Wednesday, December 08, 2004

قصے کہانیاں

صرف سن کر مزے لینے کیلئے ہے یہ نہیں کہ سچ مچ چیزوں کا غائب ہوجانا، آسمان سے دسترخوان کا اترنا، چاند کو تکڑوں میں بانٹنا، اچانک پتھروں کا برسنا وغیرہ وغیرہ وغیرہ خیر ایسی کہانیوں سے بچپن اچھا گذر جاتا ہے لیکن ان مذہبی کہانیوں کا کیا کہنا جو اسپائڈر مین اور سوپر مین سے مختلف ہوتی ہیں اور مذہب پسند ہیں کہ ایسی کہانیوں پر کھلے دل و دماغ سے یقین بھی کرلیتے ہیں کہ انسان کا غائب ہونا بھی مذہب میں عظیم مانا جاتا ہے مگر ایسا تو کسی نے نہیں دیکھا لیکن مذہبی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ آسمان سے دسترخوان اتارا گیا ـ ـ ـ خون کی بارش ـ ـ ـ پنکھ والے انسان کا زمین پر اترنا ـ ـ ـ اشاروں میں ہی زمین پر کھڑے چاند کو تکڑے کردینا ـ ـ ـ یہ ساری باتیں عجیب اور غریب ہیں جیسے ایک ڈراؤنی فلم میں اسپیشل افیکٹ سے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر محسوس کرلیتے ہیں مگر کیا کتابوں میں پڑھ کر یا سنی سنائی باتوں پر یہ یقین کرلیں کہ گذرے زمانوں میں انسان ایسی عجیب الغریب حرکتیں کرتا تھا تو آج ایسی گھسی پٹی حرکتیں کرنے والے انسان کہاں ہیں جو مریض کو انگلی کے اشارے سے شفا دیدے؟ آدھی رات کو دروازے کے باہر چھم چھم کی آوازوں کا آنا، نیم کے درخت پر چمکتی ہوئی آنکھوں کا گھورنا، دروازے کا پاٹھک اچانک کھل جانا، مرے ہوئے انسان سے ملاقات کرنا، قبر پر سے دھواں نکلنا ـ ـ ـ یہ ساری چیزیں شہروں میں کیوں نہیں ہوتیں صرف گاوؤں میں ہی کیوں؟ یہ نہیں کہ گاؤں کے سارے لوگ جاہل ہیں وہ تو ساتھ بیٹھے ہوئے انسان کا سودا کردیتے ہیں ـ ایسی منحسوس باتوں پر انسان کا ضمیر نہیں مانتا لیکن انسان بچپن سے ہی مذہبی رسومات میں پلا بڑھا اور وہ اپنے مذہب کی ہر بات کو آنکھ بند کرکے یقین کرلیتا ہے اگر اپنے مذہب میں واہیات بھی ہے تب بھی ـ شکر ہے ان انسانوں کا جنہوں نے دنیا کو بتادیا کہ بارش کیسے برستا ہے، آسمان میں بجلیاں کیوں چمکتی ہیں، زلزلے کیوں ہوتے ہیں، چاند میں کیا ہے، زمین کیوں گول ہے، بھاپ کیا چیز ہے، انسان کے جسم میں کتنی ہڈیاں ہیں وغیرہ ـ ـ ـ اور یہ انسان کا ہی کارنامہ ہے کہ منٹوں میں ہزاروں کلو میٹر دور اپنوں کو دیکھ کر ان سے بات بھی کرسکتے ہیں ـ گذرے ہوئے لوگ قصے کہانیاں بنانے میں ماہر تھے اور آج کا انسان دنیا میں نئے نئے انقلاب لا رہا ہے پھر لوگ ہیں کہ انہونی قصے کہانیوں پر یقین کرلیتے ہیں ـ

Post a Comment