Wednesday, May 11, 2011

اسکول ڈے

آج کلاس روم میں خدا نے بچوں پر بھاشن جھاڑتے ہوئے فرمایا: آپ اپنے ننھے منّے دماغوں میں ابھی سے یہ بات گانٹھ لو کہ ہم خدا ہیں اور اِس سارے جہاں کے ایک اکیلے اور تنہا مالک ہیں ـ چونکہ ہم خدا ہیں اِس لئے چین و جاپان، امریکہ و بوسنیا، ہندوستان، پاکستان اور قبرستان ہر جگہ کی خبر رکھتے ہیں ـ ایک بچے نے کھڑے ہوکر خدا سے پوچھا: پاکستان میں ٹائم کیا ہوا ہے؟ خدا نے بچے کو پیار سے پاس بلایا پھر اُسکے دونوں کان پکڑ اٹھالیا اور جھنجوڑتے ہوئے کہا: بدتمیز! ہم خدا ہیں ناکہ گھڑی ساز! بھلا ہمیں کیا معلوم کہ پاکستان کی اوقات کیا ہے؟ بچے نے کپکپاتے ہوئے کہا: دراصل کل شام کو میرے ابّو گھر میں ٹی وی پر خبریں دیکھتے ہوئے بڑبڑا رہے تھے کہ ”پاکستان کا ٹائم خراب چل رہا ہے!“ خدا نے بچے کو واپس اُسکی جگہ پٹخنے کے بعد فرمایا: ہر ایک کی قسمت میں اچھا بُرا ٹائم چلتا رہتا ہے اور اس کا ذمہ دار خود انسان ہی ہے ـ جس نے بھلا کیا اُس کا بھلا ہوتا ہے اور جس نے بُرا کیا اُس کا ٹائم خراب چلتا ہے ۔ یہ سچ ہے کہ انسان کا دشمن شیطان نہیں بلکہ انسان ہی ہے ـ

لالو کے ریل بجٹ پر لیکچر دیتے ہوئے خدا نے کلاس روم میں بچوں سے کہا: کمبخت عام بجٹ میں غریبوں کو کچھ بھی راحتی نہیں مگر پوری ریل گاڑی غریبوں کے نام کردی ـ اب ٹرینوں میں غریب کو اتنی سہولت مل گئی وہ ڈرائیور کے بازو بیٹھ کر بولے کہ بھیّا دائیں موڑ لو یہیں آگے اپنا گھر ہے!! خدا نے بچوں پر پیار بھری نظر ڈالتے ہوئے کہا: حالانکہ ٹرین میں سفر کرنا سب سے زیادہ بچوں کو اچھا لگتا ہے ـ ایک بچے نے کھڑے ہوکر خدا سے کہا: میرے ابّو کہتے ہیں لالو کے ریل بجٹ نے پورے ملک میں خوشیاں بکھیر دیں ـ منہ بناکر خدا نے کہا: کاہے خاک خوشیاں! گیس سلینڈر مہنگا، گھاسلیٹ مہنگا، پیٹرول اور ڈیزل مہنگا، روٹی سبزی چاول اور دال مہنگا ـ ـ ـ زندہ رہنے کیلئے جتنی بھی ضروری چیزیں ہیں سب مہنگے اور کچھ سستا ہے تو موبائل فون، کاریں اور ریل کا ٹکٹ ـ ـ ـ خدا نے غصّے میں کہا: غریب کو زندہ رہنے کیلئے صرف موبائل فون اور ریل کا ٹکٹ کیا کافی ہے؟؟ اپنا کالر چڑھاکر خدا نے بچوں سے کہا: ہمیں دیکھو! ہم خدا ہیں اور جب کہیں جانا ہو تو جھٹ سے دھواں بن کر غائب ہوجاتے ہیں، نہ بس میں دھکّے کھانا اور نہ ٹرین میں بیٹھ کر جماہیاں مارنا ـ ـ ـ ہم خدا ہیں، انسانوں کی طرح تکلیفیں جھیلنا ہم سے ممکن نہیں!!

