Sunday, October 16, 2005

ہندوستان سے امداد - پاکستان میں اختلافات

پاکستان میں حالیہ تباہ کن زلزلے میں متاثرین کیلئے ہندوستانی وزیراعظم مسٹر منموہن سنگھ نے پاکستانی صدر مشرف سے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان کی جانب سے ایک سو کروڑ روپئے کی پیشکش کی مگر مشرف نے ہندوستانی پیشکش کو قبول نہیں کیا البتہ ہندوستان کی جانب سے عطیہ جات (ریلیف) پر رضامند ہوگئے ـ وہاں پاکستان میں اہم سیاسی پارٹیوں نے ہندوستان کی طرف سے باز آبادکاری اور راحتی کاموں میں امداد کا خیر مقدم کیا جبکہ متعدد دیگر نے سخت مخالفت کی ـ پاکستان کی 58 سالہ تاریخ میں گذشتہ دنوں آئے سب سے تباہ کن زلزلے میں ہزاروں لوگ ہلاک اور زخمی ہوگئے - بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کے پیش نظر بیرونی ممالک پاکستان کیلئے امداد روانہ کر رہے ہیں جن میں ہندوستان اور اسرائیل بھی شامل ہے لیکن پاکستان کی اہم سیاسی پارٹیوں اور مذہبی گروہوں میں ہندوستان کی جانب سے امداد کے متعلق اختلاف پیدا ہوگیا جس کے تحت اہم سیاسی پارٹیوں نے جہاں ایک طرف ہندوستان کی امداد کا خیر مقدم کیا ہے تو دوسری جانب مذہبی پارٹیوں نے شدت پسند رویہ اپناتے ہوئے اس کی مخالفت کی اور اس کے پس پشت ہندوستان کا کوئی غلط مقصد کارفرما ہونے کا شک ظاہر کیا - پاکستان کی حزب مخالف پارٹی پاکستان پیوپلز (پی پی پی) کے لیڈر تاج حیدر نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ اگر کوئی پاکستان آکر مدد اور تعاون کرنا چاہے تو ہم منع نہیں کریں گے - انہوں نے مشرف کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان اور صوبہ سرحد میں لوگوں کی قیمتی جانیں بچانے میں ناکام ہوگئی ہے - تاج حیدر نے کہا کہ جنرل مشرف اب تک بہت سے علاقوں تک نہیں پہنچ سکے، جس کی طجہ سے ہزاروں متاثرہ افراد کو پریشانی کا سامنا ہے اور یہ پریشانی دور ہوسکتی ہے اگر سیاست کو کچھ دیر کیلئے ایک جانب رکھتے ہوئے ہماری مدد کیلئے آنے والوں کا خیر مقدم کیا جائے - مذہبی گروپوں کی ایک اہم پارٹی جماعت اسلامی، جس نے دایاں سیاسی محاذ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) بنایا ہے، اس بات کے حق میں نہیں ہے کہ باز آبادکاری اور راحت کے کاموں میں ہندوستان ملوث ہو - جماعت اسلامی کے لیڈر لیاقت بلوچ نے کہا کہ تباہی بڑے پیمانے پر ہوئی جس میں ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے لیکن ہم نہیں چاہتے کہ امدادی کاموں میں ہندوستان ملوث ہو، کیونکہ وہ عرصہ سے پاکستان کیلئے نقصاندہ رہا ہے - انہوں نے مزید کہا کہ اس ملکی المیہ پر ہم نے اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ دیا ہے لیکن کشمیر اور خارجہ پالیسیوں کے دیگر اہم مسئلوں کے متعلق اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے - جمعیتہ العلما اسلام کے نائب صدر حافظ حسین احمد نے بھی یکساں کام کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے لیکن وہ جماعت اسلامی کی طرح اس معاملہ میں اتنے شدت پسند نہیں - حافظ حسین نے کہا کہ حکومت نے اسرائیل کا تعاون لینے سے انکار کردیا اور اسی طرح ہندوستان سے صرف ریلیف کا سامان قبول کیا ہے لیکن ہماری زمین پر ہندوستانی دستہ کو نہیں بلانا چاہئے کیونکہ اس سے ہمارے ملک پاکستان کو نقصان پہنچے گا - نواز شریف کے ایک وفادار گروہ نے پاک مقبوضہ کشمیر اور دیگر زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں ہندوستان کی امداد کو سراہا، اس تعلق سے بات کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ کے لیڈر ممنون حسین نے کہا کہ ہماری عوام کی جان کی حفاظت کرنے کے علاوہ کوئی اور بات ضروری نہیں اور اس مقصد کے لئے ہمیں پڑوسی ملک سے امداد مل رہی ہے تو خوشی سے قبول کرلینا چاہئے - اس زلزلہ کی وجہ سے حزب مخالف پارٹیوں نے جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کا پروگرام ملتوی کردیا ہے، واضح رہے آج سے چھ سال قبل ١٢ اکتوبر کے روز پرویز مشرف نے بغیر کسی خون خرابے کے پاکستان پر قبضہ کرتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو معزول کردیا تھا - پاکستان کی موجودہ حکومت پاکستان مسلم لیگ نے حزب مخالف کی حکومت کے خلاف احتجاج کو رد کرنے اور ہندوستانی امداد کی حمایت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے - جنوبی سندھ علاقہ کے وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ کے لیڈر ارباب غلام رحیم نے کہا کہ ہمیں ہر چیز کو سیاست سے نہیں جوڑنا چاہئے، دونوں پڑوسی ملک آج ایکدوسرے کے قریب آ رہے ہیں اور ایسے نازک اور امتحانی گھڑی میں ہندوستان کیجانب سے پیش کی گئی امداد کو قبول کرلینا چاہئے کیونکہ ہندوستانی امداد کا مقصد ہمارے پاکستانی عوام کی مدد کرنا ہے - متحدہ قومی موومنٹ، جس کا غلبہ کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں میں ہے، نے کھلے طور پر ہندوستانی امداد کی حمایت کی اسکے علاوہ مذہبی پارٹیوں کی شدت پسند سیاست پر سخت تنقید بھی کی ہے - متحدہ قومی موومنٹ کے لیڈر فاروق ستار نے کہا کہ پاکستان کی اکثریت آزاد ہے اور کسی بھی مذہبی جماعت کی شدت پسند پالیسی کی حمایت نہیں کرتی - یہ وقت سیاست بازی کا نہیں بلکہ ہماری حقیقی ضرورت کا ہے کہ ہم لوگوں کی جان بچائیں اور انکی امداد کریں - روزنامہ انقلاب ممبئی کیلئے کراچی سے حسن منصور کی خصوصی رپورٹ

Post a Comment