لگے ہیں ـ بس اسٹاپ، ریلوے اسٹیشن ہر جگہ ماسک کو جیسے دھوتی اور چولی سمجھ رکھا ہے ـ بغیر ماسک پہنے شخص پر لوگ عجیب نگاہوں سے دیکھتے ہیں جیسا کہ وہ انسان نہیں بلکہ جراثیم کش انسان ہے ـ سؤر نے اتنی وباء نہیں پھیلائی جتنا کہ میڈیا والوں نے ہلاّ مچا رکھا ہے ـ سؤر میں ایسی ہمّت کہاں کہ؟ میڈیا والوں نے یہ وباء پھیلا رکھی اور خدا کو بھی سوئن فلُو ماسک پہننے پہ مجبور کر دیا ہے ـ

ہمارے ایک مرید، جو ہماری قسطیں پڑھ ہم پہ ایمان لے آئے تھے، سویرے ماسک پہن جاگنگ کو کیا نکلے کہ کتّے بھی اُن کے پیچھے نکل لئے ـ جاگنگ چھوڑ دوڑنا شروع کردیئے، بالآخر کھڈے میں جا گرے ـ وہ باہر نکل نہ پائے کیونکہ کتّے بھی دُم دبائے وہیں انتظار میں بیٹھے تھے ـ جیسے تیسے باہر جو نکلے گھر پہنچتے سوئن فلُو کا ماسک ماتھے پہ پہن آئے کیونکہ آلو جو بن گیا ـ گلی محلّے میں بچّے اور جوانوں نے پوچھا کہ یہ کونسا فیشن ہے؟ مجبورا بولنا پڑا کہ یہ فیشن نہیں بلکہ کتّا فلُو ہے ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی


[ یہ خدا ہے ـ 79 ]

posted by Shuaib at 11:19 AM 0 comments

Post a Comment

ہماری خوش قسمتی

رات میں کونسا گناہ ہوگیا کہ صبح اُٹھتے ہی فقیر سے سامنا پڑا ـ باسی منہ لئے چڑھتے سورج کی طرح ہم پہ چڑھ گیا اور پوچھا: آپ نصیبوں والے ہیں کہ یوں بیٹھے بٹھائے خدا بن بیٹھے اور ہمیں دیکھ لو پیدائشی بھکاری ٹھہرے ـ پتہ نہیں کونسی جڑی بوٹیاں کھالئے تھے کہ خود خدا ہوگئے، ذرا نسخہ تو بتا دو کہ عمر کے اِس آخری حصّے میں ہم بھی کچھ خداگردی کرلیتے ـ

میاں، خوش قسمتی سے ہم خدا بن بیٹھے اس کے پیچھے لمبی محنت ہے، لوگوں کے طعنے، کُفر کے فتوے اور دلآزادی کے بہانے ـ گر تم بھی کچھ محنت کرلیتے تو آج مائکل جیکسن ہوتے، تمہاری میّت پر ہزاروں سوگوار آنسو چھڑکتے پھر زبردست مزار بناکر تم پہ ہی چڑھ لیتے ـ

پوچھتے ہیں کہ میرا ووٹ کِدھر گیا؟ ہمارے خدا ہونے کا یہ صلہ اب اس کا بھی جواب دیں! نژاد نے کھالیا اور موسوی سے ہضم نہ ہوا ـ دونوں پیٹ بھرے ایک شہری دوسرا دیہاتی ـ گر پوچھتے کہ ہماری آزادی کا کیا ہوا؟ صدیوں سے مذہبی دلدل میں پھنسنے والے اتنا جلدی کیسے آزاد ہوں؟ بیچارے ترقی پسند ایرانی قوم مذہب سے بیزار جو باقی دنیا سے قدم ملانا چاہتے ہیں، اب نژاد کے جنازے کا انتظار کرتے ہیں ـ

ایک ناچنے والے کے اتنے دیوانے؟ حالانکہ ہم خدا ٹھہرے باوجود پوچھنے والے کوئی نہیں ـ کاش ہمیں بھی ناچنا آتا اور ذرا سا ٹھمکہ لگاکر ہزاروں کو اپنا مرید بنا ڈالتے ـ سلام ہے اُس پر جس نے مذہبی منافرت کے باوجود سبھی کو اپنا گرویدہ بنالیا اور اپنی منفرد اداؤں سے ہزارہا انسانوں کا دل جیت کر ایسی شہرت پائی کہ خدا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ـ

چین کے شینگ جیانگ میں مسلم کش فساد ـ میاں، کوئی نئی بات کرو ـ جہاں مسلمان وہاں دنگا فساد نہ ہو؟ اب چلتے ہیں لال گڑھ مگر اکیلے کیسے جائیں چاروں طرف سے گولیاں چلتی ہیں ـ لال مسجد والے پوچھتے ہیں کہ لال گڑھ اور ہمارے میں کونسا فرق ہے؟ ہر وہ جگہ جہاں انسان کا انسانوں پر عذاب رہا، خدا کی قسم ہم دل سے ذرا کمزور ہیں ـ درد بھری چیخیں اور خون میں لت پت لاشیں ہم سے دیکھی نہیں جاتی ـ مگر لال گڑھ والے بھوک اور ظلم نے انہیں لاچار بنا ڈالا ـ

عراق میں امریکہ کا وجود کونسا خطرہ تھا؟ اصل خطرہ تو اب ہے ـ یہ جشن، آزادی کے پٹاخے، چہرے پہ خوشیاں آئندہ کیلئے افسوس ہے بالکل جیسے جنگلی بھینس کو کھلا چھوڑا ہے ـ اُنگلیاں نیند کے خمار سے تھک چکی ہیں ورنہ اس قسط میں اور لمبی بکواس چھاپنے کا ارادہ تھا ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی


[ یہ خدا ہے ـ 78 ]

posted by Shuaib at 11:18 AM 0 comments

Post a Comment

خدا پھسل گئے

خدا پھسل گئے

نہانے کے بعد صاف ستھرے کپڑے پہن جونہی اپنے آشیانے سے باہر نکلے ـ ـ ـ فرشتے بھی عجیب ہیں، اب انکی جگہ انسانوں کو متعین کرنا پڑے گا ـ رات بھر بارش، گھٹنوں تک پانی ـ صبح اُٹھے تو پھر بھی بوندا باندی! تیار ہوکر باہر نکلے ہی تھے اپنے ہی آشیانے پر پھسل پڑے ـ شکر ہے کسی نے دیکھا نہیں ورنہ یہی وقت ہے گیٹ کے سامنے اسکولی بچّوں کا کاروان گذرتا ہے ـ کپڑے کیچڑ میں لت پت ـ بچّوں کا کیا، انکو ایسا ہی منظر پسند ہے کہ تالیاں بجاکر ہنستے ـ

نہا کر صاف ستھرے کپڑے پہننے کا یہ صلہ ملنا تھا ـ دوبارہ نہانے کے بعد دوبارہ تیار ہونا پڑا ـ لگاتار موبائل بج رہا ہے، ہر کوئی ہمیں اپنی خدائی یاد دلا رہا ہے کہ صبح کے دس بج رہے ہیں ـ حالانکہ ہمیشہ صبح نو بجتے ہی ہم خدا بن کر تیار ہوجاتے ـ آج ذرا لیٹ ہوگئے تو کیا ہم خدا نہ رہے؟ سڑک کی دونوں جانب بارش کا ٹھہرا ہوا پانی، ہر جگہ ٹرافک جام ـ ابھی یاد آیا کہ ہم خدا ہیں چاہے تو دھواں بن کر غائب بھی ہوسکتے ہیں یعنی دفتر سے چھُٹی مار سکتے ہیں ـ

صبح جو پھسلے تھے شام کو احساس ہوا کمر اور گاف میں کھٹّا میٹھا درد ہو رہا ہے ـ چار بجنے سے پہلے ہی اپنی خدائی کو خیرباد کہا ـ ہماری اُڑن طشتری کے شیشے میں دیکھا وہ بھی پکار رہا ہے کہ آج آپ کی خدائی کو کیا ہوگیا؟ بس میاں، گاف پھٹی ہے عرصہ ہوا پھسلے ہوئے ـ کسی کو بتا بھی نہیں سکتے ورنہ لوگوں کی ہنسی چھوٹ جاتی کہ آجکل خدا بھی پھسلنے لگے ـ برسات کا موسم ہے صرف دو دن پہلے اپنی اُڑن طشتری دھلوائی تھی مگر آج پھر منہ چِڑا رہی ہے ـ جاری

باقی پھر کبھی


[ یہ خدا ہے ـ 77 ]

posted by Shuaib at 11:14 AM 0 comments

Post a Comment

بس یوں ہی !

میاں، الیکشن ولیکشن ختم ہوچکے، اب تو ہمیں جیل سے باہر نکاکلو ـ واللہ عرصہ ہوگیا کھلا آسمان جو دیکھے ـ اگر فرشتوں کو پتہ چل گیا کہ خدا جیل میں بیٹھے ہیں پھر ہماری کیا عزّت ہوگی ـ حکومت نے وعدہ کیا تھا الیکشن ہونے تک جیل میں آرام کرلینا تاکہ پُرامن انتخابات ہوں نہ کہ قدرتی چمتکار ـ ٹیلیویژن کیبل ٹھیک نہیں ہاتھ میں پکڑے بیٹھنا سونا پڑتا ہے پھر اُٹھ کر ٹیلیویژن کو تھپتھانا بھی ہوتا ہے ورنہ چینل ہلنا شروع ہوجاتا ہے ـ داروغہ صبح جو اخبار لاتا ہے سبھی صفحوں پر چائے کے دھبّے ہوتے ہیں، پہلے وہ پڑھتا ہے پھر ہمیں تھماتا ہے اور پورے اخبار کی ماں بہن ایک جیسی، سُرخیاں خاص ایسی کہ لنکن فوج نے طالبان کو ملیکا شیراوت کا خیرمقدم کرتے ہوئے ورون گاندھی پر ذمہ داری عائد ہونے سے قبل سونیا گاندھی کا سوئن فُلو اعلان کے بعد سوات معاہدے میں نریندر مودی کے بیان ـ ـ ـ ـ اِسکی ماں کی اُسکی بہن کی، پورا اخبار جیسے چھید ہے ـ

وہاں سؤر کے بچّوں نے وباء پھیلانا شروع کردیا، لوگ خدا کی پناہ مانگ رہے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ اُن کی مدد کو جائیں جسطرح پچھلی بار لاکھوں مرغیاں ہلاک کر ڈالے اب سؤروں کے ساتھ پنگا لینا ہے ـ پھر کیا معلوم گائے بھینس اور بھیڑ بکریوں سے بھی وباء پھوٹے ساتھ میں "دودھ کا فُلو"، بالآخر سبھی لذیذ پکوانوں سے ہاتھ دھونا پڑے ـ بھارت کا "جوتا فُلو" مگر پتہ نہیں فیشن ہے کہ وباء ـ عجیب لوگ صرف ایک جوتا پھینکتے ہیں جوڑا پھینکے تو بات بنے ـ اِس وباء یا فیشن کیلئے بابائے جوتا فُلو بش ذمہ دار ہیں، اگر یہ دونوں پاؤں کے جوتے کھالیتے تو اچھی شروعات تھی ـ

ہم اپنے جلسوں میں ہنسی خوشی جوتے چپّل وصول کرلیتے بعد میں جنّت ایکسپورٹ کرتے کیونکہ وہاں آج بھی ہمارے فرشتے ننگے پاؤں گھوم رہے ہیں ـ ویسے اپنے جلسوں میں جوتے چپّلوں کی بارش ہوتی ہی ہے پھر بھی کم پڑتے ہیں کہ 74 ویں قسط لئے دوبارہ ٹپک پڑے ـ بارش سے یاد آیا، ہمارا احوال ایسا کہ اپنے ہی پسینے میں آدھے ڈوبے کھیلتے ـ اب کی گرمیاں ایسی کہ منہ سے بھی پسینہ چھوٹے ـ یہاں جھاڑیاں بھی نہیں کہ تھنڈی ہوائیں چلے، درختوں کی کٹائی اتنی تیز ہوگئی جتنی کہ عمارتیں بھی نہیں بنتیں ـ سوکھی گرم سڑکیں، پسینے میں بھیگے چہرے ـ شکر ہے دہلی، بنگلور وغیرہ میں بوندا باندی شروع ہوچکی ـ ـ تم فرشتو بارش برساؤ کہ پسینے میں بھیگ لیئے اب کیچڑ سے نہانا ہے ـ

گرما کی چھٹیاں ختم، اب دوبارہ اسکول شروع ہونے لگے دوسری طرف سوات سے ہزاروں لوگ بے گھر آر پار ہونے لگے جیسے سؤر کی وباء سے مشرق و مغرب دہل گئے وہاں لنکن فوج اور ٹمل باغیوں نےآپس میں ملکر ہزاروں عوام کو مار ڈالے ـ ماشاء اللہ ایک سانس میں ہم بہت بول دیئے ـ آجکل بھڑاس ہم سے اُتاری نہیں جاتی ہم خود بھڑاسی ہوگئے پتہ نہیں کیوں ایسے ہوگئے ـ نہ تو سیاست سے لگاؤ ہے نہ کوئی فلمی شوق ـ کسی سے واسطہ نہیں کلام سلام بھی نہیں جیسے سبھی سے الگ تھلگ ہولئے ـ کوئی غم نہیں خوشی بھی نہیں کوئی شکایت نہیں کوئی آس نہیں کوئی پیاس نہیں اور کوئی پلان بھی نہیں باوجود پھر بھی 74 ویں قسط لئے حاضر ہوئے ـ 

نہ جانے کیوں ہم خدا بن گئے ـ یہاں اتنے سارے خداؤں کے باوجود خوامخواہ ہم بھی بیچ میں ٹپک پڑے ـ اپنی دمادم جنّت چھوڑ دھرتی پہ آدھمکے ـ اگر ہم خالص ہندوؤں کے خدا ہوتے تو عجب رنگوں میں رنگ ہاتھ میں بھالا تھامے کھڑے رہتے، اگر عیسائیوں کے خدا ہوتے تو پوری عمر سولی پر ٹنگے رہتے مگر مسلمانوں کا خدا ہی حافظ ـ ہم خود خدا ہوکر بھی طالبان نام سے رونگٹھے کھڑے کرلیتے سوات اور پاکستان دو الگ مذہبوں کے بیچ لٹکا دیئے جاتے ـ ـ کیا عجب خدا ہیں ہم! خود تماشہ بن گئے دنیا کے رنگوں میں رنگ گئے کیا معلوم ہم بھی انسان بن گئے؟ مذہبوں کی دراڑ میں پِس گئے ـ ـ لا پتہ خداؤں کا جلوس نکالتے ہو، ماتم کرتے ہو قصیدے پڑھتے ہو، انجان خدا کی بارگاہ میں سجدے ٹھونکتے ہو، بے جان مورتیوں کے سامنے ڈھونگ کرتے ہو ـ ـ پھر بھی اپنے خداؤں سے انجان رہتے ہو، مرنے کے بعد جنّت کی تمنّا میں رہتے ہو یا پھر دوبارہ پیدا ہونے کی سوچتے ہو ـ ـ

اپنی سبھی قسطوں میں عجب باتیں ہیں سمجھنے کی نہ سمجھانے کی ـ سبھی ماؤں کی قسم! جن کے پیٹ سے انسان پیدا ہوتے ہیں، جنّت کسی کے باپ دادا کی جاگیر نہیں ـ تم انسانوں کی جنّت یہ زمین ہے، پیدا ہونا، اناج سبزی کھانا، ہگنا موتنا، قبریں کھودنا مُردوں کو جلانا ـ ـ یعنی تمہاری پیدائش اور مرنا دونوں یہیں ـ اگر تمہیں واقعی جنّت دیکھنی ہے ڈسکو جاؤ، میخانے جاؤ، عیش و آرام کرو اور خوش رہو لیکن منہ لٹکائے بیٹھے نہ رہو مگر پلیز اپنی عبادات سے جنّت کا خواب نہ دیکھو کیونکہ جنّت صرف خدا نے اپنے لئے خاص بنائی ہے نہ کہ کسی مرے ہوئے انسان کو یہاں گاڑنے واسطے ـ ـ پھر ہم پٹری سے اُتر آئے، یہ قسط لکھنے کا قطعی مُوڈ نہیں ـ اناپ شناپ تو ہمیشہ سے ہی چھاپتے ہیں ـ ـ جاری


باقی پھر کبھی


[ یہ خدا ہے ـ 74 ]

posted by Shuaib at 11:09 AM 0 comments

Post a Comment

اسکول ڈے (تیسرا پارٹ)

کلاس روم کی زینت بڑھانے کیلئے خدا نے ہیڈمِس زینت کو بلایا اور شکایت کردی:
بڑے عجیب قسم کے بچے ہیں، ہم پڑھا رہے ہیں اور یہاں دیکھئے سب منہ کھولے سو رہے ہیں ـ
ہیڈمِس زینت نے خدا سے کہا: آپ بچوں کو کچھ ایسا پڑھائیں کہ وہ جاگ جائیں مگر ویسا نہ پڑھائیں کہ بچے سو جائیں ـ
خدا نے کہا: تب تو ٹھیک ہے، ہم بچوں کو کالا جادو بتائیں گے کہ وہ جاگ اُٹھیں ـ
خوفناک کھنکارتے ہوئے خدا نے بچوں کو جگایا پھر اپنی جیب سے جادوئی ڈنڈا نکالا ـ
تو بچو! یہ ہے جادو کا ڈنڈا، اس کو ذرا گھمایا، دیکھو ہم اوباما بن گئے پھر یہ دیکھو اُساما بھی بن گئے ـ اب ہم ڈائناسور کی شکل میں آئیں گے ـ ـ ـ
سب بچوں نے ایک چیخ ہوکر کہا: بس رُک جائیے ـ اگر ہوسکے تو اپنے جادوئی ڈنڈے سے ہماری حساب کی ٹیچر کو غائب کردیں وہ بہت دماغ کھپاتی ہیں ـ

موڈ بنانے کیلئے خدا نے بچوں سے پوچھا: جب تم بڑے ہونگے تو کیا بنو گے؟
سب بچوں نے ایک آواز کہا: امیر ہونگے ـ پھر کار خریدیں گے اُسکے بعد ڈسکو جائیں گے ـ
خدا نے بچوں سے کہا: پھر شری رام سینا کے ڈنڈے بھی کھائیں گے! ہے نا ـ
ایک بچّی نے خدا سے پوچھا: جب آپ بچّے تھے تب بڑے ہوکر کیا ہونے کی سوچتے تھے؟
خدا نے بتایا: ہم ـ ـ ـ سوچتے سوچتے پاگل ہوگئے تھے پھر اچانک خیال آیا تو جھٹ سے خدا بن گئے ـ
خدا نے کہا: آؤ بچو! ہم سب ملکر دعاء کرتے ہیں کہ وزیراعظم منموہن سنگھ جلد صحتیاب ہوں ـ
ایک بچّے نے فورا کہا: آپ رِیتک انکل کیلئے بھی دعاء کریں، فلم کی شوٹنگ کے دوران بیچارے زخمی ہوگئے ـ

فلسطین میں شہید بچوں کی تصویر دکھاکر روتے ہوئے خدا نے کہا: اسرائیل نے ایک اچھا کام کر دیا، اِن بچوں کو بچپن میں ہی مار ڈالا ـ ـ ہائے افسوس اگر وہ بڑے ہوجاتے تو مجاہد ہوتے ـ جہاد کے نعرے لگاکر دنیا کی دوسری قوموں سے نفرت کرتے، خیرات کے پیسوں سے ہتھیار خریدکر تباہیاں مچاتے ـ ـ ـ اچھا ہے وہ فلسطینی بچے بچپن میں ہی مرگئے یعنی اپنی معصومیت کو برقرار رکھتے ہوئے شہید ہوگئے ـ کاش! طالبان، القاعدہ اور دیگر جہادی گروہ کے لوگ بھی بچپن ہی میں مرجاتے ـ