کلاس روم میں سبھی بچے خدا پر چڑھ گئے، کسی نے کان کاٹا تو کسی نے ناک کاٹ لیا ـ دراصل خدا نے بچوں سے سوال پوچھا تھا کہ ستاروں کی صحیح گنتی بیان کرو؟!! کسی نے بھی صحیح جواب نہیں دیا تو خدا نے بطورِ سزا بچوں کو قیامت پر غزل لکھنے کا حکم دیا ـ اب بھلا بچوں کا قیامت سے کیا لینا، سیدھا اسکول پر ہی غزل لکھ مارے کہ قیامت اور اسکول دونوں برابر ہے!! خدا نے سب بچوں کو لائن میں کھڑا کردیا اور انکے ننھے پچھاڑوں کو لال کر دیا پھر بچے بھی بدلے میں خدا پر چڑھ گئے جگہ جگہ کاٹ کر خدا کو دیوانہ بنا دیا ـ حالت نازک ہوگئی خدا نے فوری اسکول سے استعفی دیدیا: کہ بھئی خدا کا کام صرف عذاب اُگلنا ہے نہ کہ اِن کمبخت بچوں کو پڑھانا ـ خدا نے خود اپنے نام کی قسم کھاکر کہا: لعنت ہے ہم پہ جو آج کے بعد کسی بچے سے ایک پائی کا بھی سوال پوچھا ـ شام کو میڈیا کے آگے خدا نے روتے ہوئے کہا: آج کے بچوں میں پہلے جیسی بات نہ رہی، اپنے ٹیچروں کا ذرا احترام نہیں اور اگر ضِد پر آجائیں تو خدا کی بھی خیر نہیں!!

ٹھہر ٹھہر کر باہر بارش ہو رہی ہے کلاس روم میں بچے جماہیاں مارنے لگے، خدا نے موڈ بنانے کے لئے بچوں کے سامنے اپنی چمتکاری کے جوہر بکھیرنا شروع کر دیئے ـ اپنا روپ بدل کر خدا نے بچوں سے پوچھا: پہچانو، میں کون؟ سب بچوں نے آنکھیں پھاڑ کر چلاّیا: ”اُسامہ بن لادن!“ واپس اپنی اصلی شکل میں آکر خدا نے بچوں سے پھر پوچھا: پہچانو، اب میں کون؟ سب بچوں نے ایک ساتھ کہا: ”خدا“ ـ خوفناک انداز میں مسکراتے ہوئے خدا نے بچوں سے کہا: شاباش! خوب پہچانا ـ خدا نے کہا: سچّی بات یہ ہیکہ اُسامہ اور خدا دونوں بھی ہم ہیں جو ساری دنیا کو پریشان کرتے پھر رہے ہیں جس کیلئے امریکہ سے ہمیں پیسے بھی ملتے ہیں ـ ـ ـ اور بہت جلد ہم اپنا تازہ ویڈیو ریلیز کرنے جا رہے ہیں جس میں اُسامہ نے ڈائریکٹ خدا پر ہی دھمکیاں ماری ہیں ـ ـ ـ دانت دکھاتے ہوئے خدا نے کہا: یہ راز کی بات ہے مگر کسی کو بتانا نہیں!! سب بچوں نے ڈر اور خوف کے مارے رونا شروع کردیا تو خدا نے دہاڑ کر کہا: خاموش!! ورنہ ہم اِس اسکول کی عمارت پر میزائل ٹھوک دیں گے ـ بچوں نے خوشی میں تالیاں بجانا شروع کردیا کہ یہ شُبھ کام آج ہی چار بجے اسکول چھٹنے کے فوری بعد کر دیں ـ

آج اسکول ڈے کے موقع پر سبھی بچّے کھڑے خدا کی شان میں ترانے گائے ـ دانت دکھاکر خوش ہونے کے بعد خدا نے مائک پر زور سے کہا: شاباش! بیٹھ جاؤ اور ایک ایک کرکے ہم سے پوچھ لو کہ کیا پوچھنا ہے ـ ایک بچے نے کھڑے ہوکر باادب خدا سے پوچھا: مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے مثالوں کے ساتھ بیان فرما دیں ـ خدا نے غصّے میں بچے کو گول گھماکر دور پھینکنے کے بعد کہا: بدتمیز! خدا سے بیحودہ سوال کرتے ہو؟ یعنی کہ ہم مر کر زندہ ہوئے ہیں! ہم خدا ہیں اور ابھی تک زندہ ہیں، بھلا ہمیں کیا معلوم کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے ـ ایک اور بچے نے خوف کے مارے کانپتے ہوئے خدا سے کہا: لیکن ہمارے مذہبی کتابوں میں مرنے کے بعد نہایت ڈراؤنے واقعات لکھے ہیں ـ خدا نے ڈانٹتے ہوئے کہا: ارے نالائق بچّو! مرنے کے بعد کے واقعات زندہ لوگوں نے ہی لکھے ہیں نا ـ خود زندہ لوگوں نے اناپ شناپ کتابیں چھاپ دیں کہ مرنے کے بعد ایسا ہوتا ہے ویسا ہوتا ہے انکی امّاں کی ٹانگ ہوتی ہے!! سب بچوں نے کھلکھلاکر ہنس دیا تو خدا نے دہاڑ کر کہا: خاموش!! زندہ دل لوگ اپنی زندگی کے بارے میں سوچتے ہیں اور مردہ دل والے اپنے مرنے کے بعد تک کے حالات سوچ سوچ کر پاگل ہوجاتے ہیں ـ

