Wednesday, May 25, 2011

خدا کو اپنے خدا ہونے کا واسطہ

پوچھتے ہیں کہ جوانی میں کیسے تھے؟ واللہ نہایت حسین و جمیل تھے کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ تھے وہ اسلئے کہ اُس زمانے میں کوئی تھا نہیں کس کو اپنا منہ دکھاتے ـ پھر فرشتوں کی تخلیق کرکے پوچھا کہ ہماری تعریف بیان کرو تو وہ صدا سجدوں میں پڑگئے، نہیں معلوم وہ اپنا چہرہ دکھانا پسند نہیں کرتے یا پھر ہمارا دیکھنا ـ

بھوک بڑا گندہ احساس ہے، ہم خدا ہوکر بھی محسوس کرتے ہیں مگر ایک مجرم کو زندہ رکھنے کیلئے حکومت کو گیارہ کروڑ خرچ کرنا بری بات ہے ـ وہاں کروڑوں میں کھیلنے والی بیٹی، عیش و آرام کی زندگی سے اچانک تہاڑ جیل میں ـ یہی تو ہماری قدرت کا کمال ہے ـ مائیکل جیکسن ہو یا سائی بابا سبھی اقسام کے خداؤں کو ایک دن مرنا ہی ہے ـ

جہاں میں جب بھی مختلف خدا وارد ہوتے رہے واللہ عیش کرگئے سوائے مذہبی خداؤں کے ـ کیونکہ مذہبی خدا خود مصیبتوں تکلیفوں میں رہے، صعوبتیں اٹھائیں، جنگیں لڑی فساد مچایا، من پسند مقدس کتابیں صحیفے لکھ ڈالے پھر لوگوں کو زبردستی مذہب سے جوڑ کر چلے گئے اور آج تک بھی یہ مذہبی جنونی لاچار اور اندھے اعتقاد میں گرفتار ہیں ـ

پوچھتے ہیں کہ ہمارا مذہب کیا ہے؟ ہم خدا ہیں، بھلا خدا کا بھی مذہب ہوتا ہے! ہم کو بس عیش کرنا ہے اور مرنے سے پہلے اپنے لئے لمبی مزار بنانا ہے ـ بھاڑ میں جائے وہ لوگ جو ہر دن مذہب کا جنازہ نکالتے ہیں، دنیا بھر میں دہشت پھیلاتے ہیں، جنّت میں داخلہ پاس کیلئے دہشت گرد بنتے ہیں ـ

آج کا دن بہت خراب نکلا، صبح اپنی اُڑن طشری سے اُڑان بھرنے ہی والے تھے کہ کمبخت بھکاری سے پالا پڑگیا، چڑھتے سورج کی طرح وہ ہم پہ چڑھ گیا اور اپنے باسی منہ سے پوچھ بیٹھا بھلا بتاؤ کونسی جڑی بوٹیاں کھالئے تھے کہ خدا بن بیٹھے اور ہمیں دیکھو بھکاری ٹھہرے ـ میاں نہایت آسان ہے تمہاری سوچ بھکاری کی اور ہماری خدائی ـ بھیک مانگنے کی بجائے ہماری طرح اوٹ پٹانگ سوچتے اور بکواس بلاگنگ کرتے تو آج تمہیں بھیک مانگنے کی نوبت نہ آتی ـ جاری

باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 84 ]

Post a Comment