ایک بچّی نے خدا سے پوچھا: کیا میں بڑی ہوکر ڈسکو جاسکتی ہوں؟
خدا نے جواب دیا: ہاں ضرور جاسکتی ہو ـ کیونکہ اِس دنیا میں ڈسکو سے بڑھ کر اور کوئی مقدس جگہ نہیں ـ جہاں خوشیاں ہوں اور موج مستی بھی ہو، بھلا اِس سے بڑی اور کونسی عبادت ہوسکتی ہے!
ڈسکو میں سبھی لوگ آتے ہیں جس طرح سرکاری ٹرانسپورٹ میں سب ایک ساتھ بیٹھتے ہیں ـ سنیما ہال میں بھی ایسا ہی ہے ـ ہوٹل ریسٹورنٹ میں سبھی قسم لوگ آتے ہیں کوئی ٹوپی پہنے کوئی پگڑی، کوئی برقعہ اوڑھے تو کوئی دوپٹہ اور ساڑی ـ ـ ـ یہ عام بات ہے اور عام زندگی بھی جس میں بہت لطف ہے مگر کچھ کٹّر مسلمانوں اور شری رام سینا کے کچھ لوگوں کو یہ عام باتیں اور عام زندگی سمجھ نہیں آتی ـ ـ جاری


باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 71 ]

posted by Shuaib at 11:08 AM 0 comments

Post a Comment

بھوک کی آواز

کسی نے پوچھا: بھارت اور پاکستان کی جنگ میں جیت کس کی ہوگی؟ خدا نے جواب دیا: میاں، یہ تو طئے ہے نقصان عام لوگوں کا ہی ہوگا فرق صرف اتنا کہ پاکستان کو جس کام کیلئے تیس منٹ درکار ہوں وہیں بھارت صرف دو منٹوں میں تمام کام کر دے ـ لیکن تعجب کی بات ہے کہ سالوں بعد آج بھی امریکہ طالبان کے آگے جھولا جھول رہا ہے دوسری طرف عراق میں بغیر ٹکٹ کے لوگ ہر دن خون کا میلہ دیکھتے ہیں ـ

ڈاکٹر کے آگے اپنا بڑا سا منہ کھول خدا نے شکایت کردی: نیند میں گھٹیا قسم کے خواب آنے لگے ہیں، فلسطینیوں کی چیخیں سنائی نہیں پڑتی مگر اِنکی حمایت میں دنیا بھر سے اُٹھنے والے احتجاجوں سے ہمارے کان پک گئے ـ ـ ـ برائے مہربانی اچھے خواب کیلئے کوئی اچھی دوائی تجویز کریں ـ چونکہ ہم ذرا کمزور دل ہیں، کسی پر ظلم ہوتے دیکھ نہیں سکتے اور مظلوموں کی درد بھری چیخیں ہمیں برداشت نہیں ـ

ٹی وی اشتہار میں بچّے نووڈلس کھانے کیلئے بھوک کی آوازیں نکالتے ہیں اور ہمیں ہر طرف سے احتجاجیوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں ـ پتہ نہیں کچھ لوگوں کو کونسی بھوک لگی ہے کہ سڑکوں پہ آکر فلسطینیوں کی حمایت میں نعرہ مارے حالانکہ باقی ترقّی پذیر لوگ چین و سکون سے ہیں ـ اکثر احتجاجیوں میں وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس آمدنی کم اور مزدوری زیادہ کرتے ہیں ـ

امیر اور تعلیم یافتہ لوگ پرُسکون زندگی پسند کرتے ہیں، ٹی وی پر مظلوموں کی درد بھری چیخیں اور پُرتشدد نظارے دیکھتے نہیں بلکہ بزنس نیوز زیادہ پسند کرتے ہیں ـ اور عام غریب بھوکے، بے روزگار لوگ اِن کے کان ترستے ہیں کہ کہیں سے مظلوموں کی چیخیں سنائی دیں اور یہ جھٹ سڑکوں پہ احتجاج کیلئے اُتر آئیں ـ اِن احتجاجیوں میں اکثر غیر تعلیم یافتہ اور بے روزگار ـ کسی بھی قسم کا احتجاج ہو اپنا فائدہ نکالنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ـ

خدا نے کہا: پچھلی قسط میں ہم نے لکھا بھی تھا اگر فلسطینی حق پر ہوتے تو خدا کی پناہ میں ہوتے نہ کہ دنیا بھر کے احتجاجیوں سے ہمدردیاں بٹورتے ـ ہندوؤں کو کافر اور یہودیوں کو شیطان کہنے والوں کا حشر یہی ہوتا ہے ـ کسی کو حق نہیں کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بدّعاء دے ـ یہ فلسطینی ہمیشہ دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ ہندو، یہودی اور عیسائیوں پر تباہی آئے اور دنیا پر یہ راج کریں ـ آج انجام ظاہر ہے ـ

دنیا بھر سے عطیہ جات کھانے والے فلسطینی، صرف خواب ہی دیکھتے رہیں کہ ایک دن یہ دنیا پر راج کریں گے ـ بھارتی عوام کے دیئے ہوئے ٹیکس سے ہر سال بھارت سرکار اُن فلسطینیوں کو کچھ نہ کچھ خوراک، ادویات بھیجتی رہتی ہے ـ یہ فلسطینی ہندوؤں (کافروں) کی بربادی کیلئے خدا سے روز افزوں دعائیں مانگتے ہیں ـ گھجنی کے گنجے عامر کی قسم! جب ارادے ہوں پکّے اور جذبات بھی ہوں سچّے تو کامیابی خود چل کر قدم چومے ـ

کسی کا خدا بھالا تھامے کھڑا ہے، کسی کا سولی پر ٹنگا ہے اور کوئی شروع سے غائب ہے ـ مگر اِن سب خداؤں کے ہم اکیلے خدا ہیں، چاہے ہمیں رام بولو یا رحیم بولو ـ لیکن ہم نے کوئی مذہب نہیں بنایا سوائے انسان کے ـ نہ تمہاری دعائیں قبول نہ پوجا ـ تم سبھی انسان ایکدوسرے کی مدد کے واسطے ہو نہ کہ خدا کی عبادت کیلئے ـ یہ دنیا تمہاری ہے مارو یا مرو یا پھر ہنسی خوشی سب ساتھ ملکر رہو ـ تمہاری مرضی ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 70 ]

posted by Shuaib at 11:07 AM 0 comments

Post a Comment

آؤ ـ جنگ جنگ کھیلتے ہیں

شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کو صرف جوتے پڑے تھے ـ میاں، ہمیں دیکھو بغیر انڈے اور سڑے ٹماٹر کے ہمارا کوئی بھی جلسہ اختتام کو پہنچتا ہی نہیں ـ اور ویسے بھی آپ خوش قسمت ٹھہرے جو پڑھے لکھے صحافی کے ایکساتھ دونوں پاؤں کے جوتے مل گئے ـ ہمارا بھی دل کرتا ہے کہ لوگ ہمیں جوتے چپّل مارے تاکہ ایک اچھی سی شوروم کھول لیں ـ مگر اپنی بدقسمتی دیکھو ہمارے جلسوں میں اکثر غریب لوگ آتے ہیں، سوائے انڈے اور سڑے ہوئے ٹماٹروں کے اور کچھ نہیں دیتے ـ

خدا نے بُش سے کہا: شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، جاتے جاتے تحفے میں جوتے بھی مل گئے یہ الگ بات ہے کہ سائز میں تھوڑے بڑے تھے ـ ایک زمانہ تھا جب ہمیں بھی کئی جوتے اور چپّل پڑے مگر سبھی کے سبھی ہمارے سائز کے نہ تھے ـ پھر ہمیں آئیڈیا آیا، فُٹ ویئر کی دکان کھول لی ماشاء اللہ خوب چل نکلی ـ اگر آپ کو بھی عراق میں زیادہ سے زیادہ جوتے چپّل پڑتے تو ریٹائرمنٹ کے بعد آپ بھی فُٹ ویئر کی دکان کھول لیتے مگر افسوس ایسا ہوا نہیں ـ

گھبرانے کی بات نہیں، ہم سب ملکر سارا غصّہ پاکستان پر اُتاریں گے ـ غصّہ نکالنے کیلئے کچھ تو بہانہ چاہئے اب پاکستان ہی صحیح ـ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ جنگ کھیلیں گے، دھوکے سے ہزاروں عوام کو ہلاک کریں گے پھر زخمی لوگوں کو دوائی کھلانے کے بعد اُن دونوں ممالک کی آپس میں صلح بھی کروائیں گے ـ ہے نا مزے کی بات، ہمارا غصّہ نکلے گا پھر وہ بھی خوش ہم بھی خوش ـ ہمارے پاس بہت سے آئیڈیاز ہیں، آخر ہم خدا ہیں ـ

خدا نے بتایا: ہیمنت کرکرے کو شہید ہونا ہی تھا ورنہ سارا کا سارا بھانڈا پھوٹ جاتا ـ اُسکی شہادت پر ہمیں بھی افسوس ہے مگر اچھا ہے بھانڈا نہیں پھوٹا ـ سیدھی سادھی عوام ہے جیسا میڈیا بولے اُسی کو سچ مانتی ہے آخر میڈیا بھی تو ہمارا اپنا ہے ـ ہند اور پاک کی برسوں پُرانی نفرت کو بالآخر جنگ جنگ کھیل کر یہ نفرت ہمیشہ کیلئے ختم کرنے ہم نے باقاعدہ پلان بنایا ہے ـ دونوں ملکوں کی عوام سے عاجزانہ درخواست ہے، اگر موت آئے تو مرجانا مگر خدا کو گالی نہ دینا ـ آخر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ـ

زہر بھرے بم، زمین سے زمین اور سمندر سے سمندر پھینکے جانے والے میزائل ـ ـ منٹوں میں ہزاروں لوگوں کے پرخچے، چیخ و پکار ـ ـ یہ سب آپ نے کتابوں میں پڑھا ہوگا اور فلموں میں بھی دیکھا ہوگا ـ اب حقیقت میں بھی دیکھلیں ـ اگر ہماری باتیں سمجھ نہ آئے تو عراق و افغانوں سے پوچھلیں حال ہی اِنہیں کافی تجربہ ملا ہے ابھی بھی ہر دن تجربوں سے گذر رہے ہیں ـ بچوں کیلئے نہ دودھ، نہ سبزی ترکاری، ہر طرف آہ و بکار ـ ـ مگر فکر نہ کریں آخر میں مدد کیلئے ہم خود آئیں گے، تم بچے کُچے لوگوں کو دانہ پانی دیکر داد بھی پائیں گے ـ

خدا نے فرمایا: جب تم انسان آپس میں ایکدوسرے کی مارنے کیلئے نہیں شرماتے تو ہم تمہاری مارنے کیلئے کیوں شرمائے؟ اگر تمہیں مزہ آتا ہے تو ہمیں تم سے بھی زیادہ مزہ آتا ہے ـ یہ بم یہ میزائل سب تمہیں انسانوں کے بنائے ہیں اب خود تم پر ہی استعمال ہونگے جسطرح مذاہب بناکر تم خود مذہبی ہوگئے ـ ـ سمجھ نہیں آ رہا کہ اِس قسط میں اور کیا کیا لکھیں، جب اِس کے پڑھنے والوں کی سمجھ میں ہی کچھ نہیں آئے تو کیوں خوامخواہ اپنے پیراگراف بڑھاتے چلیں ـ ـ بھارت اور پاکستان کو جنگ مبارک ـ اگر جنگ نہ ہو، یا پھر ہم زندہ بچ گئے تو اگلی قسط میں حاضر ہونگے ـ ـ جاری


[ یہ خدا ہے ـ 69 ]

posted by Shuaib at 11:06 AM 0 comments

Post a Comment

سلام دہشت گردوں پر

کڑاکے کی سردی میں لحاف میں لپٹے خدا کو جگانا کوئی آسان کام نہیں ـ صبح کا اخبار بھی ٹھیک نہیں تھا، ممبئی کی سرخیوں کے سوا کوئی اور خبر نہیں تھی ـ ٹی وی چینلز میں اینکرز ایسے بوکھلائے جا رہے تھے جیسے خود بم پر بیٹھ کر خبریں بول رہے ہوں ـ صرف دو دنوں میں اتنا ٹی وی دیکھ لیا جتنا دو سال کا کوٹہ مکمل ہوگیا ـ فون پر پولیس والوں سے کہا بھی کہ پلیز، ذرا اِن میڈیا والوں کو دور ہٹاؤ کیونکہ اسکرین پر کچھ بھی دکھائی نہیں پڑ رہا ـ آرمی اور پولیس والوں سے زیادہ میڈیا والے ایک پر ایک چڑھے ہوئے ـ اُس دن ساری دنیا نے میڈیا والوں کا تماشہ دیکھ لیا جو اب تک دوسروں کا تماشہ دکھاتے آرہے تھے کہ خود تماشہ بن گئے ـ

آج بہت بُرا دن تھا، بابری مسجد کی سولہویں برسی کا کیک بھی نہیں کاٹا گیا ـ اور کاٹتے بھی کیسے؟ یہ جو ممبئی میں نیا حادثہ پیش آگیا جبکہ ہر سال پابندی کے ساتھ خدا نے بابری مسجد کی شہادت کا کیک کاٹنا نہیں بھولا ـ ـ خدا نے بتایا: ہم نے ایک سے ایک ڈرامے دیکھ ڈالے مگر حالیہ ممبئی میں 26/11 کا ڈرامہ کافی دلچسپ رہا ـ لیکن عام لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ڈرامہ خود میڈیا والوں ہی نے رچایا تھا ـ خدا نے سمجھایا بھی کہ میڈیا والے خود وہاں ایک پر ایک چڑھے ہوئے تھے جیسے جنگ کے میدان میں ایکدوسرے کی خوب مار رہے تھے ـ سرکار اور میڈیا والے سمجھتے ہیں کہ عام لوگوں کو کچھ بھی پتہ نہیں ـ آج عام لوگ سب کچھ جانتے ہوئے بھی میڈیا اور سرکار دونوں کی سُن رہے ہیں جیسے بیوقوف نہ ہوتے ہوئے بھی بیوقوف ہونے کا ناٹک کر رہے ہیں ـ

9/11 کا بہانہ بناکر افغانستان کی خوب ٹھوک دی تھی اب ممبئی کے 26/11 کو لیکر پاکستان پر چڑھائی کا بہانہ بھی مل گیا ـ مگر بھارت کسی خوش فہمی میں نہ رہے کیونکہ آخر میں اِس سے بھی حساب لینا ہے ـ ہم جس جس کو اپنی گودی میں بٹھاتے ہیں بعد میں زبردستی انڈا دینے کیلئے اُس کا مرغا بھی بنا ڈالتے ہیں ـ ہمارا سلام ہے اُن جانباز دہشت گردوں پر، جو بڑی چالاکی سے ممبئی آئے، بڑے بہادر تھے کہ مرنے اور مارنے کیلئے آئے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر ہلاک بھی ہوگئے ـ بہت اچھا کیا جو اِنہیں ہلاک کردیا ورنہ ایک ایک کی پول کھُل جاتی ـ ویسے بھی ہم سچّی مچّی کے خدا ہیں، اگر اجازت ہو تو سبھی راز فاش کردیں ـ ہم سب جانتے ہیں آخر ہم خدا ہیں ـ

عید کا دن خوب بکرے چبانے کے بعد خدا نے کہا: ہمیشہ سے مسلمان کا رونا ہے کہ پوری دنیا میں صرف مسلمانوں پر ہی ظلم ہو رہا ہے اور باقی لوگ آرام سے ہیں ـ مسلمانوں کو اپنی قسمت پر رونا آتا ہے تو ذرا عرب ممالک جھانک آئیں کہ وہاں کے مسلمان دنیا سے بے خبر کس طرح عیش و آرام سے زندہ ہیں ـ اِن عرب مسلمانوں کو ذرا بھی فکر نہیں کہ دنیا میں ایسے کتنے ممالک ہیں جہاں لوگ ظلم اور بھوک سے ہر دن لڑ رہے ہیں ـ باوجود پھر بھی مسلمانوں کا رونا ہے کہ امریکہ، یوروپ اور بھارت سب ایک ہوکر ہم مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں ـ جیسا کہ مسلمان ہونا ہی جیتے جی عذاب بن گیا ـ میاں، خود کے پیروں پر کلہاڑی مارنے کو کیا عذاب کہا جائے؟

خدا نے کہا: دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، یہ تم انسانوں کو جگانا چاہتے ہیں کہ سب آپس میں ایک ہوجاؤ ـ دلّی، جئے پور، مالیگاؤں، حیدرآباد اب ممبئی ـ ـ کہاں کہاں نہیں جگایا ـ کچھ دنوں کیلئے لوگ جاگ اُٹھتے ہیں، سبھی اچانک انسان بن کر امن جلوس نکالتے ہیں، ایک سے ایک بھاشن سنتے ہیں اور سب ملکر دہشت گردوں کی لعنت ملامت کرتے ہیں ـ اور کچھ ہی دنوں میں سب بھول بھال کر ایکدوسرے کی مارتے ہیں اور خود اپنی بھی مرواتے ہیں جیسا کہ خود دہشت گرد ہیں ـ بھلے اِن دہشت گردوں کا لِنک کسی سے بھی رہا ہو، مگر یہ جس کام کیلئے بھی آتے ہیں اپنے مقصد میں اکثر کامیاب رہتے ہیں بھلے کیوں نہ اپنی جان گنوانی پڑے ـ

ـ ـ ابھی اپنے منہ سے پانی چھوٹ رہا ہے، پچیس دسمبر کو ڈھیر سارے کیک کھانے کو ملیں گے اور ساتھ میں چاکلیٹس بھی ـ کرسمس کا مطلب کچھ بھی ہو مگر ہمیں تو کیک کھانے سے مطلب ـ ـ خدا نے بتایا: کتنے اچھے دن چل رہے ہیں، ابھی عید قربانی کا گوشت ہضم ہو پایا نہیں کہ بہت جلد کرسمس کی مٹھائیاں کھانے کو ملیں گی اور ساتھ میں چھٹیاں ہی چھٹیاں، موجاں ہی موجاں ـ ابھی سے دل مچل رہا ہے، کہیں دور ٹرین میں جانے کو من کر رہا ہے کیونکہ اس میں باتھ روم بھی اٹاچ ہے ـ مگر جائے تو کہاں جائیں! ڈر لگتا ہے، کوئی بھی شہر دھماکوں سے خالی نہیں، ٹرین اور پلین میں بھی خیریت نہیں ـ اب جنگل میں پہلے جیسا منگل نہیں، عبادت خانوں کی نفرت اب سیاحت گاہوں تک پھیل چکی ہے ـ

پہلے مسجد، مندر میں بم دھماکے اب ترقی کے ساتھ فائیو اسٹار ہوٹلز بھی نشانے پر جیسا کہ عیّاشی کرنے والوں کی بھی خیر نہیں ـ تعجب ہے، صرف غریبوں کو بے موت مرتے دیکھا اب امیروں کی بھی شامت آئی ہے ـ ـ ہم صرف خدا ہیں، تم انسانوں کا جینا مرنا خود تمہارے ہی ہاتھوں میں ہے ـ گذرے زمانوں سے ایکدوسرے کی مارتے آرہے ہو اور اپنی بھی مروا رہے ہو ـ خود ایکدوسرے کے دشمن اور بیچارے شیطان کو بدنام کرتے ہو ـ ذرا اپنے اندر جھانک کر دیکھو تو ڈر جاؤگے کیونکہ خود کے اندر ایک شیطان پاؤگے ـ تم انسان اچھے بُرے سبھی کام کرتے ہو اور شیطانی بھی خود کرتے ہو ـ خود ظالم خود مظلوم، خود امیر خود غریب ـ تمہیں شرم تو آتی ہے اور دوسروں کو بھی شرمندہ کرنا جانتے ہو ـ بالآخر عبادت کرکے اپنے خداؤں کو بھی دھوکہ دیتے ہو ـ