حالات حاضرہ پر خطبہ پڑھتے ہوئے خدا نے بچوں سے کہا: آپ واقعی بچے ہیں من کے سچے ہیں، شرارت تمہارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہے مگر تمہارا دماغ نہایت معصوم ہے ـ تمہارا چہرہ اتنا پیارا کہ ہر کوئی تمہیں گود میں اٹھاکر چوم لے مگر کس کو کیا خبر کہ آدھی رات کو اٹھ کر انٹرنیٹ پر تم کیا دیکھتے ہو؟ باپ کا کریڈٹ کارڈ چراکر ننگی فلموں پر ہزاروں لٹاتے ہو؟ صرف ننگا تماشہ دیکھنے کیلئے مہنگا موبائل خریدتے ہو؟ ٹیکنالوجی کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے بیحودہ چیزیں ایکدوسرے کو ایس ایم ایس کرتے ہو؟ ـ ـ ـ چھاتی پیٹ کر روتے ہوئے خدا نے کہا: مگر قصور تم بچوں کا نہیں بلکہ قصور تو حالات کا ہے جسے تمہارے بڑوں نے جنم دیا، ہر سال ایک نیا زمانہ لاتے ہیں ایک نیا کلچر پیدا کرتے ہیں ـ کہیں باپ اپنی بیٹی کی مار رہا ہے اور ماں اپنے بیٹے سے مروا رہی ہے ـ باہر دنیا میں الگ پہچان ہے اور گھروں کے دروازے کے اندر عجب تماشہ ہے ـ تم لوگ دور دور کی خبر گیری کرتے ہو مگر اپنے پڑوسی کا احوال نہیں پتہ! تم معصوم بچے اسی کو اپنا کلچر مان لیتے ہو ـ کتابوں میں لکھی اچھی باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آتیں، اب سوائے گالی کے تمہیں ڈانٹ نہیں ملتی، بس میں کنڈیکٹر سے گالی کھاتے ہو، گلی میں آئس کریم والے سے گالی سنتے ہو، اب اسکول میں ٹیچر بھی تمہاری ماں بہن کی گنتے ہیں!!

دہاڑ کر روتے ہوئے خدا نے کہا: سارا کا سارا قصور ہمارا ہی ہے کہ ہم نے انسان کو بنا دیا، آج یہ انسان اتنا ترقی کرگیا کہ خدا پر بھی میزائل مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے ـ پہلے زمانے میں لوگ بڑے ہوکر بدمعاش بنتے تھے مگر آج کے بچے بچپن میں ہی لوفر بن گئے! توبہ کیا زمانہ آگیا کہ اُستاد اور شاگر ساتھ بیٹھ کر شراب پیتے ہیں، اب غنڈوں کے بجائے ٹیچر لوگ بھی عصمت دری کی خبروں میں خوب چھائے رہتے ہیں! پڑھائی کے نام پر سیکس کو موضوعِ بحث بناتے ہیں ـ پہلے اُستاد کا مار پھولوں کا ہار سمجھا جاتا تھا اور آج اسکولوں میں پٹائی کے نام پر بچوں کے دانت توڑتے ہیں، ہاتھ توڑتے ہیں یہاں تک کہ مار مار کر بیہوش بھی کر ڈالتے ہیں ـ خدا نے تین بار کہا: لعنت ہے لعنت ہے لعنت ہے ـ ـ ـ اسکولوں میں ہزاروں کی فیس لوٹتے ہو، پڑھائی کے نام پر دھندہ چلاتے ہو ـ ـ ـ ڈاکٹری پڑھنے کے بعد لٹیرے بنتے ہو، انجینئرنگ کرنے کے بعد لوگوں کو دھوکہ دیتے ہو اور جس نے وکالت سیکھ لیا اُس نے اپنے باپ پر ہی الزام ٹھوک دیا کہ یہ ہماری ماں کے ساتھ بیٹھا تھا ـ ـ ـ آنسو پونچھتے ہوئے خدا نے بچوں سے کہا: میاں،تالی تو بجاؤ کہ ہم نے اتنا زبردست بھاشن بولا ـ سب بچوں نے زوردار تالیاں بجاکر خدا کو خوش کر دیا ـ

