Thursday, September 22, 2005

امام کے سامنے

سالوں بعد مسجد میں حاضری سلام پھیرتے ہی مولانا مصلیوں کی طرف پلٹ کر بیٹھ گئے بالکل میرے سامنے ہوبہو، کیونکہ میں نے پہلی صف میں مولانا کے پیچھے نماز پڑھا تھا ـ مولانا نے پہلے مجھے گھورا کہ یہ نیا مصلی کون ہے؟ پھر باقی مصلیوں پر سرسری نگاہ دوڑاتے ہوئے اپنی ناک بھنویں چڑھائیں پھر کچھ ورد کرتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ دعاء کیلئے اٹھالئے تو تمام مصلیوں کیساتھ میں نے بھی دعاء کیلئے ہاتھ اٹھا دیا ـ پانچ منٹ عربی میں دعا کرتے ہوئے اچانک اردو پر آگئے ’’اے اللہ ہمارے خطاؤں کو درگذر فرما‘‘ پوری مسجد آمین آمین سے گونجنا شروع ہوگئی ـ مولانا نے اپنے چہرے پر مضبوط جھریاں لاتے ہوئے ایک ہلکی سی چیخ کیساتھ دعا جاری رکھی ’’یا اللہ امّتِ مسلمہ پر رحم فرما‘‘ اس پر مسجد میں درد بھرا آمین گونجا ـ یکایک مولانا نے اپنی شکل بگاڑلی جسے دیکھ کر میری ہنسی کھانسی میں نکل گئی ـ یہاں سے مولانا گڑگڑاتے ہوئے خدا سے فریاد کرتے جارہے تھے اور پوری مسجد میں شدید غم و رنج کے ساتھ آمین پر آمین گونجنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ـ مولانا کی شکل دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہ خدا سے فریاد کم بلکہ اپنی ڈیوٹی زیادہ نبھا رہے تھے ـ ان کا اندازِ فریاد اور مسلسل بگڑتی شکل کو دیکھ کر مجھ پر کھانسی کا دورہ شروع ہوگیا تو بازو بیٹھے ایک شخص نے کونی مار کر آہستہ سے کہا باہر جاکر کھانسو ـ پیچھے پلٹ کر دیکھا تو تقریبا چالیس پچاس صفیں تھیں، کیسے ممکن تھا کہ سب کو ٹھوکریں مارتا ہوا باہر جاؤں؟ دعا جاری رکھتے ہوئے مولانا نے مجھے دیکھا، وہ سمجھ چکے تھے کہ سامنے والا بڑا بے ادب ہے اور انکی مصنوعی اداؤں کو بھی سمجھ چکا ہے ـ مولانا نے اپنی آنکھیں بند کرلئے اور مجھے دکھانے کیلئے کچھ زیادہ ہی اموشنل ہوگئے تو میں نے بھی اپنا سر جھکاکر آنکھیں بند کرلیں تاکہ اپنی کھانسی (ہنسی) روک سکوں ـ مولانا نے اپنی آنکھیں ایک ننھے بچے کی طرح مضبوطی سے بند کرتے ہوئے دعا جاری رکھی ’’یا اللہ کشمیر پر کرم فرما، یا اللہ عراق میں امن قائم کردے، فلسطین کے مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ یا کریم افغانستان ـ ـ ـ ـ‘‘ مولانا کی یہ فریادیں سنکر میرا ذہن اپنے بچپن کی طرف چلایا گیا ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ جمعہ کے دن ڈیڈی مجھے زبردستی کھینچتے ہوئے مسجد لیجاتے تھے اور وہاں کے مولانا بھی نماز کے بعد خدا سے بالکل ایسی ہی فریادیں کرتے تو مسجد میں غمگین آمین گونجتا تھا ـ اگر مسجد میں نظر نہ آؤں تو ڈیڈ گھر آکر میری خوب پٹائی کرتے کہ میرے ساتھ مسجد تو آیا مگر کہاں غائب ہوگیا تھا ـ آج اتنا عرصہ ہوگیا، سالوں سے کیجارہی دعاؤں سے عراق اور فلسطین میں ذرا بھی تبدیلی نہیں آئی ـ مجھے عبادت کا شوق نہیں مگر جمعہ کے دن دوستوں نے زبردستی مسجد لاکر امام صاحب کے پیچھے بٹھا دیا تھا، ایک لمبے عرصے کے بعد مسجد آیا تو کچھ عجیب عجیب سا محسوس ہورہا تھا ساتھ ہی اپنا بچپن بھی یاد آنے لگا ـ مسجد سے باہر نکلا تو دوست احباب اور جان پہچان والے متعجب نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگے ’’ارے دیکھو شعیب مسجد میں نماز پڑھنے آیا ہے‘‘ باری باری سب نے مجھے گلے لگایا جیسے میں نے آج ہی اسلام قبول کیا ـ
Blogger urdudaaN said...

شعيب؛ نہايت هى بيباك اندازِ بياں هے آپكا، اور ميرا يہ جُملہ محض رِوايتى نہيں هے۔

September 22, 2005 11:30 PM  
Anonymous Anonymous said...