ڈکار لینے کے بعد خدا نے کہا: قربانی کے کباب تو اچھے ہیں مگر کیا یہ بکرے کے ہیں؟ خیر جو بھی ہیں بڑے لذیذ ہیں ـ ـ تو ہم فرما رہے تھے: تم انسانوں کی زندگی خود تمہارے ہی ہاتھوں میں ہے بھلے ایک دن موت مقرر ہے ـ چاند پر چڑھ گئے، خلاء میں جھول بھی لئے، کمپیوٹر، موبائل کے ساتھ زہریلے ہتھیار بھی بنالئے ـ ـ اب ہم کسی پر عذاب نہیں اُتارنے والے، تم انسان خود ایکدوسرے پر عذاب ہو ـ خود ہنساتے ہو خود رُلاتے ہو ـ ـ دوسروں کی پھاڑتے ہو اپنی پھٹے تو چیخیں مارتے ہو ـ ـ پولیس والے بھی تم خود، ملٹری، سرکار، کنڈیکٹر، ڈرائیور، چور، ڈاکو، سائنسدان، ڈاکٹر، لوٹیرے اور دہشتگرد سب کے سب تم ہی ہو ـ یہاں تک کہ اپنے مذاہب بنانے والے، اپنی مقدس کتابیں لکھنے اور لوگوں کو ذاتوں میں بانٹنے والے خود تم انسان ہو ـ ہم تو بس خدا ہیں ـ

بس بھئی، بہت ہوگیا ـ آج کیلئے اتنا ہی کافی ہے ـ ویسے بھی خدا کی بکواس کون پڑھے ـ وہ حالات کے تحت ہم ذرا جذباتی ہوگئے اور بڑے دنوں بعد 69 ویں قسط پوسٹ کردی ـ چاہتے تو اور بھی بہت بھڑاس اُگلنا چاہتے ہی ہیں مگر ہم پہلے سے اپنی اِن قسطوں کیلئے بدنام ٹھہرے ہیں ـ کچھ لوگوں کو ہماری قسطوں میں نفرت کی بدبو آتی ہے، بھلا ہم کِس سے نفرت کریں! ہمارا تو کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں ـ سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ ہم قادیان ہیں، شیعہ یا سنّی ہیں یا پھر ہندو عقیدے کے مسلمان ـ ـ ہم تو سیدھے شریف اور اصلی خدا ہیں نہ کہ تم انسانوں کے بناوٹی خدا ـ ـ چاہے رام بولو، رحیم بولو، عیسی یا موسی بھی پُکارلو، ہم اِس سارے جہاں کے ایک اکیلے مالک ہیں ـ ـ جاری


باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 68 ]

posted by Shuaib at 11:05 AM 0 comments

Post a Comment

آج کی تازہ خدائی

لافٹر شو میں پہلی بار چیف گیسٹ خدا نے آتے ہی کھلکھلاکر ہنسنا شروع کردیا، ماتھا پیٹا جبڑے پھاڑ لئے ـ آرگنائزرس نے خدا کو کئی بار روکا ٹوکا مگر وہ ہنستے ہنستے پیٹ پکڑ کر لوٹ پوٹ ہونے لگے ـ بالاآخر سیکوریٹی کے ذریعے زبردستی خدا کو اسٹوڈیو سے باہر پھینکنا پڑا مگر یہاں بھی چھاتی پیٹ کر ہنسنے لگے ـ گلا سُوکھا خدا نے ہنسنا بند کردیا ـ جب میڈیا والوں نے ماجرا پوچھا تو فرمایا: میاں، آج ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ خوامخواہ ہنسنے میں سدّھو کا ریکارڈ توڑیں گے اور ہم جیت گئے ـ
وہائٹ ہاؤس کے گیٹ پر پہنچ کر خدا نے درباریوں سے کہا: دروازہ کھُلا رکھو کیونکہ اُوباما کبھی بھی وارد ہوسکتے ہیں ـ
سچِن کے نئے ریکارڈ پر شاباشی دیتے خدا نے کہا: بندہ ریکارڈس کا بھی ریکارڈ توڑ دیا، تعجب ہے! ہم بھی ایک بار ریکارڈ توڑنے ہی والے تھے کہ لبنان میں خود اپنی ہی ٹانگ تُڑوا بیٹھے مگر اب ایران میں ایسا نہیں ہوگا ـ
ہمیش ریشمیا کے قرض کا مذاق اُڑاتے خدا نے فرمایا: یہ قرض، ایسا نہ ہو کہ خود کیلئے بہت مہنگا پڑ جائے ـ
جب امیتابھ کو اسپتال سے چھُٹی ملی تو خدا نے حیرت سے پوچھا: یہ کتنے دنوں کی چھٹی ہے؟؟

بھارت کی آبادی پر خدا نے تعجب سے فرمایا: بچے دو ہی اچھے کا نعرہ لگانے والا ملک آج غیر ملکیوں کی بھرمار سے چُپ خاموش کیوں ہے؟ خود بھارتیوں کو نہیں پتہ کہ یہ کون لوگ ہیں جو ہمارے بیچ گھوم رہے ہیں! مزے کی بات یہ کہ اِن غیر ملکیوں کو بھول کر سبھی بھارتی آپس میں ایکدوسرے پر شک کی نظر رکھنے لگے ہیں ـ اور ملک کی سرکار کے بارے کیا کہنا، دہشت گردوں کے نام پر خود اپنوں کو لیکر جیل بھر رہی ہے ـ یوں ترقی کرنے والے بھارتی، ترقی کے نام پر خود اپنوں سے لُٹ رہے ہیں اور لوٹ رہے ہیں اور غیر ملکی یہاں عیش کر رہے ہیں ـ

اڑیسہ میں عیسائیوں کی موت اور آندھرا پردیش میں مسلمانوں کو جلانے پر خدا نے اپنا شک ظاہر کرتے فرمایا: ضرور یہ بھیڑیوں کی چال ہے جو انسانوں کے بھیس میں انسانوں کے بیچ ہی رہتے ہیں ـ اور اِن بھیڑیوں کو پہچاننا نہایت آسان ہے کیونکہ یہ کٹّر مذہب پرست ہوتے ہیں خود بھائی چارے کا نعرہ مارتے ہیں اور انسانوں کو خود چراتے ہیں ـ اور آخر میں ہندو، مسلم اور عیسائیوں کے بیچ نفرت پیدا کر دور بیٹھ تماشہ دیکھتے ہیں اور مزے کی بات ہے بعد میں خود مدد کیلئے بھی پہنچ جاتے ہیں ـ انڈین مجاہدین، بجرنگ دل، شیوسینا، بی جے پی اور کانگریس وغیرہ سبھی میں یہ بھیڑیئے پائے جاتے ہیں ـ

کشمیر میں پہلی ٹرین سروس کے بارے خدا نے دہشت گردوں سے کہا: مبارک ہو، اب بم رکھنے کیلئے نئی جگہ بھی مل گئی ـ
بھارت میں بڑھتے انکاؤنٹر پر خدا نے فرمایا: پولیس والوں کو اپنی تنخواہ کا احساس ہونے لگا ہے، یوں بیکار بیٹھنے سے عوام کی اُٹھتی اُنگلیوں نے پولیس والوں کو انکاؤنٹر اسپیشلسٹ بنا دیا ہے ـ
پرائیویٹ ٹیلیویژن چینلس میں بڑھتے رئےلٹی شوز پر خدا نے کہا: اب ریئلٹی شو میں بچوں کو بلاکر نچانا پھر انہیں رُلانا بھی پیسہ کمانے کا پیشہ بن گیا ـ
ٹاٹا نینو پر ترس کھاتے خدا نے فرمایا: غریبوں کو اتنا نہ ترساؤ کہ یہ سستی کار پر بھی ترس نہیں کھاتے ـ غریبوں کو سستی کار دی جا رہی ہے یا ترسایا جا رہا ہے؟
ایئر انڈیا سے بھی ہزاروں کرمچاریوں کو نکال باہر کرنے کی خبر پر تبصرہ کرتے خدا نے صرف اتنا کہا: اُمید ہے اب بھارتیوں تازہ ایئر ہوسٹرس دیکھنے کو ملیں گی ـ
مایاوتی اور سونیا گاندھی کے آپسی سوال جواب پر خدا نے کہا: بھاڑ میں جائے یہ دونوں، دونوں ہی بھارت کی ترقی میں کانٹا ہیں ـ
بھارت کی پانچ ریاستوں میں آنے والے چناؤ پر خدا نے بتایا: مبارک ہو، زبردست نوٹوں کی بارش ہونے کو ہے ـ

ایک صحافی نے خدا سے کہا: آپ تو بھارت کے بارے میں ایسا بولے جا رہے ہو جیسے ایک مداری بولتا ہے ـ خدا نے صحافی سے کہا: میاں، سچ کیا ہے تم بھی جانتے ہو مگر اپنے اخبار میں لکھتے کچھ اور ہو ـ یقین جانو، سب جان بوجھ کر چپ سادھ بیٹھے ہیں جب خود کے اوپر اُنگلی اُٹھے تو بغلیں جھانکتے ہیں ـ جاری

باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 66 ]

posted by Shuaib at 11:03 AM 0 comments

Post a Comment

ضرورت سے زیادہ خدا (خدا کی واپسی)

مہینوں خاموشی کو توڑتے ہوئے اچانک خدا کو پھر سے بکواس کی سوجھی، اور ہزاروں کا مجمع جلسہ گاہ کھینچ لائے پھر اپنی جیب سے پرچی نکال سرسری نظر ڈالتے ہوئے کھنکارنے کے بعد تقریر پڑھنا شروع ہی کیا تھا ایک صحافی نے کھڑے ہوکر پوچھ لیا: اتنا لمبا عرصہ کہاں جھک مار رہے تھے؟ خدا نے جواب دیا: بھلا ہم کہاں جاکر جھک مارتے؟ البتہ ڈانس کی ریہرسل میں مصروف تھے جو ہمیں اگلے دنوں ایران میں ناچنا ہے ـ

خدا کو بتایا: جب سے آپ اِس دھرتی پہ آئے ناچتے ہی رہے اور پہلی بار نہانے کیلئے سمندر میں چھلانگ کیا ماری سونامی اُبل پڑا ـ عراق، افغان میں آپ کے ناچنے کا اثر ابھی تک باقی ہے مگر لبنان میں ناچتے ہوئے خود اپنی ہی ٹانگ تڑوا بیٹھے اب جو ٹھیک ہوئی تو آپ ایران میں ناچنے کا شوق پال رہے ہیں! کیا یہی ناچنے کیلئے ہم انسانوں کے بیچ آئے؟ جبکہ کسی بھی دھرم کے خدا کو ناچنا تو کجا ایک ٹانگ پہ کھڑے ہونا بھی معلوم نہیں ـ ـ آخر آپ کے اِس ناچنے کا مقصد کیا ہے؟؟

بات ٹالتے ہوئے خدا نے کھنکارا اور مائک پر زور سے فرمایا: تو حاضرین کرام، ہم جانتے ہیں کہ اتنا عرصہ ہمارے غائب ہونے پر کسی کو ذرا بھی تعجب نہیں، ویسے بھی آپ لوگ ہماری تقریر پر کونسا دھیان دیتے ہو صرف اونگھتے ہو اور اپنی کلائی گھڑی دیکھتے رہتے ہو کہ کب خدا کی تقریر ختم ہو ـ ویسے ناچنے کی ریہرسل سے ہم کافی تھک چکے اور آپ لوگوں کے اُونگھنے سے پہلے ہی ہم آج کی اپنی تقریر تمام کردیں گے ـ

تو عرض ہے، حال ہی ہم نے بہار میں ایک چمتکار کر دکھایا، ہر بہاری کے گھر کے سامنے سوئمنگ پول بنا دیا تاکہ امیر اور غریب میں فرق نہ رہے مگر یہ کیا؟ ہمارے اس کارنامے پر شکرانہ ادا کرنے کی بجائے سب لوگ لعنتیں بھیج رہے ہیں! میاں، ایسا پہلی بار ہوا کہ ہماری نیک نیّت پر لعنت نصیب پائی ـ جبکہ لعنت اُن کشمیریوں پر ہونی ہے جو بھارت کی دھرتی پر کھڑے ہوکر پڑوسی ملک کی شان میں قصیدے گا رہے ہیں حالانکہ یہ تعجب کی بات نہیں، جب خود اپنے ہی کاٹتے ہیں تو ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں ـ

خدا نے فرمایا: اُبھرتے شہنشاہ اُوباما کی قسم، ایران میں ناچنے کے بعد پھر پاکستان میں جم کر بھانگڑا ڈالیں گے ناچیں گے اور سب کو ساتھ لیکر نچائیں گے ایسا ہمارا ارادہ ہے ـ خیر، یہ تو ہونا ہی ہے تم انسانوں نے خود ہمیں ناچنے اور نچانے پر اُکسایاہے ـ ویسے تو ہمارا ارادہ ہے رشیاء، شام، سوڈان وغیرہ ممالک میں بھی ناچ دکھائیں ـ حاضرین میں کسی نے خدا سے کہا: کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ ناچتے رہیں اور پیچھے سے چین آپ کی مار لے!

بھارت کے حالات پر خدا نے فرمایا: شمال سے جنوب تک کہیں بھی سکون نہیں، چھوٹے بڑے سبھی شہر دہشت کی لپیٹ میں ہیں ـ جگہ جگہ بم دھماکے، لوٹ مار، جلسے جلوس، لاٹھی چارج اور فائرنگ ـ مزے کی بات ہے کہ سبھی مذاہب کے لوگ دائرہ بناکر ایک دوسرے کی مار رہے ہیں اور خود اپنی بھی مروا رہے ہیں ـ ہر ایک دوسرے کو دہشت گرد سمجھتے ہیں مگر اپنے اندر کے حیوان کو کون پہچانے! خود دہشت مچاکر دہشت گردوں کو دھونڈتے ہو؟ مذہب کی آڑ میں حیوانیت کا مظاہرہ کرتے ہو ـ

مگر عیسائیوں نے کہا: آپ کس ٹائپ کے خدا ہو؟ دیکھتے نہیں یہاں کرناٹک میں ہندوؤں نے ہمارے گرجا گھروں کو برباد کر رکھا ہے اور جب احتجاج کیا تو پولیس نے ہمارا جینا حرام کر دیا ـ اگر آپ سچ مچ خدا ہوتے تو ہماری مدد کو فورا پہنچ جاتے مگر آپ بھی دوسروں کی طرح ٹی وی پر ہمیں پولیس کے ہاتھوں پٹتے دیکھ رہے تھے ـ ہم جس خدا کی عبادت، پوجا کرتے ہیں وہ تو سولی پر لٹکے ہیں اور آپ خود کو اصلی خدا کہلوانے والے اگر سچ مچ کے خدا ہو تو ذرا اِن ہندوؤں سے ہماری بے عزّتی کا بدلہ لیکر دکھائیں ـ

خدا نے مُسکراکر کہا: میاں، تم کب سیدھے ہو، موقع ملے جب تم بھی اُنکی مار لیتے ہو ـ کل تمہارا وقت تھا آج انکی باری ہے ـ ہر کسی کو وقت ملتا ہے خود کی مروانے اور دوسروں کی مارنے ـ پرانے زمانوں سے یہی چل رہا ہے ـ یاد کرلو بوسنیا، فلسطین، گجرات اور کشمیر، نو ستمبر پھر افغانستان بعد میں ایران ـ ـ تم انسان واقع اچھے ہو مگر خیالوں سے حیوان ـ آج مسجد میں بم پھٹا تو کچھ ہی دنوں بعد مندر میں بم دھماکے اور یہ سلسلہ کبھی رُکنے والا نہیں کیونکہ تم انسان اپنے اندر کے حیوان کو سدھارنے والے نہیں ـ

خطبہ جاری رکھتے خدا نے فرمایا: ایک طرف دنیا بھر میں دہشتناک سرگرمیاں اور دوسری طرف سائنسدانوں کی عجیب و غریب حرکتیں ـ کسی کو کیا پتہ اگلے دن کا سورج دیکھنا شاید نصیب نہ ہو ـ آج بھی لوگ قیامت کے انتظار میں ہیں مگر سچ تو یہ ہے خود قیامت اس انتظار میں ہے کہ کب انسان حکم کرے ـ تم انسانوں کے پاس دنیا کو تباہ کرنے کا سبھی سامان موجود ہے حیرت انگیز میزائل، آٹم بم، دنیا کے وجود پر کھُجانا اب ستاروں سے آگے بھی جھانکنے تیاری پھر خدا کے عرش تک میزائل مار سکتے ہیں اور آخر میں شاید خدا کی بھی مار لیں!

ایک بھارتی نے خدا سے کہا: ہمارے ملک پر رحم کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ بھارت کے حالات بھی پاکستان جیسے ہوجائیں ـ خدا نے جواب دیا: میاں، ہم سے کاہے مدد مانگتے ہو، آپ کے پاس تو ایک سے ایک خدا پڑے ہیں ہر رنگ میں ہر شکل میں، کوئی سولی پر لٹکا ہے تو کوئی بھالا تھامے کھڑا ہے اور کسی کا شروع سے ہی غائب ہے ـ جب اتنے سارے خداؤں سے تمہیں مدد نہیں ملتی جن کی تم رات دن عبادات کرتے ہو ـ ہم کیوں تمہاری مدد کریں تم ہماری کونسی مانتے ہو؟ تم لوگوں کو دوسروں پر الزام لگانا بہت آسان ہے جب تمہاری خود پھٹتی ہے تو چیخیں مارتے ہو ـ

اپنے خداؤں کو خود سجاتے ہو اور خود منتیں بھی مانگتے ہو رات دن عبادات کرتے ہو اپنے خداؤں کو خوش کرنے کیلئے ایک سے ایک ڈھونگ رچاتے ہو ـ ـ اور جب مسجد ٹوٹی تو خود بدلہ لیتے ہو مندر میں دھماکے تو خود بدلہ لیتے ہو ـ حالانکہ پھر بھی خدا کو حاضر و ناظر جانتے ہو ـ اگر تم لوگ واقع اپنے خداؤں سے محبّت رکھتے تو سمجھتے کہ ہمارے خدا خود بدلہ لیں گے ـ سچ تو یہ ہے کہ تم انسان اپنے خداؤں اور مذہبوں کے خود خالق ہو اور ایکدوسرے مذاہب سے خود بدلہ لیتے ہو ـ

اپنے گال پر زوردار چماٹ مارتے ہوئے خدا نے کہا: خدا کو اپنے وجود کی قسم! جب ہم نے انسان کو بنایا تو ذرا بھی خیال نہ تھا کہ اس کی سوچ اتنی گھٹیا ہوجائے گی کہ وہ خود کو خدا سمجھ بیٹھے اور دوسروں کو خدا اور اُسکے عذاب سے ڈراتا پھرے ـ خود دوسروں کی مارلی تو کوئی بات نہیں مگر جب کوئی اپنی مارلے تو خدا کی بارگاہ میں پناہ مانگتے ہو ـ دوسروں کو ہلاک کیا تو کوئی بات نہیں مگر جب کوئی غیر مذہبی اپنی جان لے لے تو شہید کہلانے کا حق رکھتے ہو؟

چھاتی پیٹ کر خدا نے کہا: ہم اِس جہاں کے ایک اکیلے اور تنہا خدا ہیں، چاہے ہمیں رام بولو رحیم بولو، عیسی یا موسی بھی پکارلو مگر پلیز! تمہارے بنائے ہوئے مذاہب میں خدا کی ٹانگ نہ کھینچو کیونکہ خدا کا کوئی مذہب نہیں ـ اپنے سبھی ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے خدا نے حاضرین سے فرمایا: چھوڑو یہ کل کی باتیں، اپنے برزگان کے بنائے دین کو ٹھوکر مارکر سب ایک انسان بن جاؤ ـ خدا نے حاضرین سے پوچھا: کیا ایسا کرو گے؟ کسی نے جواب نہیں دیا ـ

خدا نے اُونگھنے والوں پر غصّے میں مائک پھینک مارا: کمبختو! ہم یہاں زبردست خطبہ پڑھے جا رہے ہیں اور تم ہو کہ سو رہے ہو؟ تم لوگ کبھی سدھرنے والے نہیں ـ ہم اپنا خطبہ یہیں ختم کئے دیتے ہیں ـ سب لوگ خوشی میں اٹھ کر بھاگنا شروع کر دیئے، مگر ایک بدمعاش نے خدا کو چھیڑا: اگلا خطبہ اور کتنے سالوں بعد پڑھوگے؟ غصّے میں خدا نے جواب دیا: میاں، اب تو ہر ہفتہ ایک نیا خطبہ لیکر ہم حاضر ہونگے ـ ـ جاری

 باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 65 ]

posted by Shuaib at 11:01 AM 0 comments

Post a Comment

اسکول ڈے

آج کلاس روم میں خدا نے بچوں پر بھاشن جھاڑتے ہوئے فرمایا: آپ اپنے ننھے منّے دماغوں میں ابھی سے یہ بات گانٹھ لو کہ ہم خدا ہیں اور اِس سارے جہاں کے ایک اکیلے اور تنہا مالک ہیں ـ چونکہ ہم خدا ہیں اِس لئے چین و جاپان، امریکہ و بوسنیا، ہندوستان، پاکستان اور قبرستان ہر جگہ کی خبر رکھتے ہیں ـ ایک بچے نے کھڑے ہوکر خدا سے پوچھا: پاکستان میں ٹائم کیا ہوا ہے؟ خدا نے بچے کو پیار سے پاس بلایا پھر اُسکے دونوں کان پکڑ اٹھالیا اور جھنجوڑتے ہوئے کہا: بدتمیز! ہم خدا ہیں ناکہ گھڑی ساز! بھلا ہمیں کیا معلوم کہ پاکستان کی اوقات کیا ہے؟ بچے نے کپکپاتے ہوئے کہا: دراصل کل شام کو میرے ابّو گھر میں ٹی وی پر خبریں دیکھتے ہوئے بڑبڑا رہے تھے کہ ”پاکستان کا ٹائم خراب چل رہا ہے!“ خدا نے بچے کو واپس اُسکی جگہ پٹخنے کے بعد فرمایا: ہر ایک کی قسمت میں اچھا بُرا ٹائم چلتا رہتا ہے اور اس کا ذمہ دار خود انسان ہی ہے ـ جس نے بھلا کیا اُس کا بھلا ہوتا ہے اور جس نے بُرا کیا اُس کا ٹائم خراب چلتا ہے ۔ یہ سچ ہے کہ انسان کا دشمن شیطان نہیں بلکہ انسان ہی ہے ـ

لالو کے ریل بجٹ پر لیکچر دیتے ہوئے خدا نے کلاس روم میں بچوں سے کہا: کمبخت عام بجٹ میں غریبوں کو کچھ بھی راحتی نہیں مگر پوری ریل گاڑی غریبوں کے نام کردی ـ اب ٹرینوں میں غریب کو اتنی سہولت مل گئی وہ ڈرائیور کے بازو بیٹھ کر بولے کہ بھیّا دائیں موڑ لو یہیں آگے اپنا گھر ہے!! خدا نے بچوں پر پیار بھری نظر ڈالتے ہوئے کہا: حالانکہ ٹرین میں سفر کرنا سب سے زیادہ بچوں کو اچھا لگتا ہے ـ ایک بچے نے کھڑے ہوکر خدا سے کہا: میرے ابّو کہتے ہیں لالو کے ریل بجٹ نے پورے ملک میں خوشیاں بکھیر دیں ـ منہ بناکر خدا نے کہا: کاہے خاک خوشیاں! گیس سلینڈر مہنگا، گھاسلیٹ مہنگا، پیٹرول اور ڈیزل مہنگا، روٹی سبزی چاول اور دال مہنگا ـ ـ ـ زندہ رہنے کیلئے جتنی بھی ضروری چیزیں ہیں سب مہنگے اور کچھ سستا ہے تو موبائل فون، کاریں اور ریل کا ٹکٹ ـ ـ ـ خدا نے غصّے میں کہا: غریب کو زندہ رہنے کیلئے صرف موبائل فون اور ریل کا ٹکٹ کیا کافی ہے؟؟ اپنا کالر چڑھاکر خدا نے بچوں سے کہا: ہمیں دیکھو! ہم خدا ہیں اور جب کہیں جانا ہو تو جھٹ سے دھواں بن کر غائب ہوجاتے ہیں، نہ بس میں دھکّے کھانا اور نہ ٹرین میں بیٹھ کر جماہیاں مارنا ـ ـ ـ ہم خدا ہیں، انسانوں کی طرح تکلیفیں جھیلنا ہم سے ممکن نہیں!!

کلاس روم میں سبھی بچے خدا پر چڑھ گئے، کسی نے کان کاٹا تو کسی نے ناک کاٹ لیا ـ دراصل خدا نے بچوں سے سوال پوچھا تھا کہ ستاروں کی صحیح گنتی بیان کرو؟!! کسی نے بھی صحیح جواب نہیں دیا تو خدا نے بطورِ سزا بچوں کو قیامت پر غزل لکھنے کا حکم دیا ـ اب بھلا بچوں کا قیامت سے کیا لینا، سیدھا اسکول پر ہی غزل لکھ مارے کہ قیامت اور اسکول دونوں برابر ہے!! خدا نے سب بچوں کو لائن میں کھڑا کردیا اور انکے ننھے پچھاڑوں کو لال کر دیا پھر بچے بھی بدلے میں خدا پر چڑھ گئے جگہ جگہ کاٹ کر خدا کو دیوانہ بنا دیا ـ حالت نازک ہوگئی خدا نے فوری اسکول سے استعفی دیدیا: کہ بھئی خدا کا کام صرف عذاب اُگلنا ہے نہ کہ اِن کمبخت بچوں کو پڑھانا ـ خدا نے خود اپنے نام کی قسم کھاکر کہا: لعنت ہے ہم پہ جو آج کے بعد کسی بچے سے ایک پائی کا بھی سوال پوچھا ـ شام کو میڈیا کے آگے خدا نے روتے ہوئے کہا: آج کے بچوں میں پہلے جیسی بات نہ رہی، اپنے ٹیچروں کا ذرا احترام نہیں اور اگر ضِد پر آجائیں تو خدا کی بھی خیر نہیں!!

ٹھہر ٹھہر کر باہر بارش ہو رہی ہے کلاس روم میں بچے جماہیاں مارنے لگے، خدا نے موڈ بنانے کے لئے بچوں کے سامنے اپنی چمتکاری کے جوہر بکھیرنا شروع کر دیئے ـ اپنا روپ بدل کر خدا نے بچوں سے پوچھا: پہچانو، میں کون؟ سب بچوں نے آنکھیں پھاڑ کر چلاّیا: ”اُسامہ بن لادن!“ واپس اپنی اصلی شکل میں آکر خدا نے بچوں سے پھر پوچھا: پہچانو، اب میں کون؟ سب بچوں نے ایک ساتھ کہا: ”خدا“ ـ خوفناک انداز میں مسکراتے ہوئے خدا نے بچوں سے کہا: شاباش! خوب پہچانا ـ خدا نے کہا: سچّی بات یہ ہیکہ اُسامہ اور خدا دونوں بھی ہم ہیں جو ساری دنیا کو پریشان کرتے پھر رہے ہیں جس کیلئے امریکہ سے ہمیں پیسے بھی ملتے ہیں ـ ـ ـ اور بہت جلد ہم اپنا تازہ ویڈیو ریلیز کرنے جا رہے ہیں جس میں اُسامہ نے ڈائریکٹ خدا پر ہی دھمکیاں ماری ہیں ـ ـ ـ دانت دکھاتے ہوئے خدا نے کہا: یہ راز کی بات ہے مگر کسی کو بتانا نہیں!! سب بچوں نے ڈر اور خوف کے مارے رونا شروع کردیا تو خدا نے دہاڑ کر کہا: خاموش!! ورنہ ہم اِس اسکول کی عمارت پر میزائل ٹھوک دیں گے ـ بچوں نے خوشی میں تالیاں بجانا شروع کردیا کہ یہ شُبھ کام آج ہی چار بجے اسکول چھٹنے کے فوری بعد کر دیں ـ

آج اسکول ڈے کے موقع پر سبھی بچّے کھڑے خدا کی شان میں ترانے گائے ـ دانت دکھاکر خوش ہونے کے بعد خدا نے مائک پر زور سے کہا: شاباش! بیٹھ جاؤ اور ایک ایک کرکے ہم سے پوچھ لو کہ کیا پوچھنا ہے ـ ایک بچے نے کھڑے ہوکر باادب خدا سے پوچھا: مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے مثالوں کے ساتھ بیان فرما دیں ـ خدا نے غصّے میں بچے کو گول گھماکر دور پھینکنے کے بعد کہا: بدتمیز! خدا سے بیحودہ سوال کرتے ہو؟ یعنی کہ ہم مر کر زندہ ہوئے ہیں! ہم خدا ہیں اور ابھی تک زندہ ہیں، بھلا ہمیں کیا معلوم کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے ـ ایک اور بچے نے خوف کے مارے کانپتے ہوئے خدا سے کہا: لیکن ہمارے مذہبی کتابوں میں مرنے کے بعد نہایت ڈراؤنے واقعات لکھے ہیں ـ خدا نے ڈانٹتے ہوئے کہا: ارے نالائق بچّو! مرنے کے بعد کے واقعات زندہ لوگوں نے ہی لکھے ہیں نا ـ خود زندہ لوگوں نے اناپ شناپ کتابیں چھاپ دیں کہ مرنے کے بعد ایسا ہوتا ہے ویسا ہوتا ہے انکی امّاں کی ٹانگ ہوتی ہے!! سب بچوں نے کھلکھلاکر ہنس دیا تو خدا نے دہاڑ کر کہا: خاموش!! زندہ دل لوگ اپنی زندگی کے بارے میں سوچتے ہیں اور مردہ دل والے اپنے مرنے کے بعد تک کے حالات سوچ سوچ کر پاگل ہوجاتے ہیں ـ

حالات حاضرہ پر خطبہ پڑھتے ہوئے خدا نے بچوں سے کہا: آپ واقعی بچے ہیں من کے سچے ہیں، شرارت تمہارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہے مگر تمہارا دماغ نہایت معصوم ہے ـ تمہارا چہرہ اتنا پیارا کہ ہر کوئی تمہیں گود میں اٹھاکر چوم لے مگر کس کو کیا خبر کہ آدھی رات کو اٹھ کر انٹرنیٹ پر تم کیا دیکھتے ہو؟ باپ کا کریڈٹ کارڈ چراکر ننگی فلموں پر ہزاروں لٹاتے ہو؟ صرف ننگا تماشہ دیکھنے کیلئے مہنگا موبائل خریدتے ہو؟ ٹیکنالوجی کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے بیحودہ چیزیں ایکدوسرے کو ایس ایم ایس کرتے ہو؟ ـ ـ ـ چھاتی پیٹ کر روتے ہوئے خدا نے کہا: مگر قصور تم بچوں کا نہیں بلکہ قصور تو حالات کا ہے جسے تمہارے بڑوں نے جنم دیا، ہر سال ایک نیا زمانہ لاتے ہیں ایک نیا کلچر پیدا کرتے ہیں ـ کہیں باپ اپنی بیٹی کی مار رہا ہے اور ماں اپنے بیٹے سے مروا رہی ہے ـ باہر دنیا میں الگ پہچان ہے اور گھروں کے دروازے کے اندر عجب تماشہ ہے ـ تم لوگ دور دور کی خبر گیری کرتے ہو مگر اپنے پڑوسی کا احوال نہیں پتہ! تم معصوم بچے اسی کو اپنا کلچر مان لیتے ہو ـ کتابوں میں لکھی اچھی باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آتیں، اب سوائے گالی کے تمہیں ڈانٹ نہیں ملتی، بس میں کنڈیکٹر سے گالی کھاتے ہو، گلی میں آئس کریم والے سے گالی سنتے ہو، اب اسکول میں ٹیچر بھی تمہاری ماں بہن کی گنتے ہیں!!

دہاڑ کر روتے ہوئے خدا نے کہا: سارا کا سارا قصور ہمارا ہی ہے کہ ہم نے انسان کو بنا دیا، آج یہ انسان اتنا ترقی کرگیا کہ خدا پر بھی میزائل مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے ـ پہلے زمانے میں لوگ بڑے ہوکر بدمعاش بنتے تھے مگر آج کے بچے بچپن میں ہی لوفر بن گئے! توبہ کیا زمانہ آگیا کہ اُستاد اور شاگر ساتھ بیٹھ کر شراب پیتے ہیں، اب غنڈوں کے بجائے ٹیچر لوگ بھی عصمت دری کی خبروں میں خوب چھائے رہتے ہیں! پڑھائی کے نام پر سیکس کو موضوعِ بحث بناتے ہیں ـ پہلے اُستاد کا مار پھولوں کا ہار سمجھا جاتا تھا اور آج اسکولوں میں پٹائی کے نام پر بچوں کے دانت توڑتے ہیں، ہاتھ توڑتے ہیں یہاں تک کہ مار مار کر بیہوش بھی کر ڈالتے ہیں ـ خدا نے تین بار کہا: لعنت ہے لعنت ہے لعنت ہے ـ ـ ـ اسکولوں میں ہزاروں کی فیس لوٹتے ہو، پڑھائی کے نام پر دھندہ چلاتے ہو ـ ـ ـ ڈاکٹری پڑھنے کے بعد لٹیرے بنتے ہو، انجینئرنگ کرنے کے بعد لوگوں کو دھوکہ دیتے ہو اور جس نے وکالت سیکھ لیا اُس نے اپنے باپ پر ہی الزام ٹھوک دیا کہ یہ ہماری ماں کے ساتھ بیٹھا تھا ـ ـ ـ آنسو پونچھتے ہوئے خدا نے بچوں سے کہا: میاں،تالی تو بجاؤ کہ ہم نے اتنا زبردست بھاشن بولا ـ سب بچوں نے زوردار تالیاں بجاکر خدا کو خوش کر دیا ـ

موڈ بنانے کیلئے ایک بچے نے خدا سے پوچھا: کیا آپ نے نئی فلم ”جودھا اکبر“ دیکھی؟ بیزارگی سے خدا نے کہا: میاں، ہم اتنے بھی فضول نہیں کہ فضول فلمیں دیکھ پاتے ـ البتہ ہم نے اِس فلم کے خلاف جلوس میں شامل ہوکر نعرے لگائے ـ خود اِس پکچر کے فلمسازوں نے ہم سے کہا کہ میڈیا کے آگے ہماری فلم کے پوسٹرس پھاڑو تاکہ مفت میں پبلسٹی ملجائے اور اس کام کے لئے ہمیں سو روپئے ملے ـ سب بچوں نے خدا کی چالاکی پر تالیاں بجاکر سواگت کیا ـ پھر انتاکشری کھیلتے جب خدا کی باری آئی تو 'ٹ' پر اٹک گیا ـ خدا نے اُس بچے کو پاس بلاکر خوب پٹائی کر دی جس نے 'ٹ' پر گانا ختم کیا، خدا نے غصّے میں کہا: حالانکہ 'ٹ' پر کوئی گانا ہمیں یاد نہیں اور جب ہماری باری آئی تو 'ٹ' پر اٹکا دیا؟ ایک بچّی نے کھڑے ہوکر خدا سے کہا: 'ٹ' سے ٹن ٹن ٹن اسکول کی گھنٹی بجاؤ اور ہماری چھٹی کرو ـ خدا نے غضب میں آکر کہا: بڑی نالائق بچی ہے، ہمارے بھاشن سے بور ہوگئی ہے ـ خدا نے بچوں سے کہا: واقعی یہ قسط کافی لمبی ہوچکی ہے نا؟ ایک بچے نے خدا سے پوچھا: یہ آپکی قسطیں کون پڑھے کہ کس کے پاس اتنا ٹائم ہے؟ خدا نے جواب دیا: میاں، ہماری قسطیں ایک کڑوا سچ ہے جو ہر کسی سے ہضم نہیں ہوتا، کئی پڑھنے والوں کی زبان لڑ کھڑا جاتی ہے اور کئی پڑھنے والے ایک سانس میں پڑھ جاتے ہیں!!

خدا نے بچوں سے کہا: اب زیادہ بور ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ آخری پیراگراف ہے ـ اپنے سارے کے سارے ہاتھ پھیلاکر خدا نے بچوں سے کہا: دنیا میں انسانیت ختم ہونے کو ہے، خود انسانوں کو ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں ـ تم بچے بھی بڑے ہونے کے بعد ایسے ہی بنو گے، تم چاہتے ہو کہ جلدی سے بڑے ہوکر اِن کمینے لوگوں میں خود کو کمینہ منوائیں؟ اچھائی دکھانا چاہتے ہو مگر ہر جگہ رسوائی ملتی ہے، بھلائی کرو تو پبلک تمہاری دُھلائی کرتی ہے، تمہاری نیک نیّتی کسی کو اچھی نہیں لگتی، تمہارے بھولے پن سے دوسرے فائدہ اُٹھاتے ہیں ـ پڑھائی میں دھوکہ، پڑھ لکھنے کے بعد بھی دھوکہ ـ نوکری کیلئے دھکّے کھاتے ہو پھر نوکری پالینے کے بعد دوسروں کو دھکّے مارتے ہو؟ ـ ـ ـ اچھا ہے کہ تم بچے ہی رہو، معصومیت قائم رکھو ـ ـ ـ اگر دنیا میں کہیں انسانیت ہے تو وہ صرف تم بچوں میں ہے ـ تم بڑے ہوجاؤگے تو انسانیت کو چھوڑ کر کوئی ہندو بنے اور مسلمان، پھر اپنے بچپن کی یاری بھول کر ایکدوسرے کی ٹانگ کھینچتے رہو گے ـ پڑھ لکھنے کے بعد خدا کو بیوقوف بناتے ہی ہو مگر شرم کی بات ہے کہ تم خود بھی بیوقوف بنتے ہو ـ ـ ـ دہاڑ کر روتے ہوئے خدا نے بچوں سے کہا: تم نہ ہندو ہو نہ مسلمان بلکہ معصوم ننھے منّے بچے ہو اور خدا کے نزدیک سب سے عزیز تم ہی ہو ـ ـ ـ سبھی بچوں نے زبردست تالیاں بجائیں، خدا نے شکریہ کے طور پر بچوں میں پانچ پانچ روپئے بانٹے تو بچوں نے خوشی میں دوبارہ تالیاں بجائیں ـ ـ ـ خدا نے بچوں کو ڈانٹا: ارے کمبختوں! بس بھی کرو ہمارے پاس اور پیسے نہیں ہیں!! ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 63 ]

posted by Shuaib at 11:00 AM 0 comments

Post a Comment

اب چلتے ہیں ـ رام رام، خدا حافظ

آدھی رات کو خدا نے بھاشن کیلئے لوگوں کو جمع کرلیا، پوچھنے پر بتایا: میاں، نیند نہیں آ رہی تو سوچا کیوں نا ایک آدھ بھاشن ہوجائے! لوگ اُونگھتے ہوئے زبردستی خدا کا بھاشن سماعت کر رہے ـ خدا نے مائک پر دہاڑتے ہوئے فرمایا: آج حالات بہت خراب ہوچکے، بھائی بھائی کی مار رہا ہے، ماں اور بیٹی ساس بہو کی طرح لڑ رہے ہیں، گلی محلّے میں بچوں کے ہنگامے پر ایکدوسرے کے ماں باپ پہلوانوں کی طرح کشتی کر رہے ہیں، پہلے لوگ ٹائم بناتے تھے مگر اب ایکدوسرے کی مارنے کیلئے ٹائم ہی ٹائم ہے، کسی سے بھی بات کرلو جھوٹ سننے کو ملتا ہے اور جھوٹ بولنا جیسے عادت سی ہوگئی ہے، دن بھر دو لوگوں سے دھوکہ کھالیا تو بدلے میں پانچ لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، صرف ایک سگریٹ کی خاطر کسی کا بھی قتل کرنے کو تیار رہتے ہیں یہاں تک کہ کھانے پینے میں ملاوٹ کو بھی فیشن بنالئے ہیں، لوگ اتنے گھٹیا ہوچکے کہ پاخانہ پیشاب کی بھی تمیز نہیں حالانکہ ایکدوسرے کے سامنے چھی چھی کرتے ہیں ـ

اچانک خدا پر پبلک کی طرف سے جوتے چپل کی بارش ہوگئی، صبح کے چھ بج چکے اب تو اپنا بھاشن بند کرو اور ہمیں سونے دو! خدا نے کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنا بھاشن جاری رکھا: اِن جوتے چپلوں کا شکریہ! تو ہم کہہ رہے تھے لوگ اتنے گھٹیا ہوگئے کہ بھائی بہن میں فرق نہیں رہا، ماں بیٹے میں شرم نہ رہی، باپ بیٹی میں عزّت باقی نہ رہی، لوگ کنفیوژ ہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں! حالانکہ خود اپنے آس پاس کے ماحول کو ساتھ لئے چلتے جا رہے ہیں ـ کسی کو اپنے مذہب پر یقین نہیں پھر بھی اپنی خاندانی روایت نبھاتے جا رہے ہیں! کسی کو خدا کا خوف نہیں مگر ایکدوسرے کو خدا کے عذاب سے ڈراتے رہتے ہیں ـ

خدا نے منہ پھاڑ کر جماہی چھوڑتے ہوئے کہا: صبح کے آٹھ بج گئے، تم لوگوں کی نیّت ابھی سے خراب ہوجاتی ہے، اس سے پہلے کہ کوئی تمہاری مارلے تم دوسروں کی مارنے میں تیاری کرلیتے ہو ـ کنڈیکٹر تمہاری مارے اور تم اُسکی مارلو، آٹو رکشا والا تمہاری مارے اور تم اُسکی مارنے کی کوشش میں رہتے ہو، ٹیچر شاگرد کی مارے اور شاگرد اپنے ٹیچر کی مار لے، باس اپنے ورکر کی مارے تو یہ اپنے باس کی مارے ـ صبح سے شام تک تم سبھی لوگ ایکدوسرے کی مارنے کے بعد تھکے ہارے اپنے گھروں کو لوٹ آتے ہو اس سے پہلے کہ نیند آجائے گھر میں بھی سب ایکدوسرے کی آپس میں مار لیتے ہو پھر اپنے پڑوسیوں کے آگے شان سے نکلتے ہو حالانکہ یہ بھی اپنوں سے مروا کر بالکونی میں آ کھڑے ہوتے ہیں!!


باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 62 ]

posted by Shuaib at 10:59 AM 0 comments

Post a Comment

نواز نے بینظیر کو مار دیا

خدا نے ہچکیوں کے ساتھ رونا شروع کردیا، پوچھنے پر بتایا: تارے زمین پر اُتر آئے ـ اِن تاروں کو ہم صرف پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہیں مگر یہ جاننا ضروری نہیں سمجھتے کہ یہ کیسے جگمگاتے ہیں ـ خدا نے کہا: سبھی لوگ بچوں سے پیار کرتے ہیں مگر اِن کی معصوم ذہنیت کو سمجھ نہیں پاتے ـ ماں باپ اپنے بچوں کو لاڈ کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنا فرض ادا کر رہے ہیں! کوئی بچہ اوٹ پٹانگ حرکت کرے تو رشتہ داروں کے مشورے پر اُسے بورڈنگ اسکول میں پھینک دیتے ہیں، ایک معصوم جان کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہے؟ خدا سے پوچھا: مگر یہ فلم دیکھ کر آپ کیوں اتنا رو رہے ہیں؟ خدا نے فرمایا: میاں، ہمیں اپنے بچپن کی معصوم حرکتیں یاد آگئیں، واللہ کتنے بھولے بھالے تھے ہم! ہمارے پاس ایسا کوئی جادو نہیں کہ واپس بچپن میں چلے جاتے! کاش یہ ممکن ہوتا!! خدا کو بتایا: ہاں یہ ممکن ہے، چڈی پہن کر کچھ دیر کیلئے خود کو بچہ سمجھ لیں ـ

دھوم مچالے ـ وونس مور کی چیخوں کیساتھ خدا نے دوبارہ زبردست ٹھمکے لگائے ـ اتنا خوفناک ڈانس دکھایا کہ پورا اسٹیج خراب کردیا ـ دوسرے دن اخباروں نے لکھا: خدا کو ناچ گانے میں ذرا بھی تمیز نہیں، خود ناچا اور نوجوانوں کو بھی ایسے نچایا کہ لڑکیوں کا پاجامہ تک پھٹ گیا ـ خدا نے میڈیا کے آگے کہا: وہاں سبھی لوگ ناچنے میں اتنا مصروف ہوگئے کہ کب کس کا پاجامہ پھٹا پتہ ہی نہ چلا، واللہ ہمارا پاجامہ تک غائب تھا (شاید یہ بھی القاعدہ والوں کی شرارت تھی!) خدا نے افسوس کا اظہار فرمایا: لوگ ناچ گانے میں ایسے مصروف ہوجاتے ہیں اپنا پاجامہ پھٹنے کا احساس بھی دیر سے ہوتا ہے ـ خدا نے میڈیا والوں سے کہا: اگلے سال ہم تھوڑا دھیرے دھیرے ناچیں گے تاکہ نظر رکھ سکیں کون کس کا پاجامہ پھاڑ رہا ہے! پھر خدا نے خود کے کان میں کہا: خدا کی قسم! جب تک ڈسکو میں شریف لڑکیاں آتی رہیں گی ہم اُن کا پاجامہ ایسے پھاڑتے رہیں گے!!

بینظیر کی میّت پر خدا نے رونے کی ایکٹنگ کی، پوچھنے پر فرمایا: یہاں سبھی رونے دھونے کی اداکاری میں ایکدوسرے پر بازی مار رہے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہیں؟ خدا نے افسوس کا اظہار فرمایا: اچھا خاصہ پاکستان بغیر جمہوریت جیسے تیسے آگے بڑھ رہا تھا پھر ایک عورت جمہوریت کی جھلک دکھلانے کیا آئی اب تاقیامت یہ ملک خونین فسادات کی نظر ہوگیا ـ ناک پر ہاتھ رکھے خدا نے پوچھا: یہ سب کیسے ہوا؟ خدا کو بتایا: القاعدہ والوں نے اپنا وعدہ نبھایا اور بینظیر کو مار ڈالا ـ القاعدہ والے وعدے کے پکّے ہیں جو کہا وہ کر ڈالا ـ خدا نے فرمایا: بینظیر کی ہلاکت سے پہلے پچھلی قسط میں ہم نے فرمایا تھا: (اقتباس) "خدا سے پوچھا: پاکستان میں جب مارشل لاء نافذ ہے تو الیکشن کروانے کا مطلب کیا ہے؟ خدا نے جواب دیا: سِمپل سی بات ہے، بینظیر اور نواز کو گھیر لاؤ جہاں پیدا ہوئے وہیں دفناؤ" ـ اپنا کالر چڑھاکر خدا نے کہا: میاں ہم خدا ہیں سب جانتے ہیں ـ

میڈیا والوں سے بات کرتے ہوئے خدا نے کہا: بینظیر کی میّت پر ہم رونے کیا گئے، وہاں دوسروں کو روتا دیکھ ہماری ہنسی نکل گئی، اِس سے پہلے کہ پبلک ہمیں مارتی وہاں سے بھاگ نکلے ـ خدا کو بتایا: کسی کی میّت پر اسطرح مذاق نہیں کرتے ـ خدا نے کہا: میاں، ہم مذاق نہیں کر رہے، واقعی وہاں رونے دھونے کا جیسے مقابلہ چل رہا تھا نواز شریف تو اتنا رو رہا تھا کہ بینظیر کے سگے رشتہ دار بھی اُتنا نہیں روئے ـ چار لوگوں کے پیچھے کھڑا نواز شریف جھانک جھانک کر رو رہا تھا جیسے دیکھ رہا ہو بہن جی ٹھیک سے مری کہ نہیں ـ واللہ، اسکی شکل پر لکھا تھا کہ قاتل کون تھا!! خدا نے کہا: خود پاکستانیوں نے بینظیر کو مار ڈالا، آٹھ سال عیش کرنے کے بعد پھر سے پاکستانیوں پر راج کرنے چلی آئی تھی ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 61 ]

posted by Shuaib at 10:57 AM 0 comments

Post a Comment

بکرا عید لایا

تیز رفتار خدا نے فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک بھکاری کو ٹھوکر مار دیا، بھکاری نے جھلاّکر کہا: آپ خدا ہو کہ پاجامہ! دیکھ کر نہیں چل سکتے؟ خدا نے جواب دیا: نہیں دیکھ سکتے! یہ فٹ پاتھ تمہارے باپ کا نہیں کہ یوں پاؤں پھیلائے بھیک مانگو، اگر بھیک مانگنا ہی ہے تو ادب اور تمیز سے بیٹھو ـ بھکاری نے اپنے باسی ڈنڈے سے خدا کو پیٹنا شروع کردیا ابھی ناک پھوٹنے کی دیری پولیس آگئی ـ خدا نے ماجرا سنایا تو اُلٹا پولیس کی جوتیاں بھی کھانی پڑیں ـ تنگ آکر خدا نے چنگھاڑا: حد ہوگئی، اِن بھکاریوں کیوجہ سے پورا شہر پریشان ہے، سگنل پر بھی گاڑیوں پر چڑھ جاتے ہیں اور ایسے بھیک مانگتے ہیں جیسے اپنا حق مانگ رہے ہوں ـ فٹ پاتھوں پر ایسے بیٹھ جاتے ہیں کہ عوام کا چلنا پھرنا مشکل ہوگیا ہے اور اگر اِن سے پنگا لیں تو ایسا شرمندہ کرتے ہیں کہ پولیس والے بھی اُلٹا شریف آدمی پر تھُو تھُو کرتے ہیں ـ خدا نے بڑبڑایا: یوں دھوپ میں گھومنے پھرنے سے اچھا ہے ہم بھی بھکاری بن جائیں تاکہ زور زبردستی اپنا حق مانگے!

القاعدہ ممبران نے جُٹ بناکر منتر پڑھا: "خدا کو اُسکے خدا ہونے کا واسطہ اگر ہمّت ہے تو سامنے آجا" ـ خدا نے کہا: کل چھُٹی کا دن ہم نے پکچر دیکھا، کیا خاک نئے دور میں پرانے اسٹائل کی فلم تھی ہم انٹرول سے پہلے بھاگ کھڑے ہوئے ـ خدا کو بتایا: اچھا ہوتا انٹرول کے بعد باقی پوری فلم بھی دیکھ لیتے جس میں نئے زمانے کا اسٹائل بھی تھا ـ خدا نے کہا: بھاڑ میں جائیں ایسے لوگ جو اُوٹ پٹانگ فلمیں بناکر پیسہ ہڑپتے ہیں، سبھی اداکاروں کو بلاکر ایکساتھ نچا دیا تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ کچھ انوکھا کارنامہ انجام دیا ـ اماں یار، لوگ تنگ آگئے ایسی فلمیں دیکھ کر بہت زمانہ ہوا کوئی اچھی فلم دیکھنا نصیب نہ ہوا ـ خدا نے بتایا: ہم پھر پاس والے سنیما گئے تاکہ کچھ تو انٹرٹینمنٹ ہوجائے مگر وہ پکچر بھی ایسی جس میں سویرا ہی نہیں پوری فلم اندھیرے میں بنائی تھی یعنی اُس میں بھی ہم ناظرین کو الّو بنایا ہے ـ فرشتوں نے خدا کے خواب میں آکر پوچھا: آقا، آپ خواب میں کیوں کھلکھلاکر ہنس رہے ہو؟ خدا نے کہا: میاں خوش آمدید، آؤ تم بھی دیکھو جو ہم دیکھ رہے ہیں، واللہ پیٹ میں گُدگدی مچ گئی ـ

صدّام حسین کی پہلی برسی کے خوشی میں خدا نے کیک کاٹنے کے بعد فرمایا: بہت ہی کھڑوس آدمی تھا، خدا سے ڈرنا تو دور کی بات امریکہ سے بھی نہیں ڈرتا تھا ـ خدا نے کہا: صدام کی پہلی برسی پر ہم ناچنے ہی والے تھے کہ امیتابھ کی امّی چل بسیں ـ اب ہم میّت میں جا رہے تھے کہ گجرات پہنچ گئے جہاں ہمیں فیصلہ سنانا تھا ـ خدا نے اپنے آنسو پونچھنے کے بعد فرمایا: بھائیو بہنو! بھول کر بھی کسی اچھے شخص کو ووٹ نہ دینا کیونکہ اچھے آدمی پر بھروسہ نہ رہا وہ الیکشن جیتنے کے بعد خراب ہوجاتا ہے ـ خدا نے مودی کے بارے کہا: آج کون سیاستدان اچھا ہے، کسی کی بھی نیّت ٹھیک نہیں لگتی؟ مودی لاکھ بُرا سہی اگر دوبارہ اُس کو ہی اقتدار دیا جائے تو اُمید ہے وہ اچھا ہی ثابت ہوگا اُسکے سینے میں بھی دل ہے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے یہ بھی ممکن ہے وہ اپنے کئے گناہوں کی معافی مانگلے اور اپنے اُوپر لگے داغ اچھے کرموں سے دھولے ـ

چار دنوں تک خدا نیند سے بیدار نہ ہوا تو ایک ٹینکر پانی منگواکر اُسکے منہ پر ڈالا ـ ہڑ بڑاکر اُٹھنے کے بعد خدا نے پوچھا: آخر کونسی آفت آگئی جو ہمیں چار دنوں میں ہی جگا دیا؟ جنّت میں کتنا اچھا تھا جہاں ہم اپنی مرضی سے سوتے جاگتے مگر جب سے اِس دھرتی پہ آئے ہیں ظالم لوگ ہمیں کچھ دن سونے بھی نہیں دیتے!!! خدا کو بتایا: عالیجاہ گستاخی معاف! صرف یہ پوچھنے کیلئے جگایا کہ اِس بکرے کو کہاں باندھے جس کا آپ نے آرڈر دیا تھا؟ خدا نے غصّے میں فرمایا: میاں، ہمارے پیچھے ہی باندھ دو ـ موقع دیکھ کر بکرے نے خدا کو پیچھے سے لات مارا تو خدا نے بکرے کے کان پکڑ اُٹھالیا اور پوچھا: بدتمیز! ہمیں لات مارنے کی وجہ بیان کرو؟ بکرے نے خدا کے منہ پر چھینک مارنے کے بعد کہا: عالیجاہ! جان کی اَمان پاؤں تو عرض ہے، اپنے پاس ہاتھ نہیں کہ آپکو تھپڑ لگاؤں اسی لئے لات مارنے کی گستاخی کی ـ بکرے پر چار پانچ مقدس گالیاں پڑھنے کے بعد خدا نے کہا: کمبخت! ٹھہر ابھی ہم تیری بریانی بناتے ہیں ـ

القاعدہ ٹیم نے دوبارہ منتر پڑھا: "خدا کو اُسکے خدا ہونے کا واسطہ اگر ہمّت ہے تو سامنے آجا" ـ خدا نے کہا: چھُٹا نہیں ہے آگے جاؤ ـ خدا بڑ بڑایا: عید کی صبح ہوئی نہیں کہ بھکاری لوگ عجیب غریب صدائیں لگانا شروع کردیتے ہیں ـ بکرے نے خدا سے کہا: عید آپ منا رہے ہو اور کاٹ مجھے رہے ہو؟ یعنی آپ کی خوشی میرا غم!! خدا نے کہا: میاں بکرے، یہ تو برسوں پرانی روایت ہیکہ انسان تمہیں کاٹ کھاتے ہیں، اب اِس روایت کو خدا تو کیا اُسکے فرشتے بھی نہیں بدل سکتے ـ انسان کی خوشی ہو یا غم دونوں وقت تم اُن کی لذیذ غذا ہو ـ بدقسمتی تمہاری ہے کہ تم بکرا ہو بکرا بنو ـ اب ہمارے ہاتھوں کٹنے کیلئے تیار ہوجاؤ، واللہ ہمارے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں ـ بکرے نے کہا: ہممم، ہاں اپنی بدقسمتی ہے کہ میں بکرا ہوں ـ بکرے نے خدا کو گھورا پھر بولا: اب دیر کس بات کی آقا، چاقو اٹھاؤ اور مجھے کاٹو، میری بریانی بناؤ، کھاؤ ڈکار لو اور خوش رہو آپ کو عید مبارک اور مجھے موت ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 60 ]

posted by Shuaib at 10:56 AM 0 comments

Post a Comment

خدا کو دانت نہیں!

اچانک خدا کی چیخیں نکل پڑیں جب رات کو بجلی جاتے ہی ٹارچ جلایا تو خود کا سایہ دیوار پر دیکھ بوکھلا گیا ـ خدا نے ٹارچ بنانے والے پر لعنت بھیجا: کمبخت، ایسا آلہ بناتے ہو کہ لمحہ بھر کیلئے ہم خود کا سایہ کو اُسامہ سمجھ بیٹھے ـ خدا کو یاد دلایا: آجکل عراق میں یہی ہو رہا ہے، اتحادی افواج بوکھلا گئی ہے اِنہیں خود کا سایہ بھی دہشت گرد محسوس ہو رہا ہے اسی لئے اندھا دھند فائرنگ مچا رہے ہیں ـ

خدا نے بینظیر کے بارے کہا: محترمہ بڑی پٹاخہ خاتون ہیں، اپنی آمد پر خود ہی ہولناک دھماکہ کرکے خاموش نکل پڑیں ـ خدا نے کہا: ہم نے گذشتہ قسط میں کہا تھا کہ چند اناپرستوں کیوجہ پورا پاکستان تباہ ہونے کے قریب ہے، پاکستانی عوام کو کچلنے کیلئے کسی بیرونی طاقت کی ضرورت نہیں چونکہ اِنہیں آپس میں صلح کرنے کی بھی فرصت نہیں ـ

دیوالی کے بارے خدا نے فرمایا: لعنت ہےاُن لوگوں پر جو کان پھاڑنے والے پٹاخے جلاتے ہیں ـ دیوالی جیسی مقدس پوجا پر کروڑوں روپیہ ہوا میں اُڑاتے ہیں ـ اڑوس پڑوس میں بیمار اور چھوٹے بچوں کا بھی لحاظ نہیں کرتے، پٹاخوں سے ماحول بھی خراب کرتے ہیں ـ خدا نے کہا: جب ہم چھوٹے تھے تب زبردست پٹاخے جلاتے تھے چونکہ اب بڑے ہوگئے تو دوسروں کو لعنت کر رہے ہیں ـ

خدا کو بتایا: خطرناک دہشت گردوں نے اپنے راہول کا اغوا کی کوشش کی تھی ـ خدا نے اپنا نام راز میں رکھتے ہوئے کہا: میاں، دراصل ہم نے اُن کو مشہور کرنے کی سُپاری لی تھی ـ پلان کامیاب رہا، راہول بھیّا مشہور ہوگئے جو ہمیشہ سے وزیراعظم بننے کے خواب سجائے گاؤں والوں کو اکثر نشانہ بناتے رہتے ہیں ـ خدا نے فرمایا: اگر خود کو مشہور کرنا چاہو تو اپنے اغوا ہونے کا واویلا مچاؤ ـ

خدا سے پوچھا: عالیجاہ! پاکستان میں مارشل لاء نافذ ہے تو انتخابات کروانے کا مطلب کیا ہے؟ خدا نے جواب دیا: سِمپل سی بات ہے، بینظیر اور نواز کو گھیر لاؤ اور جہاں پیدا ہوئے وہیں دفناؤ ـ خدا نے مزید کہا: پاکستانی عوام "عجب کشمکش میں مبتلا ہے" یہ تو اچھا ہوا کہ بھارتی فلمیں دیکھ اِن میں کچھ شعور آیا ورنہ افغانوں کے ساتھ فرق نہ ہوتا ـ

کنگ سعود کے یوروپ و برطانیہ کا سفر خدا نے خوب سراہا، اتنی دور جاکے سر جھُکانے کی کیا ضرورت تھی! حالانکہ بہت سے عرب سر اُٹھانے کی جراءت میں ہیں، انقلاب اور جمہوریت کا چسکہ لگ گیا ـ اب اِنہیں شریعت کا لحاظ نہیں، مزے لینے ملک سے باہر چلے آتے ہیں ـ بہت افسوس کہ یہ اپنے ہی ملک میں قید ہیں، کاش کہ باقی دنیا کیساتھ ہمسفر ہوتے!