موڈ بنانے کیلئے ایک بچے نے خدا سے پوچھا: کیا آپ نے نئی فلم ”جودھا اکبر“ دیکھی؟ بیزارگی سے خدا نے کہا: میاں، ہم اتنے بھی فضول نہیں کہ فضول فلمیں دیکھ پاتے ـ البتہ ہم نے اِس فلم کے خلاف جلوس میں شامل ہوکر نعرے لگائے ـ خود اِس پکچر کے فلمسازوں نے ہم سے کہا کہ میڈیا کے آگے ہماری فلم کے پوسٹرس پھاڑو تاکہ مفت میں پبلسٹی ملجائے اور اس کام کے لئے ہمیں سو روپئے ملے ـ سب بچوں نے خدا کی چالاکی پر تالیاں بجاکر سواگت کیا ـ پھر انتاکشری کھیلتے جب خدا کی باری آئی تو 'ٹ' پر اٹک گیا ـ خدا نے اُس بچے کو پاس بلاکر خوب پٹائی کر دی جس نے 'ٹ' پر گانا ختم کیا، خدا نے غصّے میں کہا: حالانکہ 'ٹ' پر کوئی گانا ہمیں یاد نہیں اور جب ہماری باری آئی تو 'ٹ' پر اٹکا دیا؟ ایک بچّی نے کھڑے ہوکر خدا سے کہا: 'ٹ' سے ٹن ٹن ٹن اسکول کی گھنٹی بجاؤ اور ہماری چھٹی کرو ـ خدا نے غضب میں آکر کہا: بڑی نالائق بچی ہے، ہمارے بھاشن سے بور ہوگئی ہے ـ خدا نے بچوں سے کہا: واقعی یہ قسط کافی لمبی ہوچکی ہے نا؟ ایک بچے نے خدا سے پوچھا: یہ آپکی قسطیں کون پڑھے کہ کس کے پاس اتنا ٹائم ہے؟ خدا نے جواب دیا: میاں، ہماری قسطیں ایک کڑوا سچ ہے جو ہر کسی سے ہضم نہیں ہوتا، کئی پڑھنے والوں کی زبان لڑ کھڑا جاتی ہے اور کئی پڑھنے والے ایک سانس میں پڑھ جاتے ہیں!!

خدا نے بچوں سے کہا: اب زیادہ بور ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ آخری پیراگراف ہے ـ اپنے سارے کے سارے ہاتھ پھیلاکر خدا نے بچوں سے کہا: دنیا میں انسانیت ختم ہونے کو ہے، خود انسانوں کو ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں ـ تم بچے بھی بڑے ہونے کے بعد ایسے ہی بنو گے، تم چاہتے ہو کہ جلدی سے بڑے ہوکر اِن کمینے لوگوں میں خود کو کمینہ منوائیں؟ اچھائی دکھانا چاہتے ہو مگر ہر جگہ رسوائی ملتی ہے، بھلائی کرو تو پبلک تمہاری دُھلائی کرتی ہے، تمہاری نیک نیّتی کسی کو اچھی نہیں لگتی، تمہارے بھولے پن سے دوسرے فائدہ اُٹھاتے ہیں ـ پڑھائی میں دھوکہ، پڑھ لکھنے کے بعد بھی دھوکہ ـ نوکری کیلئے دھکّے کھاتے ہو پھر نوکری پالینے کے بعد دوسروں کو دھکّے مارتے ہو؟ ـ ـ ـ اچھا ہے کہ تم بچے ہی رہو، معصومیت قائم رکھو ـ ـ ـ اگر دنیا میں کہیں انسانیت ہے تو وہ صرف تم بچوں میں ہے ـ تم بڑے ہوجاؤگے تو انسانیت کو چھوڑ کر کوئی ہندو بنے اور مسلمان، پھر اپنے بچپن کی یاری بھول کر ایکدوسرے کی ٹانگ کھینچتے رہو گے ـ پڑھ لکھنے کے بعد خدا کو بیوقوف بناتے ہی ہو مگر شرم کی بات ہے کہ تم خود بھی بیوقوف بنتے ہو ـ ـ ـ دہاڑ کر روتے ہوئے خدا نے بچوں سے کہا: تم نہ ہندو ہو نہ مسلمان بلکہ معصوم ننھے منّے بچے ہو اور خدا کے نزدیک سب سے عزیز تم ہی ہو ـ ـ ـ سبھی بچوں نے زبردست تالیاں بجائیں، خدا نے شکریہ کے طور پر بچوں میں پانچ پانچ روپئے بانٹے تو بچوں نے خوشی میں دوبارہ تالیاں بجائیں ـ ـ ـ خدا نے بچوں کو ڈانٹا: ارے کمبختوں! بس بھی کرو ہمارے پاس اور پیسے نہیں ہیں!! ـ ـ جاری

باقی پھر کبھی

[ یہ خدا ہے ـ 63 ]

Post a Comment