انسانی نفسیات کی بات ہے کہ جب کوئی چیز آپ کو اچھی لگے تو آپ اس کے دفاع میں سب کچھ کر گزرتے ہیں ۔ اور جب کوئی چیز آپ کو بری لگنے لگ جائے تو آپ اس کی برائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔

شعیب آپ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ اسلام فرسودہ مذہب ہے اور مولوی حضرات دنیا کے جاہل اور منافق ترین انسان ہیں ۔ اس لیے آپ کو ان کا ہر فعل برا لگتا ہے ۔ اگر کبھی موڈ ہو تو مسجد میں نہ سہی تنہائی میں صدقِ دل سے نماز پڑھنے کے بعد دعا مانگیے گا ۔ اگر رونا نہ آئے تو پھر کہیے گا ۔ میں نے آج تک صرف ایک دفعہ صدق دل سے نماز پڑھی تو رونا بھی آیا ، اس کے بعد کبھی صحیح طرح نماز ہی نہیں پڑھی تو رونا کیسے آتا ۔ میری بات پر غور کیجیے گا ۔ شاید یہ بات آپ کو بڑھاپے میں سمجھ آئے ۔

September 23, 2005 7:32 AM  
Anonymous Anonymous said...

Waqaii shuaib aap ne sahi likha. Yeah Malvi salay dramabaz hotay hain. Sab se ziyada aqalmand tu ham khud hain kia huwa jo yeah fiqa, hadees, tafseer ka uloom janfishaani se hasil kartay hain. In se ziada qabil tu ham hain jo bachpan main aik dafa "quran khatam" karnay ke baad issay kholnay ki zahmat nahi kartay aur achi tarah samjhtay hain ke Islam ab outdate ho chuka hai. main aap se 100 fisad itifaq rakhta hoon. Dua hi tu mang rahay thay. kia huwa jo khaliq-e-kainaat se dua mangi thi ya us joiqtidar-e-aala ka hamil hai.

Dosri baat yeah ke firefox main aap ka template kaam nahi karta. main samjha shayad meray connection ka masla hai magar page poora download hota hai magar visible nahi hota.

September 23, 2005 10:43 AM  
Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

بات یقین کی ہے ۔ کلمہ طیّبہ جسے پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اس یقین کا اظہار ہے ۔ اگر کلمہ اس طرح پڑھا جائے جیسے ایک فکشن سٹوری پڑھتے ہیں تو آدمی مسلمان نہیں ہوتا ۔
شائد 1981 کی بات ہے ایک لبنانی عیسائی فلپ حمام بیلجیم کی ایک بہت بڑی کمپنی میں کمرشل ڈائریکٹر تھا ۔ میں نے اسے تسبیح پڑھتے دیکھ کر پوچھا کہ کیا پڑھ رہے ہیں ۔ اس نے کہا اشہاد ان لا الہ الاللہ محمدالرسول اللہ ۔ میری حیرانی پر اس نے کہا میں دانتوں سے ناخن کاٹتے رہنے سے بہت تنگ تھا سائیکالوجسٹ نے مشورہ دیا کہ ہروقت ہاتھوں کو مصروف رکھو میں نے لبنان میں اچھے مسلمانوں کو فارغ وقت میں یہ تسبیح پڑھتے دیکھا تھا سو میں نے ان کی نقل کی مگر میں دل سے اسے نہیں مانتا اس لئے ابھی تک عیسائی ہوں ۔ میں نے کہا فلپ اس اچھے کلمے نے آپ کی بری عادت چھڑا دی ہے ۔ علامہ اقبال نے سچ کہا ہے ۔
زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
اور
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

September 23, 2005 12:45 PM  
Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

استغفراللہ اشہد کی بجائے اشہاد لکھا گیا

September 23, 2005 12:48 PM  
Blogger Nabeel said...

شعیب، بہت خوب، بہت مزا آیا پڑھ کے۔ یہ بتاؤ کب کی بات لکھی ہے۔ یہ پرانی بات ہے یا آج کل انڈیا گئے ہوئے ہو؟

September 23, 2005 4:19 PM  
Anonymous Anonymous said...

اردو دان :
معاف کرنا آپ کی روایت کو سمجھا نہیں ۔

قدیر صاحب :
نصیحت کیلئے میں آپ کا مشکور ہوں ۔

افتخار اجمل صاحب :
میں آپ کی بزرگی کا احترام کرتا ہوں اور آپکی ہر بات ہر نصیحت کا بھی احترام کرتا ہوں ۔

نبیل :
فی الحال دبئی میں ہی ہوں، دسمبر کے بعد انڈیا چلا جاؤں گا، اپنوں کی بہت یاد آرہی ہے ۔ اور یہ گذشتہ ہفتے کا واقعہ ہے ۔

September 23, 2005 10:28 PM  
Blogger urdudaaN said...

ميرا مطلب تها كہ ميں نے وه روايت (فَورمَيلِٹى) كے طور پر نہيں كہا تها

September 24, 2005 12:04 AM  
Blogger urdudaaN said...

شعيب ميرى آپ سے مؤدبانہ، ہمدردانہ، دوستانہ و مُخلصانہ گذارش هيكہ آپ اِسلام اور ايمان كى دولت يوں ضائع نہ كريں۔
اگر مُلّے آپ كو ڈهونگى لگتے هيں، تو اس سے مذہب خراب نہيں هوجاتا۔ آخرت ميں آپ كے اعمال كيلئے آپ خود ذمّہ دار هونگے۔ آپ كى ذہانت آپ پر اللّہ كا قرض هے، كبهى اُسے مختلف استعمال ميں لاكر غور كركے اپنے وجود كا سبب جاننے كى كوشش كريں۔

ليكن اگر آپ كے خيالات نہ بدلے تو بهى هم آپ كى طرزِ تحرير و ذہانت كيلئے يوں هى داد ديتے رهيں گے۔ اميد هے تعريف كا موقع ملتا رہيگا۔

September 24, 2005 12:25 AM  
Blogger Saqib Saud said...

why is you blog not working in firefox?

September 25, 2005 9:40 AM  

Post a Comment