گجرات سرکار کے بارے خدا نے کہا: میڈیا والوں نے ہلاّ مچا رکھا ہے جیسے مودی کوئی اور نہیں سونیا کا بھائی ہے ـ ہم نے مودی کو ایسے ہی کرسی پر نہیں بٹھایا! بلکہ خدا کی مرضی جسے چاہے کرسی سونپ دے اور جسے چاہے ذلّت و رسوائی دے ـ خدا خود چاہتا ہے کہ لوگوں کو مذہب پر لڑوائے کیونکہ خدا کا کوئی مذہب نہیں اور خدا کی مرضی کے بغیر کسی کو مذہب بنانے کا اختیار نہیں ـ

چار ہاتھ پاؤں والی بچی کو دیکھ خدا نے اپنی اُنگلیاں منہ میں چباتے ہوئے کہا: خدا کی قسم، اِس میں ہمارا کوئی فالٹ نہیں! ضرور القاعدہ والوں کی سازش معلوم ہوتی ہے ـ اگرچہ یہ ایک چمتکار ہے جبکہ سائنس نے پوری دنیا کو فتح کرلیا ـ خدا کا سلام ہے ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کیلئے جو ہر نئی بات کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں جبکہ پرانے زمانے کے حکماء اپنے رازوں، کتابوں کو ساتھ قبر میں لے گئے ـ

بھارتی القاعدہ کو خبردار کرتے ہوئے خدا نے کہا: یوپی اور حیدرآباد کو نشانہ بنانے والو! ہمّت ہے تو سامنے آؤ ـ خدا نے اپنا سر کھُجاتے پوچھا: میاں، یہ مجاہدین کیوں چھپ کر وار کرتے ہیں اور ہمیشہ عام لوگوں کو ہی نشانہ بناتے ہیں! یہ اندر سے کھوکھلے ہیں، اِنہیں اپنے مقصد سے زیادہ جان پیاری ہے ـ خود ساختہ مجاہدین کیلئے خدا نے جھلاّکر چنگھاڑا: کمبختو، کمینو، کتّوں ـ بھارت میں سبھی کیلئے ایک قانون ہے اور تُم جیسے چند کمینوں کیوجہ سے یہاں مسلمانوں کا بُرا حال ہے ـ

تسلیمہ کی دکھ بھری زندگی پر خدا نے افسوس کا اظہار فرمایا: بھلے دُکھی ہو مگر ایک بڑے ملک کی سرکاری مہمان ہو! چند لوگ تم سے خفا ہیں اُن سے معافی چاہنے میں بُرا کیا ہے؟ کسی کی دلآذاری اچھی بات نہیں بھلے تم سچ لکھنے میں کمال رکھتی ہو ـ یہ کولکتہ اور جئے پور کیا ہے، اب تو تم بھارت کے دل میں رہتی ہو ـ سچ تو یہ ہے سچ بولنے والوں کیلئے تھوڑی سی ذلّت بھی اٹھانی پڑتی ہے اور سچ تو سچ ہے کسی بھی باشعور کو اِس سے انکار نہیں ـ

خدا نے خوش ہوکر کہا: میاں، شُکر ہے کہ ہمارے منہ میں دانت نہیں ورنہ کیا معلوم سردی سے کپکپاکر شاید ٹوٹ جاتے ـ خدا نے مزید کہا: ہماری شان دیکھو کہ اِس کڑاکے کی سردی میں بھی ساٹھویں قسط لئے حاضر ہوئے ـ اِس سے پہلے کہ ہمارے پکوڑے اور چائے تھنڈے پڑجائیں، ہم اپنی اِس مقدس قسط کو فی الحال ختم کرتے ہیں بھلے یہ بکواس ہو مگر سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے اور ہماری قسطیں اتنی کڑوی ہیں کہ پڑھتے پڑھتے کچھ لوگوں کی زبان لڑ کھڑا جاتی ہے ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 59 ]

posted by Shuaib at 10:55 AM 0 comments

Post a Comment

خدا کو نیند آگئی

آسمان کی جانب دیکھ خدا نے کہا: شاید بارش ہونے کو ہے ـ ـ ـ کسی نے خدا کو پہچان لیا جو برقعے میں ملبوس لمبے قدم ناپ رہا تھا ـ خدا کو روک کر پوچھا: عالیجاہ، اِس برقعے میں آپ کہاں؟ جلدی میں خدا نے جواب دیا: میاں راستہ چھوڑو، ہم جہاد کی راہ میں رواں دواں ہیں ـ خدا سے پوچھا: برقعہ میں کاہے کا جہاد؟ خدا نے جواب دیا: اِس زمانے میں جس طرح پھٹے کپڑے پہن کر تم لوگ فیشن کہتے ہو، جہاد کی راہ میں اگر پاؤں ڈگمگا جائیں تو برقعہ میں فرار ہونا ہم مجاہدین کا اسٹائل ہے ـ ہمّت کرکے خدا سے مزید پوچھ لیا: مگر برقعہ سے ـ جہاد ـ کیا ـ مراد؟ ـ ـ ـ کھینچ کر چماٹ مارنے کے بعد خدا نے کہا: میاں کاہے سوال پہ سوال مار رہے ہو؟ واللہ ہم سبزی مارکیٹ جا رہے ہیں اور برقعہ اِسلئے تاکہ کوئی نہ پہچانے ـ کمبخت لوگ خدا کو دیکھا نہیں کہ آٹوگراف کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں ـ ـ ـ خدا نے منہ بصور کر اپنے چہرے پہ نقاب ڈالا اور مٹکتے ہوئے سبزی مارکیٹ چلا گیا ـ

آج یہاں زبردست بارش کے باوجود ہزاروں لوگوں کے سامنے خدا نے خطبہ پڑھا، خطبہ شروع ہوا ہی تھا کہ جلسہ گاہ میں کسی نے بم کی افواہ اُڑائی تو مجمع میں بھگدڑ مچ گئی اور درمیان میں پولیس کود پڑی ـ سب سے پہلے خدا کی تلاشی ہوئی، خدا نے اپنی ساری جیبیں جھاڑیں، کچھ نہ ملا پھر بھی پولیس والوں نے خدا کو پیٹا کہ کیوں کچھ نہیں؟ کچھ تو ہوناچ ہے آخر آپ خدا ہیں ـ جب سے دھرتی پر خدا کی آمد ہوئی تب سے کئی جلسوں میں بم پھٹ چکے جس میں درجنوں لوگ لقمہ اجل ہوئے اور بقیہ اپنا نام معذورین کی لسٹ میں درج کروالئے ـ پولیس کے ڈنڈوں سے تنگ مجبوراً خدا نے قبول کرلیا: ہاں اپنے پاس بم تھا جسے ہم نے کھالیا اب وہ ہمارے پیٹ میں ہے ـ پولیس نے خدا کو چھوڑ دیا کہ آپ کہیں دور جنگل چلے جائیں اور بیت الخلاء سے فارغ ہوکر فوراً واپس آئیں ـ موقعہ غنیمت خدا فرار ہونے میں کامیاب رہا ـ شام کو دوبارہ جلسہ منعقد کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ـ

دوسرے دن ذرائع ابلاغ سے بات چیت کے دوران خدا نے بتایا: بھئی میڈیا والوں، ظالم پولیس والے ہمیں کھینچتے ہوئے تھانے لے گئے تھے اور زبردستی قبول کروالیا کہ ہم "خودکش بمبار" ہیں حالانکہ اپنے کو پٹاخوں سے بھی ڈر لگتا ہے، آسمان میں بجلیاں کڑکڑاتے ہوئے ہم خود سہم جاتے ہیں ـ خودکشی تو حرام ہے، بھلا بتاؤ ہم کیسے اپنے کو بم سے باندھ لیتے ـ خدا نے گلا پھاڑ کر روتے ہوئے کہا: ہم نے پولیس کے آگے اپنے سارے ہاتھ جوڑ دئیے کہ ہمارے پاس بم جیسی کوئی شئے نہیں پھر بھی اتنا مارا اُتنا مارا، ایسی ویسی جگہ مارا واللہ ہم سہلا بھی نہیں سکتے اور مجبوراً قبول لیا: ہاں ہم خودکش بمبار ہیں ـ میڈیا والوں سے خدا نے کہا: ذرا تفتیش کرنا آیا یہ اصلی پولیس تھی، چونکہ زمانے کے ساتھ چیزیں نقلی ہوتی جا رہی ہیں ـ ظالم پولیس والے کسی کو بھی پکڑ لے جاتے ہیں زبردستی جرم قبول کرواتے ہیں اور اصلی بدمعاش آوارہ آزاد گھوم رہے ہوتے ہیں ـ

خدا کو یاد دلایا: آپ کی بات سچ ثابت ہوئی، حیدرآباد میں مکّہ مسجد حادثہ کے بعد پھر سے بم دھماکے ہوئے جس میں تقریبا چالیس لوگ چھانٹے گئے ـ خدا نے اپنی تعریف میں فرمایا: میاں، ہماری بات پتھر پہ لکیر ہے، اور یہ کوئی آخری دھماکہ نہیں "بم کا بدلہ بم" یہ سلسلہ جاری رہے گا، لوگ خواہمخواہ چھیتڑے پھاڑے ہلاک ہوتے رہیں گے ـ یوں تو بھارتیوں کیلئے بم دھماکے روز کا معمول ہے (جس دن کوئی حادثہ نہ ہو، یہ تعجب کی بات ہے) ـ خدا نے خود کے کان میں کہا: اچھا ہے، یہ مذہبی لوگ آپس میں لڑتے رہیں مرتے رہیں اور خدا کا کام آسان کرتے رہیں ـ خدا نے غضبناک ہوکر فرمایا: مذہب کی ابتدا فساد پر ہوئی تھی اور انتہا بھی فساد اور اختتام بھیانک فساد پر ہوگا ـ مذہب پر چلنے والوں کا قصّہ صرف اتنا کہ یہ ایکدوسرے سے ڈرتے ہیں پتہ نہیں کون کب غالب ہوجائے ـ خدا نے فرمایا: خدا کو اپنے خدا ہونے کی قسم! تم انسانوں کو تھوڑی بہت سوجھ بوجھ عطا ہوئی مگر ایک بار سمجھ لیا تو دوبارہ سوچنے کی زحمت نہ کی ـ خدا غارت کرے ایسی کھوپڑیوں کو جو سمجھدار ہوکر بھی سوچنے سے ڈرتے ہیں ـ

ایک غریب نے خدا سے کہا: آپ قسمتوں والے ہیں کہ خدا بن گئے اور ہمیں دیکھو پیدائشی غریب ہیں ـ ہنس کر خدا نے جواب دیا: بھئی غریب! خدا نے کبھی کسی کے پیٹ پہ لات نہیں مارا سوائے گاف کے ـ یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ چاہے امیر بن جائے اگر حوصلہ نہیں تو غریب ہوجائے ـ خدا نے فرمایا: ہم نے سبھی انسانوں کو یکساں عقلِ سلیم عطا کیا، کسی نے سمجھداری سے سمجھا اور کوئی سجھدار ہوکر بھی نہ سمجھا جیسے مثل مشہور ہے: "غریب اچانک بادشاہ اور بادشاہ اچانک غریب ہوجائے" تازہ مثال گیتانجلی بھی ہے ـ خدا نے کہا: ہماری قسمت اِس لئے چمک اُٹھی کیونکہ اُس زمانے میں کوئی دوسرا خدا ہونے کے لائق نہ تھا چونکہ اُس وقت ہمارے علاوہ اِس جہاں میں کوئی تھا ہی نہیں، اسی لئے بالآخر ہمیں ہی خدا بننا پڑا ـ خدا نے بتایا: دنیا میں کئی عظیم شخصیتیں گذریں جو غربت میں پیدا ہوئے پھر ایسے ویسے کارنامے انجام دیئے کہ دولت، شہرت و عزّت سے مالا مال ہوگئے ـ

خدا سے پوچھا: اُسامہ بن لادن کی طبیعت کیسی ہے؟ بہت عرصہ ہوا، اُنکا تازہ ویڈیو ریلیز نہ ہوا ـ خدا نے جواب دیا: وہ بخیر ہیں، امریکہ میں عیش فرما رہے ہیں ـ بڑے محنتی انسان نکلے، افغانوں کو پٹانے میں کامیاب رہے اور عرصہ تک امریکہ کیلئے مہرہ بنے رہے، اِنہیں بڑی لمبی قیمت وصول ہوئی بشرط یہ کہ چھُپے رہیں ـ ـ میاں، آپکی فرمائش پر اُن کا سلور جوبلی ویڈیو ریلیز ہوچکا ہے ـ خدا نے مزید کہا: القاعدہ کے پٹھو پٹھان کشمکش میں مبتلا ہیں کہ آیا اُسامہ زندہ ہے یا مردہ؟ پٹھانوں کو اب بھی یقین ہے کہ اُسامہ پوری دنیا پر بادشاہت کریں گے اور ہم پٹھانوں کو مختلف ممالک کا وزیر بنائیں گے ـ مگر اِن پٹھانوں کو یہ احساس ہی نہیں کہ انکی بیویاں اور بیٹیاں امریکن آرمی کی لونڈیاں بن گئیں جو کہ انکی دلی آرزو بھی یہی تھی، چوری چھُپے بھارتی فلمیں دیکھ انکے اندر حسرتیں جاگ اُٹھیں ـ اُسامہ کی مارکیٹنگ رنگ لائی جس سے افغانستان میں عورتوں کو امریکہ نے آزادی دلوائی ـ حالانکہ صدّام اور عرفات دونوں بھی امریکی مہرہ بنے تھے لیکن بدلے میں اپنی ہی جان دے کر اُلٹا قیمت چکانا پڑا، دراصل یہ ایک پہیلی تھی جو ابھی تک نہ سُلجھی ـ

آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خدا نے مترنّم آواز میں قصیدے پڑھے ـ پوچھا تو فرمایا: میاں، ریہرسل چل رہی ہے تاکہ مشرف کی میّت پر اُنکے سرہانے اِن قصیدوں کو بَر زبانی پڑھا جائے ـ بیچارے مشرف نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے، آگے پیچھے دونوں طرف کھائی ہے ـ آخر کب تک امریکہ کی گودی میں بیٹھے رہتے! دوسروں کو بھی بیٹھنے کا موقع ملنا چاہئے ـ پاکستان کے تازہ واقعات پر خدا نے کہا: اِس ملک کو عراق بننے میں شاید زیادہ دیر نہیں، فرقہ وارانہ فسادات کب شروع ہوجائیں کوئی وقت متعین نہیں ـ اگر پاکستانی عوام چاہیں تو جمہوریت قائم کرکے امن و امان سے رہ سکتے ہیں مگر ملاّؤں کا کیا بھروسہ، وہ تو اَنا پرست ہیں ـ افغان و عراق کی مثالیں سامنے ہیں ـ ـ پہلے امریکہ کی چمچمہ گیری پھر آپس میں گروہی تصادم اور ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ وار تشدد!! وقت بہت کم ہے، روشن خیالوں کیلئے اشارہ کافی ہے ـ اگر پاکستان کو عراق و افغان ہونے سے بچانا ہے تو سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانا ہے چونکہ فتنے کی چنگاری سُلگ چکی ہے ـ اگر خدا چاہے تو پاکستان کی مدد فرمادے مگر پہلے ملاّؤں کو سمجھاؤ کہ وہ خدا کو سمجھے لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ خدا صرف اِنہی کا ہے ـ

خدا نے خود کا نام لئے بغیر فرمایا: ہم نے نواز شریف کو پورے چار گھنٹے تپایا، ہمارے ہی حکم پر چند گھنٹوں کیلئے پاکستان تشریف لائے اور سٹپٹاگئے ـ یوں تو ہوناچ تھا، اب بینظیر کو بھی اُترنا ہے پھر اِنہی حالات میں مشرف کو ٹپکنا ہے ـ عوام یونہی بلا وجہ گلا پھاڑ رہے ہیں، یہاں ہر کوئی کسی کی حمایت میں نعرے لگا رہے ہیں ـ جانتے نہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے اگر سمجھدار ہوتے تو سب امریکہ کی آواز سے آواز ملاتے ـ پاکستان میں کہیں بھی یکتا نہیں کسی میں اتحاد نہیں، اگر اِن میں اتحاد ہوتا تو آج امریکہ کی اُنگلیوں پر اِسطرح نہیں ناچتے بلکہ اُلٹا امریکہ کو ناکوں چنے چباتے جسطرح کُند ذہن کہلانے والے طالبان آج بھی امریکہ کی ناک کے بالوں کو کھروچ رہے ہیں ـ خدا نے مزید اپنا نام لئے بغیر فرمایا: خدا کی قسم! ہم نے کسی کو طاقت و دولت عطا نہیں کیا بلکہ انسان نے خود اپنی قسمت آپ بنایا، اب جب تمہارے حوصلے پست ہوچکے تو امریکی غلامی ہی سہی، تم امریکہ کے باپ نہ بن سکے مگر وہ تمہارا باپ ہی سہی ـ چھوڑو یہ تکبّر، غرور، ضد، اَناپرستی ـ گذرے زمانوں سے روایت ہے کہ طاقتور بادشاہ ہی کمزور بادشاہ پر غالب رہتا ہے ـ مانا کہ تم خوددار ہو مگر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار کر خدا سے مدد کی بھیک نہ مانگو ـ

خدا سے پوچھا: اتنے دنوں کہاں چلے گئے تھے کہ یہ بلاگ آپ کے بغیر بالکل سُونا ہوگیا ـ خدا نے جواب دیا: گھنٹا بجا رہے تھے!! میاں، ہمیں اور بھی کام ہوتے ہیں آخر ہم خدا ہیں ـ چوبیس گھنٹے دنیا گھُمانا، مختلف جگہوں پر بارش برسانا، کہیں برفباری تو کہیں سمندری طوفان اُٹھانا، ایکساتھ پیرو میں زلزلہ اور بنگلہ دیش میں سیلاب چلانا، انسان حیوان سب کی خبر گیری کرنا، کسی کو بھوکا مارنا اور کسی کو حلق تک کھِلانا وغیرہ وغیرہ وغیرہ ـ خدا نے بتایا: اتنے سارے کام و کاج کے باوجود پھر بھی اِن قسطوں میں آکر ایک آدھ بکواس کہہ ڈالتے ہیں یعنی اپنے دل کی بھڑاس اُگل جاتے ہیں ـ اب چند دنوں سے ٹائم ہی نہ ملا کہ پوچھتے ہو یہ بلاگ خدا کے بغیر سُونا پڑگیا جیسے بکواسیت پڑھنے کیلئے یہاں کچھ بھی مواد نہ ملا؟ اماں یار، اِس بلاگ پر خدا کے فضل سے کُل 57 قسطوں میں ایک سے بڑھ کر ایک بکواس موجود ہے، اب یہ 58 ویں بکواس قسط بھی شامل ہوگئی ـ پڑھتے رہو، اگرچہ یہ بکواس قسطیں ہیں مگر خدا کی مقدس باتیں ہیں ـ

خدا نے پوچھا: قانون بکواس ہے یا بکواس ہی قانون! کہنے کو بھارت میں سب کیلئے یکساں قانون ہے، دیکھا جائے تو امیر و غریب کیلئے قانون میں اختلاف ہے مگر اچانک حیرانگی ہوتی ہے کبھی کبھار امیروں کو غرباء کے قانون سے جکڑ دیا جاتا ہے ـ اکثر مواقع پر امیروں سے لے دے کر صلح ہوجاتی ہے اگر قانون ضِد پر آجائے تو امیروں سے لے کر بھی دینے سے صاف انکار کر دیا جاتا ہے ـ سنجے کو اندر باہر کی ہوا کھلاتا ہے، ہرشد کو پیسوں سے تولہ جاتا ہے، لالو کو وزارت پر بٹھا دیا جاتا ہے اور سلمان کے ساتھ ناچنے گانے کے بعد اُلٹا قیمت وصول کرتا ہے ـ کئی بار قانون کے رکھوالے خود مجرم بن جاتے ہیں، پولیس اور آرمی میں ایسے ویسے جرائم رونما ہوتے ہیں کہ سُن کر بھی یقین نہیں آتا رکھوالوں کا یہ حال ہے تو انکو دیکھ کر خدا کا ہنستے بُرا حال ہے ـ بھارت سچ مچ عجیب ملک ہے، یہاں کا کرپشن ملک کی سیاست بھی ہے اور روایت بھی ـ خدا نے فرمایا: انڈر ورلڈ ڈان کو چاہے تو ابھی پکڑلے مگر ساتھ ہی کئی سیاستدانوں کی پول کھل جائے ـ دنیا کے سبھی ملکوں میں کرپشن موجود ہے مگر بھارت ایک ایسا ملک ہے یہاں کرپشن سبھی کی ضرورت ہے جیسے چلنے پھرنے کیلئے پاؤں کا ہونا ضروری ہے ـ

