ٹریفک
امارات میں انسانوں سے زیادہ گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے ـ عمارتوں کی چھتوں پر گاڑیاں، زیر زمین پارکنگ میں گاڑیاں، باہر کھلی جگہوں پر بھی گاڑیاں، شاپنگ سنٹروں اور بازاروں میں بھی تمام پارکنگ اسپیس گاڑیوں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں اسکے علاوہ تمام شہروں کی ہر شاہراہ پر گاڑیوں کی لائن ہوتی ہے جیسے کاروں کی ٹرین ہو ـ کہیں بھی سڑک پار کرنا گویا جان ہتھیلی پر لیجانے کے مصداق ہے، ویسے روزانہ حادثات کا رونما ہونا اب عام ہوگیا ہے ـ شارجہ سے دبئی یا دبئی سے شارجہ جانے کیلئے بذریعہ ٹیکسی صرف پندرہ منٹوں کا راستہ ہے مگر ٹریفک کا اژدھام اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ پندرہ منٹوں میں پہنچنے والا پورے ایک یا دیڑھ گھنٹے میں پہنچتا ہے ـ حکومت فلائی اوورس بناتے بناتے تھک گئی مگر روزانہ سڑکوں پر پچاس گاڑیوں کا اضافہ ہوتا جارہا ہے، عام لوگوں کی سہولت کیلئے حکومت نے دبئ ـ شارجہ کیلئے منی بسوں کا انتظام بھی کردیا تاکہ ٹریفک میں کچھ کمی ہو مگر کمی کہاں ہوئی؟ روز بروز ٹریفک کا مسئلہ برقرار ہے اور مزید پیچیدہ ہوتا جارہا ہے ـ شکر ہے حکومت شارجہ نے اب پٹھان ٹیکسی ڈرائیورس کو دھیرے دھیرے ریٹائرڈ کرنا شروع کردیا اور انکی جگہ پڑھے لکھے با شعور ڈرائیوروں کو بھرتی کر رہی ہے اور ٹیکسیوں میں میٹر بھی لگوا دیا ـ ان پٹھان ٹیکسی ڈرائیوروں سے بات کرنا گویا حکومت کو منوانے کے مترادف ہے، ٹیکسی تو عوام کی سہولت کیلئے ہے مگر پٹھان ہیں کہ اپنی مرضی سے ٹیکسی چلاتے ہیں اور وہ بھی پچاس ـ ساٹھ سال کے بوڑھے، منہ میں نسوار، جمعہ میں ایک دن نہانے والے، عوام کیساتھ بدتمیزی سے پیش آنے والے ـ ـ ـ اب تو ان پٹھانوں سے واسطہ چھوٹا، اب شارجہ میں ٹیکسی ڈرائیورس سے کرایہ پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں کیوں کہ دبئی کی طرح اب یہاں بھی میٹر والی ٹیکسیاں دوڑ رہی ہیں جسکے ڈرائیورس صاف ستھرے اور جوان ہیں ـ