جلسہ گاہ میں خدا نے اپنی تعریف میں خود فرمایا: واللہ، ہم اپنی جوانی میں ایسے تھے ویسے تھے، نہایت ہی حسین و جمیل تھے کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ تھے ـ وہ اسلئے اُس وقت جہاں میں کوئی تھا نہیں کس کو اپنا منہ دکھاتے؟ اپنی جیب سے بچپن کا فوٹو نکال کر خدا نے حاضرین کو دکھایا تو مجمع غش کھاکر بیہوش ہوگیا ـ خدا نے حاضرین کو ہوش میں لاکر فرمایا: معاف کیجئے گا، چونکہ ہم نے اپنی پرورش خود کرلئے تھے اس لئے بچپن میں ویسے تھے ـ اپنی دوسری جیب میں ہاتھ ڈال کر خدا نے کہا: اب ہماری جوانی کا فوٹو بھی دیکھ لیجئے! مجمع اٹھ کر رفو چکّر ہوگیا ـ دوسرے دن اخباروں میں خبر تھی: "خدا کی تصاویر دیکھ کئی لوگوں کو انجان بخار چڑھ گیا" ـ اِس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے خدا نے اخبار نویسوں سے فرمایا: چونکہ ہم نے اپنی پرورش خود کر بیٹھے، اسلئے بچپن میں کچھ یوں تھے ـ اور اپنی جوانی کا پتہ نہیں کب آئی گئی ـ خدا نے کہا: یہ تصویریں ہم نے اپنے ہاتھ سے بنائے تھے کیونکہ اُس زمانے میں کیمرا کا وجود نہ تھا ـ

پرتیبھا کیلئے خدا نے اپنی دعائیں چھوڑیں: محترمہ، واقع آپ خوش قسمت ٹھہریں کہ بھارت کی پہلی خاتون صدر اُبھریں ـ اب ذرا سنبھل کے، یہ بھارت ہے پورے دیڑھ سو کروڑ بھارتیوں کا دل جیت کر دکھائیں ـ بطور پہلی خاتون صدر، خدا آپکے ساتھ ہے ـ مگر بھارتیوں کی مرضی کہ آپ کو کب تک ٹکائے رکھے چونکہ جب خدا بھارت آیا تھا، زمین پہ اُترنے تک نہیں دیا بلکہ کئی گھنٹے ہوا میں ہی لٹکائے واپس بھیج دیا (بڑے خود غرض بھارتی ہیں) ـ پرتیبھا کیلئے خدا نے فرمایا: ملک کے سب سے اونچے عہدے کا وقار پامال نہ کیجئے، آپ اِس ملک کی ماں سمّان ہیں سب کو ایک ہی نظر سے دیکھیں اور یکساں پیار بانٹیں ـ اپنی کھوپڑی کھُجاتے ہوئے خدا نے کہا: اماں یار، اب کونسا نیا سسٹم چل پڑا کہ بھارت میں اونچے عہدوں پر مسلمان تعینات ہو رہے ہیں! یہ سیاستدانوں کی چاندی اور مسلمانوں کیلئے پیتل کا کٹورا جیسا ہے ـ خیر، جو بھی ہے آپس میں مل بانٹ کر کھائیں اور کھلائیں خدا سب دیکھ رہا ہے ـ فی الحال اپنے دھرم کو دیکھنے سکینڈ شو جانا ہے ـ

خدا نے پوچھا: یہ کیا بات ہوئی کہ اکثر ہندی فلمیں ایک جیسی ہوتی ہیں؟ نہ سر نہ پاؤں، اِن فلموں کی کہانی میں کبھی ہیرو پنجاب سے کبھی ہیروئن پنجاب سے یا پھر پوری فلم پنجاب ہی سے ہوتی ہے ـ بھارت میں پنجاب کے علاوہ اور بھی شہر موجود ہیں مگر فلموں میں پنجاب کا ہونا جیسے ایک مقدس بات ہوئی!! خدا نے بتایا: کل رات سکینڈ شو میں اپنے دھرم کو دیکھا، کئی زمانوں کے بعد پردے پر ویسے ہی گرم نظر آئے مگر پھر بھی فلم چلتے پیٹرول ختم ہوگیا ـ خدا نے کہا: اب کی فلموں میں بکواسیت کے سوا کچھ نہیں جبکہ آج بھی بھارتی فلمیں پاکستانیوں کیلئے اُوڑھنا بچھونا سے کچھ کم نہیں ـ خدا نے فلمسازوں سے کہا: آپ لوگوں کو خدا کا واسطہ، کچھ تو بہترین فلمیں بناؤ کہ راحتی ملے چلو ایک اچھی فلم دیکھنے میں پیسے خرچ ہوئے جس میں منورنجن کے ساتھ ایک سبق بھی ملے ـ ایسا نہیں کہ فلم کے شروع ہوتے ہی ہیروئن اپنی ٹانگ اٹھائی تو گانا، ٹانگ ہلائی تو گانا ـ کچھ نہ کرے پھر بھی کچھ کرنے کو گانا اور گانے بھی خدا کی پناہ، خدا کو اپنے ساتھ سکریٹری لانا ہوتا ہے ـ

خدا نے بتایا: جب ہم چھوٹے اور بالکل ننھے تھے، اپنی خواہش یہ تھی کہ بڑے ہوکر ڈاکٹر بنیں گے ـ مگر آج کے حالات دیکھ کر شُکر مناتے ہیں کہ اچھا ہوا ہم ڈاکٹر نہ بنے ورنہ گلاسگو حادثہ کے فوراً بعد حکومتیں سب سے پہلے خدا سے تفتیش کرتیں اور خدا کو بھی خواہمخواہ قبول کرنا پڑتا کہ ہاں یہ حادثہ ایک چمتکار تھا ـ خدا نے فرمایا: بنگلور کے اَمن پسند شہریوں کا نام دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل کرنے کی کوشش ناکام رہی، امن پسند لوگوں کا خدا سائبان ہے ـ بنگلور شہر، جہاں دنیا بھر سے آئی ٹی، بی ٹی کمپنیوں کے سرمایہ سے لاکھوں بھارتیوں کو روزگار ملا اور اپنے مزاج جیسا خوش بہار موسم ملا ـ خدا نے کہا: ہمیں افسوس ہیکہ ڈاکٹر بن نہ سکے باوجود ڈاکٹری جیسے مقدس پیشے کی عزّت کرتے ہیں جو بلا مذہب سبھی انسانوں کا علاج کرتے ہیں ـ اور اِنہی ڈاکٹروں کی بدولت آج خدا کی کچھ شان باقی ہے، لوگ خدا کو حاضر و ناظر جان کر بہت کچھ کر جاتے ہیں جبکہ ڈاکٹروں کے آگے شرمندہ کھڑے ہوتے ہیں ـ

گرگٹ کو دیکھ کر خدا نے کہا: بدمعاش بڑا رنگین مزاج ہے، دیکھو کس طرح اپنے جسم کو رنگوں میں بانٹ رہا ہے! خدا کو یاد دِلایا: جہانپناہ! یہ گرگٹ رنگین مزاج نہیں بلکہ رنگین ہی ہے مگر خدا کی طرح رنگیلا نہیں کہ کسی کو گورا بنایا تو کسی کو کالا، کسی کو ہندو اور کسی کو مسلمان بنا دیا ـ یکلخت خدا نے کہا: میاں، کیوں اناپ شناپ بک رہے ہو! واللہ، خدا نے کبھی کسی کو فرقوں میں نہیں بانٹا ـ سب کو مکمل اور خالص انسان بنایا تھا، ہمیں کیا کھجلی تھی کہ انسان بنانے کے بعد ان میں مذاہب اور فرقوں کو تشکیل دیتے؟؟ یہ تم انسانوں کا سلسلہ ہے کہ اولاد کا مذہب وہی جو والدین کا ہے اور مذہبوں کی ایجاد تمہارے بزرگوں نے کیا تھا جو پچھلے زمانوں میں کام و کاج نہ ہونے کی وجہ سے خاندان میں پھوٹ ڈال کر فرقوں کی بنیاد ڈال گئے اور بچپن سے ہی ذہنوں پر تالے مار گئے جسکی کنجی پاس رہتے بھی تمہیں دکھائی نہیں دیتی ـ خدا کو اپنے خدا ہونے کی قسم! مذہبی ہونا آسان ہے مگر مذہب کو سمجھنا کسی مائی کے لال میں ہمّت نہیں ـ اور جس نے مذہب کو پہچان لیا وہ مذہبی نہیں بلکہ سچّا انسان ہے ـ

خدا نے فرمایا: ہم اُن رشتے داروں کے غم میں برابر شریک ہیں جن لال مسجد کے طلبہ کو بروقت برقعے نہ ملنے کی وجہ سے اپنی ہی فوج کے ہاتھوں بے موت مرنا پڑا ـ خدا نے بتایا: طلبہ نے سجدوں میں اپنی ناک رگڑتے ہوئے خدا سے مدد کی فریاد کرتے رہے (میاں، کیا ضرورت تھی ہلّہ مچانے کی ـ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارکر خدا سے پٹّی باندھنے کی فریاد کرتے ہو!) یہ صرف آج اور کل کی بات نہیں بلکہ پچھلے زمانوں سے بھی ”خود ساختہ مجاہدین“ مدد کیلئے خدا کو پکارتے نہیں تھکتے اور خدا بغیر تھکے اُن مجاہدین کی سُنی اَن سنی کردیتا ـ آخر کیا فائدہ ایسے جہاد کا؟ ہمیشہ اِس امید سے کہ خدا مجاہدین کے ساتھ ہے باوجود پھر بھی مجاہدین کا ہی نقصان ہے، بُری موت مرنے کے بعد اپنے عزیزوں کی نظر میں شہید مگر ساری دنیا کی نظر میں دہشت گردوں کی دہشتناک موت!! خود مجاہد بن بیٹھے اُلٹا اپنوں پر ہی عذاب بن گئے ـ جیسے خدا نے اِنکے خواب میں آکر کہا: ”کچھ کرنے کے لائق نہ سہی، والدین کے نافرمان ہی سہی، اچھے بُرے کی تمیز نہ سہی صرف ہتھیار چلانا آجائے تم پکّے مجاہد ہو“ ـ مارو اور مرو، اپنوں کے خون سے خدا کا جھنڈا لہراؤ اِس اُمید سے کہ تم جنّتی ہو جبکہ دنیا والوں نے دیکھ لیا تم کس مصیبت، عذاب جھیل کر بھیانک موت مارے گئے جسم کے حصّے چھیتڑوں میں اُڑگئے ـ

کتّوں نے بھونکتے ہوئے خدا کا پیچھا پکڑلیا، اب خدا بھی حیران: بدمعاش اپنے خدا کو نہیں پہچانتے؟ ایک کتّے نے دُم ہلاکر خدا سے پوچھا: آپ کی تعریف؟ خدا نے جھلاّکر کہا: بدتمیز! ہم تمہارے باپ یعنی اِس سارے جہاں کے ایک اکیلے خدا ہیں ـ کتّے نے پھر دُم ہلایا: اچھا تو آپ ہیں! دراصل شک کرنا پھر بھونکنا ہماری فطرت ہے ـ خدا نے بھی اپنی دُم ہلاکر کتّوں سے خطاب فرمایا: کمبختوں! تمہارے میں بھونکنے کی صلاحیت کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی منحوس آواز میں گلا پھاڑو اور دوسروں کے کان! جب تمہارے میں بھونکنے کی تمیز نہیں تو کاہے کتّا بنے پھرتے ہو؟؟ گلی محلّے میں ہر آنے جانے والوں پر جھپٹتے ہو جیسے یہ تمہارے باپ کا علاقہ ہے ـ خدا نے کتّوں کو لتاڑا: تم آوارہ کتّوں کیوجہ سے لوگ باگ پریشان ہیں، رات کو ڈیوٹی سے لوٹنے والے کرفیو سے نکل جائیں مگر کتّوں کی نظر سے نہیں ـ اکثر لوگوں کی دعاء ہے کہ: یا رب! کتّوں کو واپس بلالیں اور اُنکی تعداد میں شیر، چیتوں کا اضافہ فرما دیں ـ چونکہ شیر کو اپنے سامنے دیکھ انسان کی روح فنا ہوجاتی ہے مگر کتّوں کو سامنے دیکھ جسم کپکپاتا ہے اور پاؤں بھاری پڑجاتے ہیں ـ

خدا سے فریاد ہوئی: ذرا ٹینکریڈو کی زبان پر لگام دیں جس نے اسلامی مقدس مقامات پر بم حملوں کا فتویٰ چھوڑ کر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے ـ خدا نے تھنڈی سانس لے کر جواب دیا: دنیا میں سبھی اقوام نے اپنے لئے علیحدہ مقدس مقامات بنالئے ہیں، ہندوؤں کیلئے کاشی اور متھرا، مسلمانوں کیلئے مکّہ اور مدینہ ـ جبکہ امریکیوں کیلئے امریکہ خود ایک مقدس ملک ہے ـ ظاہر سی بات ہے جب القاعدہ اور دوسرے مولوی حضرات روز افزاں امریکہ پر حملے کی دھمکیاں چھوڑتے نہیں تھکتے اب پہلی بار ایک اُبھرتے امریکی صدر ٹینکریڈو کے فتوے پر مسلمانوں کے جذبات کیسے مجروح ہوگئے؟ تعجب ہے! مسلمانوں کیلئے مقدس مقام صحیح مگر امریکیوں کا مقدس ملک کچھ نہیں؟؟ یہ کیا بات ہوئی کہ مسلمان بار بار امریکہ پر فتوے چھوڑے ـ ـ ـ پھر کوئی امریکی مکہ مدینہ کے خلاف فتویٰ کیوں نہ دے؟؟؟ خدا نے پورے غضب میں فرمایا: ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی کسی کے خلاف فتوے نہ چھوڑیں بلکہ آپس میں انسانیت کے ساتھ مل جُل کر بھائی چارے سے رہیں ایکدوسرے کے مذاہب / تہذیب کا احترام کریں ـ ـ یقین جانو پھر کسی کے جذبات مجروح نہ ہونگے!

بیکار بیٹھنے کے بجائے خدا نے جیب سے منکوں والی تسبیح نکال خود اپنی تعریف آپ شروع ہوگیا، کسی نے بتایا منکوں میں خدا کی حمد و ثناء کرنے سے جنت میں مفت انٹری ہے ـ پھر خدا کو یاد آیا جنت تو اِسکی اپنی ہے پھر کاہے کیلئے حمد و ثناء؟ لوگ بھی عجیب و غریب حرکتوں میں مصروف ہوجاتے ہیں گنتی میں خدا پر آیتیں پڑھتے ہیں ـ جنّت خدا کا ذاتی مکان ہے، بھلا کوئی انسان حمد و ثناء کرلے تو خدا کیونکر اُسکو اپنی جنت میں بلائے؟ پتہ نہیں کس کمبخت نے یہ افواہ اُڑائی تھی کہ خدا کی حمد و ثنا کرو اور جنت میں مفت انٹری مارو!! خدا کو خدا کی قسم! تم انسانوں کے ہر اچھے بُرے کرموں کا اجر یہیں دنیا میں موجود ہے لال مسجد تازہ مثال ہے ـ خدا نے کہا: اب چونکہ رمضان کا مقدّس مہینہ آگیا جبکہ ہمیں بھوکا رہنے کی عادت نہیں اور جس کو بھوکا رہنا ہے شوق سے رہے مگر اپنی جھوٹی عبادتوں سے خدا کا دل جیتنے کی کوشش نہ کرے، اور اگر خدا کو خوش کرنا ہی ہے تو تم سبھی انسان آپس میں ایکدوسرے کا احترام کریں، ایکدوسرے کے مذاہب کلچر پر طنز نہ کریں ـ خدا نے فرمایا: ہمیں بھی خواہش ہے کہ رمضان کے پورے روزے رکھے بشرط ایسا طریقہ ہو کہ بھوکے رہے اور بھوک کا احساس بھی نہ لگے ـ

ہند اور پاک کو یومِ آزادی کی ساٹھویں سالگرہ پر مبارکبادی دیتے ہوئے خدا نے فرمایا: دونوں ممالک کے لوگ آزادی کا مطلب چھُٹی سے مناتے ہیں ـ آپ لوگوں کو آزادی کا مطلب معلوم نہیں تو حنیف اور ناصر مدنی سے پوچھو! بیچارے قسمت کے مارے، جیل سے آزادی نصیب ہوئی تو جیسے دوبارہ جنم پالئے ـ خدا نے چنگھاڑتے ہوئے کہا: صبح سویرے قومی ترانہ پھر بھاشن پھر مٹھائی کھانے کے بعد پورا دن صرف چھُٹّی کے طور پر گذارنے والوں! بہت ہی خون خرابوں کے بعد ایسی آزادی ملی کہ کھُل کر سانس لینے کی توفیق نصیب ہوئی ـ بھارت کو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا شرف حاصل ہوا، یہاں ہر بھارتی کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہوا ـ اگرچہ پاکستانی عوام آج بھی اپنے جنرلوں اور ملاؤں کی غلامی سے آزاد نہ ہوئے مگر خود کو پاکستانی کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں ـ خدا نے فرمایا: آزادی دلوانے والی شخصیتوں کو یاد کریں اور اُنکا شکر ادا کریں کہ اِنہی کی بدولت غلامی سے آزادی ملی، حق مانگنے کی جرأت ہوئی، دنیا بھر میں الگ پہچان بنی ـ خدا نے کہا: بھارت اور پاکستان میں جن لوگوں کو آزادی کی قدر نہیں معلوم، اُنہیں اِس آزادی کی ساٹھویں چھُٹی مبارک ـ

تھک ہار کر رات کو بستر پر عجیب و غریب انداز میں کروٹیں بدلنے کے باوجود خدا کے ہاتھ نیند نہ آئی ـ خدا نے نیند کو پکارا، اپنی جیبیں جھانکا مگر نیند کا کوئی اتہ پتہ نہیں ـ نیند کو بلانے کے واسطے خدا نے اپنی اُنگلیوں پر ایک سے لاکھ تک گنتی کرلیا پھر بھی نیند نہ آئی، اپنے سبھی ہاتھوں کو گِن لیا پھر بھی نیند نہ آئی، پانچ مرتبہ اپنی سبھی ٹانگوں کو گِن لیا پھر بھی نیند نہ آئی ـ یکدم جھلّاکر بستر سے اُٹھنے کے بعد خدا نے اخبار اُٹھایا اور سبھی خبروں کا حفظ کرلیا پھر بھی نیند نہ آئی ـ غصّے میں خدا نے خود کے گال پر دو چار تھپڑ رسید کرلئے کہ پورے 21 پیراگراف ہوچکے مگر تھکاوٹ کے باوجود نیند آتی کیوں نہیں؟ یہاں تک کہ خدا نے انگلیوں پر تھُوک لگاکر اپنے جسم کے تمام بالوں کو گن لیا پھر بھی نیند نہ آئی ـ تنگ آکر خدا چھت پر چلا آیا یہاں کھُلے آسمان پر چمکتے ستاروں کو دیکھ مسکرایا ـ خدا نے خوش ہوکر تاروں کی گنتی شروع کر دیا، شاید کہ نیند آجائے اور تھوڑی ہی دیر میں اپنا منہ پھاڑے جم کر جماہی چھوڑا ـ آنکھوں میں تارے مُرجھانے لگے ـ تاروں کی گنتی پوری نہ ہوئی البتہ خدا کو نیند آگئی ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 57 ]

posted by Shuaib at 10:54 AM 0 comments

Post a Comment

ہندو مسلم بھارت اور خدا

اپنے آپ پر پرفیوم چھڑکتے ہوئے خدا گُنگنایا: دِل تو پاگل ہے، دل دیوانہ ہے ـ ـ ـ پھر پوچھا: میاں، اِسوقت مادھوری دکشت کس حال میں ہوگی؟ اُسے پردہ سیمیں پر دیکھ عرصہ ہوا ـ اور یہ جتیندر، دھرم گرم وغیروں کی کچھ خبر بھی نہیں ـ واہ، انکی اداکاری میں غضب کا نشہ ہوتا تھا ـ واللہ، ہم نے نیّت باندھ لی ہے کہ ممبئی ایئرپورٹ پہنچتے ہی سیدھا بالی ووڈ کا رُخ کریں گے اور اُن سبھی ستاروں سے ملکر فیض پائیں گے جن کے ہم مداح تھے ـ خدا نے پُرجوش انداز میں کہا: بالآخر ہماری اُمید برآئی ہمارے بھارت جانے کا وقت آیا ـ

خدا پر مبارکبادیوں کی بوچھاڑ شروع ہوئی، آخرکار بھارت جانا نصیب پالیا ـ اپنے لئے بطورِ خاص کولہاپور سے چپّل بھی منگوالئے تھے، اب خدا بھی کیا یاد رکھے اُسکا بھارت جانے کا خواب سچ ثابت ہونے کو آیا ـ بالوں میں کنگھا، آنکھوں میں سُرمہ، گلے میں پھولوں کا مالا سب نے خدا کو الوداع کہا: اپنا خیال رکھنا اور تاج محل کے رُوبرو اپنی تصویر ضرور کھینچوانا، گاندھی کی سمادھی پر گلہائے عقیدت کرنا نہ بھولنا ـ ایک ایسے دیش کیطرف خدا نے پرواز بھرا جہاں تین سو سے زیادہ بولیاں ہیں، درجنوں مذاہب اور سینکڑوں فرقہ جات اور ہزاروں اقوام کے ہر رنگ میں لوگ ایک ساتھ زندہ ہیں ـ

زمین و آسماں کے درمیان ہوا میں جھومتے ہوئے خدا نے بلند آواز میں کہا: اے سر زمینِ ہندوستاں کے لوگوں! سلام اور نمستے ـ اُمید ہے آپ نے ہمیں پہچان لیا، جی ہاں ہم خدا ہیں اِس سارے جہاں کے اکیلے مالک، آپکے دلوں میں ہلچل مچانے والے، تمہیں ٩ مہینوں تک پیٹ میں زندہ سلامت رکھنے والے، تمہاری بھوک اور پیاس کا احساس دلانے والے، تمہاری موت و حیات کے مالک، ہواؤں کا رُخ بدلنے والے، رات اور دن کو بنانے والے ـ ـ ـ واللہ، ہم ہی خدا ہیں دیکھو آج تم بھارتیوں کے آگے ہوا میں لٹکے ہوئے ہیں ـ گر اجازت ہو تو چند دنوں بھارت کے ہم مہمان ہیں اور امریکہ سے سفارش نامہ بھی ساتھ لائے ہیں ـ

اپنی کمر پہ ہاتھ رکھے فرمایا: اے بھارت کی بکھری قوموں! صدیوں سے جسکا تمہیں انتظار تھا، جسکی عبادتوں اور پوجا پاٹ کرتے تم نہیں تھکے! جس کیلئے خونین فساد کرتے ہو، جسکی خاطر ایکدوسرے کی عبادتگاہوں پر پتھراؤ کرتے ہو ـ آؤ ہم سے ملو، چاہو بھگوان، خدا، ایشور سمجھ لو ـ ـ ـ جس نام سے بھی پکارلو ـ ـ ـ اِس سارے جہاں کے مالک ہم ہی ہیں ـ پتھروں کو پوجنے والوں، مندروں میں گھنٹیاں بجانے والوں، گرجا گھروں میں گھٹنے ٹکانے والوں، مسجدوں میں سجدہ کرنے والوں اور ہواؤں میں خالی خالی گھورنے والوں ـ ـ ـ آج ہم تمہارے آگے ہوا میں لٹکے ہوئے ہیں ـ بڑی تمنّا تھی بھارت کے اِن عجیب و غریب بکھری اقوام کو دیکھیں! واللہ، آج ہماری حسرت پوری ہوئی ـ

مُسکراتے ہوئے فرمایا: کیا سوچ رہے ہو؟ ـ ـ ـ کہ ہم ہندو ہیں کہ مسلمان یا عیسائی یا پارسی پھر سردار جی!!! ہائے افسوس کہ کیا بتائیں اِن میں سے ہم کچھ نہیں مگر بیشک باقاعدہ خدا ہیں ـ ـ ـ چاہو آزمالو، چاند کو زمین پہ اُتاردیں، سورج کی روشنی ختم کردیں، پورا سمندر خالی کردیں یا دنیا کو ہی مٹا دیں!!! ہم خدا ہیں ہر چیز پر قادر ہیں ـ تم بکھری اقوام کے قصّے سُنکر بڑا مزہ آیا، تمہاری داستانیں بھی دلچسپ ہیں اور تمہاری تہذیب خود ایک عجوبہ ہے ـ ـ ـ کیا منہ پھلا کر دیکھ رہے ہو؟ خدا تو حاضر ہے اب کس چیز کا انتظار ہے؟

میڈیا والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بھلا ہو اِن لوگوں کا جو اِسوقت بھی اپنی ڈیوٹی پر قائم ہیں ـ بھکاریوں کیطرف دیکھ کر کہا: اِن لوگوں کا بھی بھلا ہو یہاں بھی بھیک مانگنے میں مگن ـ اُن کھلونے والوں اور آئس کریم والوں کا بھی بھلا ہو کہ جہاں پبلک دیکھی اپنی آوازیں لگانا شروع کردیں ـ ـ ـ اوہ بھارت واسیوں ذرا ٹھہرو! ـ ـ ـ خدا آیا ہے، یہ کوئی جلسہ نہیں ـ ابھی ہم دھرتی پہ نہیں اُترے کہ اتنا بڑا مجمع لگ گیا ـ آدمی پر آدمی کھڑا ہے پتہ نہیں خدا کو دیکھنے کی تمنّا ہے یا خدا تک پہنچنے کی!!!

کشمیر سے کنیاکماری تک گجرات سے بنگال تک، واللہ صدقے جاؤں تمہاری اِس انوکھی تہذیب پر ـ ہمیں پتہ تھا کہ تمہارے یہاں ان گنت خدا ہیں مگر ہم اِن خداؤں کے خدا ہیں ـ ـ ـ ہمارے نام پہ تبلیغ کرنے والوں! ہماری شکل پر مورتیاں بنانے والوں! ہمارے نام سے فتوے چھاپنے والوں! ہمارے نام پہ فرقے بانٹنے والوں! تم سب ذرا پہلی صف میں آجاؤ ـ ـ ـ تاکہ پہلے آپ حضرات سے گفتگو ہوجائے پھر عام جنتا سے ملاقات ہوگی ـ ہم سب کی سنیں گے پھر اپنی بولیں گے ـ ـ ـ مگر پہلے ہمیں دھرتی پہ اُترنے دو! کب سے ہوا میں لٹکے ہم خود بکے جا رہے ہیں ـ

سبھی بھارتیوں نے ایکساتھ بلند آواز میں خدا سے کہا: خدا کو اُسکے خدا ہونے کا واسطہ! خبردار جو اِس پاک دھرتی پہ اپنے قدم رکھا!!! جاؤ جاؤ ہمیں آپکی کوئی ضرورت نہیں ـ ـ ـ ایتھوپیا جاؤ، سوڈان جاؤ، میانمار جاؤ، بھوٹان جاؤ اور جاؤ عراق ـ ـ ـ اِن ممالک کو جانے اگر ہمّت نہیں تو رہو امریکہ میں مگر خدارا اِس پاک دھرتی پہ اپنے قدم نہ رکھو ـ ہم سب بھارتی ہیں اِس دیش کے ہم خود خدا ہیں اور یہاں پر اتنے خدا ہیں کہ کسی باہر کے خدا پر ہمارا ایمان نہیں ـ

دو ہاتھ والے، چار ہاتھ والے، بغیر ہاتھ والے اور بغیر دکھائی دینے والے، قبروں میں سوئے ہوئے اور سولی پر لٹکے ہوئے ہر قسم کے خدا ہمارے بھارت میں موجود ہیں ـ آپ جاؤ یہاں سے، ہم بھارتیوں کو کسی اور خدا کی ضرورت نہیں! ہم بھارتی خود قیامت مچالیتے ہیں، خود لُٹیرے ہیں، خود فتنے باز بھی ہیں، خود دنگے فساد مچاتے ہیں، اپنی روزی روٹی خود پاتے ہیں اور خود اپنے فیصلے آپ کرلیتے ہیں ـ آپ جاؤ یہاں سے، خبردار جو اِس پاک دھرتی پہ اپنا قدم رکھا! ہم بھارتی ہیں کسی اور خدا پر ہمارا ایمان نہیں ـ

خدا بننے کیلئے ہمارے بھارت دیش میں امیروں کو بھی حق اور غریبوں کو بھی حق ہے، کسانوں کو بھی، دغا بازوں کو بھی، چور ڈاکوؤں کو بھی، قاتل و بدمعاش کو بھی، یتیموں کو بھی اور بیواؤں کو بھی ہر ایک کو حق ہے کہ وہ اِس ملک کا خدا بنے ـ ـ ـ ہم بھارتی ہیں اپنے ملک کے خود خدا ہیں ـ اچھے بھی ہیں اور بُرے بھی، ایکدوسرے کے دشمن بھی دوست بھی، آپس میں لڑتے بھی ہیں پھر گلے بھی ملتے ہیں، مارتے بھی ہم مرتے بھی ہم، تکلیف سہتے بھی اور تکلیف دینے والے بھی ہم ہیں، ہم سزا پاتے بھی ہیں سزا دیتے بھی ہم ہیں، قانون بھی ہمارا اور قانون بنانے والے بھی ہم ہیں ـ جیسے تیسے بھی ہیں جو بھی ہیں ہم بھارتی ہیں اپنے ملک کے ہم خود خدا ہیں ـ آپ جاؤ یہاں سے اور خبردار جو اِس پاک دھرتی پہ اپنا قدم رکھا!!!

خدا نے جھلاّکر چنگھاڑا: کمبخت بھارتیوں! ہم خدا ہیں، ابھی بھارت میں اپنا قدم نہیں رکھا ہمیں بھگانے کی بات کرتے ہو ـ یہ سارا جہاں ہمارا ہے، ہم کسی کے محتاج نہیں اپنی مرضی کے خود خدا ہیں ـ بہت صدیاں گذریں، ہم اپنی بنائی مخلوق کو دیکھنے زمین پہ اُتر آئے ـ یہ تو خوشی کی بات ہیکہ امریکہ نے ہمیں اپنا سرکاری مہمان بنالیا، باقی سارا جہاں ہماری ایک جھلک دیکھنے بیقرار ہے اور تم بھارتیوں سے یہ اُمید نہیں تھی کہ ہم یہاں آئے آدھ گھنٹہ ہوگیا ہوا میں لٹکے رہے اور یہیں سے ہمیں بھگانے کی بات کرتے ہو؟

مزید چنگھاڑا: تعجب ہے! یوں بکھری قومیں آج ایک ہوکر خدا کو بھگا رہے ہو؟؟ ارے نالائقوں! بھول گئے! ہمارے ہی واسطے تم آپس میں جھگڑتے تھے، مندروں مسجدوں پر حملہ کرتے تھے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہمارے نام کے نعرے جپتے تھے ـ ـ ـ آج کیا ہوگیا کہ خدا تمہارے رُوبرو آکھڑا ہے اور تم اُسی کے خلاف ایک ہوکر نعرے لگا رہے ہو؟؟ ہم تمہیں سمجھانے آئے تھے کہ چھوڑو یہ قوم بازی اور سب ایک ہوجاؤ ـ ـ ـ حیرت ہے کہ تم پہلے سے ایک ہوکر ہمارے ہی خلاف کھڑے ہو ـ یہ تمہارا کیا سسٹم ہے جو ہماری سمجھ سے باہر ہے ـ ہم نے ایسا کیا بول دیا کہ تم میں اچانک یکتا آگئی؟ یوں بکھری قومیں اچانک جُٹ گئیں!!

اپنی کھوپڑی کھجاتے ہوئے فرمایا: ٹھیک ہے! یوں ہی دیدے پھاڑ پھاڑ کر ہمیں دیکھتے رہوگے، ارے دھرتی پہ اُترنے کی اجازت تو دو!! توبہ، کب سے ہوا میں لٹکے ہوئے ہیں ـ پاجامہ کا ناڑا بھی ڈھیلا ہونے کو ہے! کیسی بدتمیز قومیں ہیں، مہمان خدا کو ہوا میں لٹکا دیکھ رہے ہو ـ یقین کرو کہ ہم خدا ہیں یعنی تمہارے خالق! تم سب ہمارے اپنے بندے ہو، اب تو اِس دھرتی پہ قدم رکھنے دو ـ ـ ـ اے دیڑھ سو کروڑ کی آبادیوں! جسے تم اپنے دلوں میں یاد کرتے ہو، جس کی خوشنودی کیلئے آدھی رات کو اُٹھ کر عبادت کرتے ہو، جس کے خوف سے تم توبہ کرتے ہو، جسے تم بھلائی کرکے ہمارے اوپر احسان سمجھتے ہو، جسکی تبلیغ کی خاطر رات دن جھک مارتے ہو ـ ـ ـ واللہ، ہم وہی خدا ہیں جس کا نام لیکر تم دوسروں کو ڈراتے ہو، ہمارا نام لیکر مذہب میں لوگوں کو بانٹتے ہو، اپنی عبادتوں کو ہم پر احسان مانتے ہو؟ جسکی قیامت کا تم انتظار کرتے ہو، اپنی دعاؤں میں ہم سے مال و دولت کی اُمیدیں لگائے بیٹھتے ہو ـ ـ ـ ہاں ہم ہی وہ خدا ہیں جو اسوقت ہوا میں اٹکے ہیں ـ

تمام بھارتیوں نے ملکر کہا: بس بہت ہوگیا، اب یہاں کسی کو خدا گیری کرنے کا چانس نہیں ـ صدیوں سے ہم مذہب گیری کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے، اب جاکے تھوڑا سکون آیا ہماری نسلوں میں کچھ شعور آیا ـ ہم اپنی بربادی کے خود ذمہ دار تھے یہاں کے فسادوں میں خود ملوث تھے، انسانیت کے نعرے لگاتے تو تھے مگر مذہب کی تلوار کے سائے میں تھے اب ہمارے ہونہار بچوں کا زمانہ ہے اُنکے خیالوں میں نئی روشنی ہے پورا بھارت اب اِنہی کے ہاتھوں میں ہے ـ آج ہم بھارتیوں کو احساس ہوا کہ سچّی آزادی کیا ہے، ساٹھ سال قبل آزاد ہوئے بھی تو دنگے فسادوں کی نظر ہوئے ـ پہلے ہم یہاں اپنوں سے مار کھا رہے تھے اور خود اپنوں کو مار رہے تھے مگر کبھی کسی غیر ملکی کو چھیڑا نہیں اور مدد کیلئے کسی کو پکارا نہیں ـ ہم خود دار بھارتی ہیں بھلے غریب ہیں، چھین کر کھاتے ہیں یا بانٹ کر کھاتے ہیں ـ خود ظالم ہیں کبھی ہم مظلوم بھی ہیں جو ہیں سب اپنے آپ میں ہیں، کبھی کسی ملک سے اُمید نہیں لگائی غریبی کے باوجود غیروں کی بھی بھرپور مدد کی ـ ہم بھارتی ہیں اپنے دیش کے خود خدا ہیں ـ

سبھی بھارتیوں نے خدا سے کہا: چاہو تو اِن مولویوں کو اٹھا لے جاؤ، پادریوں اور پنڈتوں کو بھی پکڑ لے جاؤ، ہمارے نیتاؤں کو بھی کھینچ لے جاؤ ـ ـ ـ  اِن لوگوں نے بہت فساد مچایا، ہمیں آپس میں خوب لڑوایا، ہمارے گھروں کو جلایا، ہمارے چھوٹے بچوں کو ہمارے سامنے کاٹا، ہماری دکانوں کو لُوٹا، عورتوں کی عصمت سے منہ کالا کیا ـ ـ ـ ہمیں بہت ستایا مذہب کے نام پہ بڑی تباہیاں کروائیں ـ ـ ـ مذہب کا نام لیکر ہمیں ڈرایا، ہر دن ایک فتنہ مچایا ـ ـ ـ ہم مذہبی ہونے کے ناطے بڑی صعوبتیں جھیلنی پڑیں مسلمان کو اپنے پڑوسی ہندو سے خوف تھا اور ہندو کو مسلمانوں کے محلّے سے گذرنا عذاب بن گیا ـ ـ ـ پورے بھارتیوں نے روتے ہوئے خدا سے التجا کیا: خدا سے گذارش ہے اِن مولویوں، پنڈتوں اور سیاستدانوں کو اُٹھا لے جائے اور اُن کے بدلے ہمارے لئے ڈاکو بھیجدے چونکہ وہ صرف لوٹتے ہیں مگر ہمیں آپس میں لڑواتے نہیں ـ

ہم بھارتی اپنے مذہبوں سے تنگ آچکے، جینا حرام ہوگیا، چھُپ چھُپاکر بھاگنا پڑا، بچوں کو دودھ کیلئے کرفیو سے گذرنا پڑا، ہم بھارتی خود اپنے بھارتیوں سے خوف کھانے لگے، ہر بات پر ہمیں کیٹگیری میں بانٹ دیا، معمولی نوکری کیلئے بھی مذہب اور ذات کو بہانا بنا دیا ـ ـ ـ ہم کنفیوژ ہوچکے اپنے مذہب پر قائم رہیں کہ اپنے وطن کے قانون پہ ـ ـ ـ بُری طرح دونوں طرف سے صعوبتیں جھیلنی پڑیں، سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اپنا مذہب ترک کریں یا اپنا ملک؟؟؟ ہماری زندگیاں بھیانک ہوگئیں سڑکوں پر صرف نام کو انسانیت کے نعرے لگاتے رہے مگر سچ تو یہ ہے کہ یہاں ہندو مسلمان ایکدوسرے کے خون کے پیاسے ٹھہرے ـ ہم دعائیں کرتے ہی رہے کہ اپنے دیش میں بھلائی ہو مگر کاہے کی بھلائی جبکہ ہم خود تباہی مچاتے رہے ـ سارے جہاں میں ہمارا دیش عجوبہ ہے! یہاں مسلمانوں کو دہشت گرد کہتے ہیں اور ہندو کو کافر بولتے ہیں پھر بھی دیکھ لو، دونوں ایک ہی تھالی میں کھاتے ہیں ـ

شکر ہے آج ہم بھارتیوں کے نوجوان بچے ہر قسم کی زنجیروں سے آزاد ہیں، ایک آزاد دیش میں مزے سے سانس لیتے ہیں اور مذہبوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے ملک کی ترقی میں سب ایکساتھ جُٹے ہیں ـ مائکروسافٹ، یاھو، گوگل، پنٹاگون اور ناسا بلکہ دنیا کی ہر ترقی میں ہمارے بھارتی بچے برابر شامل ہیں ـ اور آج ہمارے باشعور بچے اپنا سینہ تان کر شان سے کہتے ہیں: ہم بھارتی ہیں، کوئی مذہب ہمارے دیش سے بڑا نہیں اور ہم نہ ہندو ہیں نہ مسلمان بلکہ اپنے ملک کے خود خدا ہیں ـ

بھارتیوں کی بات پر خدا نے روتے ہوئے کہا: تم بھارتیوں کی عظمت کو اِس خدا کا سلام جو اِس سارے جہاں کا مالک ہے ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 56 ]

posted by Shuaib at 10:52 AM 0 comments

Post a Comment

ہندوستان سے پہلا اُردو بلاگ
First Urdu Blog from India

IndiBlogger - The Largest Indian Blogger Community

حالیہ تحریریں

سویتا بھابی کا وال اچھا
تو میرا خدا میں تیرا خدا
دھونڈو تو خدا بھی مل جائے
مصروفیت
معلوماتِ خداوندی
2 اکتوبر، گاندھی جینتی کے موقع پر خاص پوسٹ
رام کہانی ـ رحیم کی زبانی
میرے چاند کے تکڑے
اس بلاگ پر اگلی پوسٹ

Hindi Blog

Urdu Graphic Blog

Motion Blog

Powered by ShoutJax

Counters